کشمیر کا سید زادہ۔۔محمد فیصل

اب جبکہ پوری قوم یوم یکجہتی کشمیر مناچکی ہے تو نجانے کیوں مجھے کشمیر کا وہ سید زادہ رہ رہ کر یاد آرہا ہے جو جنت نظیر وادی میں اپنے اجداد کی قربانیوں کی یاد کو تازہ رکھے اس پیرانہ سالی میں بھی استقامت کا ایک پہاڑ بن کر کھڑا ہے۔ سید علی گیلانی کشمیر کا وہ سپاہی ہے کہ جس کے ذکر کے بغیر جدوجہد آزادی کشمیر کی داستان ہی ادھوری ہے۔وہ وادی میں” کشمیر بنے گا پاکستان ” کے نعرے کا سب سے بڑا داعی ہے۔جب وہ اپنی نحیف آواز میں کہتا ہے کہ ہم پاکستانی ہیں اور پاکستان ہمارا ہے تو اس کے لہجے کی مضبوطی دنیاکو پیغام دیتی ہے کہ سید زادے کو اپنی منزل کا خوب علم ہے۔ دور حاضر کی کربلا میں وقت کے یزید کے ہاتھوں ستم اٹھانے والا سید زادہ کہتا ہے کہ پاکستان سے تعلق کلمہ طیبہ پر مبنی ہے اور جب وادی کشمیر میں کسی شہید کوپاکستانی پرچم میں لپیٹ کر دفن کیا جاتا ہے تو وہ بتارہے ہوتے ہیں کہ کلمہ طیبہ کا یہ تعلق سانس سے لحد تک کا ہے۔

سید علی گیلانی اس قبیل سے تعلق رکھتا ہے جس نے نہ تو کبھی پشت سےوار کیا ہے اور نہ ہی کبھی اپنی قوم کا سودا کیا ہے۔ وہ سوکھے ہوئے تالاب پر بیٹھا وہ ہنس ہے جو تعلق نبھاتے ہوئے مرجاتا ہے۔ وہ میر جعفر اور میر صادق نہیں بلکہ ایک سید زادہ ہے جسے وفا کا ہر امتحان زبانی یاد ہے۔وہ کشمیر میں بیٹھ کر اپنے جوانوں کی قربانیاں دے رہا ہے اور بس اتنا کہہ رہا ہے کہ” بس اس کے جوانوں کی جبینوں پر زخم نہ لگے کیونکہ مائیں تو بریدہ سر بھی چومتی ہیں”۔

آپ نے یوم یکجہتی کشمیر منالیا لیکن کشمیری ہر روز وہاں “یوم پاکستان” مناتے ہیں۔ کشمیر میں مظلوموں کا بہنے والا خون کا ایک ایک قطرہ پاکستان اور آزادی سے ان کی لازوال محبت کا احساس دلارہا ہے۔وہ پاکستان سے محبت میں ایسے قرض بھی چکارہے ہیں جو ان پر واجب بھی نہیں ہیں لیکن سوال تو یہ ہے کہ آخر ہم کیا کررہے ہیں؟کشمیری آج بھی محصور ہیں۔ظلم کی ایک طویل سیاہ رات وادی پر طاری ہے لیکن کشمیریوں کے چہرے کسی چمکدار دن سے زیادہ روشن ہیں۔۔کشمیری اگر آج جرات کا استعارہ بنے ہوئے ہیں تو ہم بزدلی کا خلاصہ بن گئے ہیں۔ وہ اپنا لہو پیش کررہے ہیں تو ہم سڑکوں پر محض آزادی کے نعرے لگا کر اپنا فرض پورا کررہے ہیں۔۔ کشمیری ماٶں بہنوں کی چادریں چھینی جارہی ہیں اور ہم لمبی چادر تان کر سورہے ہیں۔وہ لہو سے پاکستان سے اپنی محبت کا خراج ادا کررہے ہیں تو ہم مصلحت پسندی کا شکار ہوکر اپنی آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں۔

یوم یکجہتی کشمیر پر مجھے ایسا محسوس ہوا کہ جیسے جیسےسید زادے کے آنسومظالم کو سہتے سہتے خشک ہورہے ہیں ،ویسے ویسے ہمارے قہقہے بلند ہورہے ہیں ۔سید زادہ ہمیں کہہ رہا ہے کہ یہ قیام کا وقت ہے لیکن ہم سجدہ ریز ہیں ۔سید جرات کا استعارہ ہے تو ہم بزدلی کا خلاصہ ہیں ۔اس کی کمزور ہڈیوں میں بجلی بھری ہے تو ہم اپنے مضبوط جسموں کے ساتھ مخملی بستروں پر دراز ہیں ۔وہ دہائی دے رہاہے کہ ہماری نسل کشی ہورہی ہے ،ہماری مدد کے لیے نہ آئے تو خدا کو کیا منہ دکھاؤ گے اور ہم خدا کو تو کیا خود کو بھی منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے ہیں ۔سید علی گیلانی جب کسی شہید کے جنازے پر رندھی ہوئی آواز میں نعرہ تکبیر بلند کرتا تھا ،تو کشمیر کے کوہسار اللہ اکبر کہہ کر اس کا جواب دیتے تھے ۔جب وہ کسی شہید کو پاکستان کے پرچم میں آخری آرام گاہ کی طرف لے جارہا ہوتا تو ”کشمیر بنے گا پاکستان”کا نعرہ اس کے لبوں پر ہوتا تھا ۔پاکستان اس کا عشق ہے ،لیکن ہم اس کی محبت کا جواب اپنی بے حسی سے دے رہے ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

کربلا کی طرح آج کشمیریوں کا پانی بھی بند ہے ۔وہ زمین جہاں سے دریا پھوٹتے ہیں اس کے باسیوں کے حلق پیاس سے خشک ہورہے ہیں ۔آج پھر کشمیر میں مائیں بہنیں بے آسرا ہیں۔کشمیری نوجوان موت کی آنکھوں میں آنکھیں ملائے کھڑے ہیں۔ وہ پہلے ہی بہت کچھ لٹاچکے ہیں اور مزید بھی سب کچھ لٹانے کے لیے تیار ہیں اور ہم ہیں کہ چادریں منہ پر ڈال کر نیند کی گہری آغوش میں ہیں ۔پہلے ہی بہت دیر ہوچکی ہے ۔کشمیر کا فیصلہ اقوام متحدہ میں جذباتی تقریریں کرنے سے نہیں ہوگا۔مجھے ایسا لگتا ہے کہ فیصلے کی گھڑی آگئی ہے ۔سید نے خیمے لگادیے ہیں ۔وہ اپنی کشتیاں پہلے ہی جلاچکا ہے ۔اس کے پاس زیادہ وقت نہیں ہے ۔یاد رکھنا وہ سید زادہ ہے ۔سجدے کی حالت میں سرکٹانا اس کی ریت ہے ۔اب امتحان کی گھڑی ہماری ہے ۔ہمیں سمجھنا ہوگا کہ محض زبان کے کہہ دینے سے کشمیر پاکستان نہیں بنے گا۔ہمیں سید زادے کی آواز پر لبیک کہنا ہوگا جو امت کو مدد کے لیے پکاررہا ہے۔اگر ہم نے اس کی پکار کو نظر انداز کردیا اور کوفیوں کی پیروی کی تو پتا نہیں مجھے کیوں ایسا لگ رہا ہے کہ روز محشر بارگاہ رسالت ص میں کشمیر کا یہ سید زادہ ہمیں معاف نہیں کرے گا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply