تربیت کا فقدان اور روایتی جذباتی پن۔۔محمد حسنین اشرف

روزمرہ کی زندگی میں، بہت سے ایسے معاملات پیش آتے ہیں جس سے ہمارے سامنے مختلف زاویہ نظر آتے ہیں۔ سوچی سمجھی باتوں پر تنقید ہوتی ہے اور اس تنقید سے نئی چیزیں ابھر کر سامنے آتی ہیں۔ یہ نہایت فطری سا عمل ہے۔ ہمارے ایسے معاشروں میں انسان کے قدموں پر مذہب بہت سی بیڑیاں ڈالے رکھتا ہے۔ یہ بیڑیاں ٹوٹتے ہی انسان کو کچھ سکون محسوس ہوتا ہے۔ اور چونکہ اس کی وجہ بہت سے نئے دریافت شدہ حقائق ہوتے ہیں۔

جب یہ حقائق آپ پر ہمارے ایسے معاشرے میں وا ہوتے ہیں تو اپنا آپ آزاد آزاد محسوس ہوتا ہے۔ خود پر اور اپنے جیسوں پر یونہی پیار آنے لگتا ہے۔ اردگرد کی دنیا پر افسوس ہوتا ہے کہ وہ کیسے گمراہی اور جہالت میں پڑے مر رہے ہیں۔ دل میں ہوتا ہے کہ ان کو بھی درست بات بتائی جائے۔ ان کو آزاد کیا جائے، یہ جن پابندیوں میں پڑے خواہشات نفسانی سے دور کڑھ کر مر رہے ہیں انہیں آزاد کیا جائے۔ یہ تبلیغی جماعت کی نفسیات ہیں جن میں انسان خود کو ناصح کے مقام پر فائز کرتا ہے۔

اس مقام پر فائز ہونے کا پہلا قدم آپ اس حالت میں اٹھاتے ہیں کہ رائج عقائد کے خلاف ہلکی پھلکی گفتگو شروع ہوتی ہے۔ لیکن جب سامنے والے کا جواب رٹے رٹائے جملوں، سنی ان سنی کردینا اور لاجواب ہوکر غصے میں تپ جانے سے آتا ہے تو آپ کو احساس ہوتا ہے کہ یہ جہلا ہیں، یہ جاہل خود کو ان بیڑیوں سے آزاد ہی نہیں کروانا چاہتے۔ اب آپ خاموشی اختیار کرتے ہیں تو وہ لاوا پکتا رہتا ہے اور بات بہ بات بہہ نکلتا ہے۔ اب آپ بھگت سنگھ بن چکے ہیں۔

اب آپ کے لیے رائج عقائد وہ برائی ہیں جس سے خیر برآمد ہو ہی نہیں سکتی۔ اب اردگرد کے لوگ مکمل جاہل، پاگل اور نفسیاتی نظر آئیں گے۔ تاریخ اور ایسے تمام مضامین فراڈ اور ان عقائد سے ملحق لوگ پرلے درجے کے جھوٹے لوگ معلوم ہوں گے۔

بھگت سنگھ بن کر آپ سر دھڑ کی بازی لگانے سے نہیں گھبراتے، اب آپ گفتگو کرتے وقت رائج عقائد کے متعلق الفاظ کا چناو بھی ایسا نہیں کرتے جن سے گفتگو کا دف مرا رہے۔ کیونکہ آپ حق پر ہیں اور یہ توہم پرست اور بیوقوف ہیں۔ اس قوم کو الٹا آپ کا شکرگزار ہونا چاہیے تھا یہ تو پل پڑ رہے ہیں آپ پر۔

چونکہ سقراط نے زہر پیا تھا تو آپ بھی نسل نو ءنکی تربیت کے لیے یہ زہر پینے کو تیار ہیں۔ اور چونکہ آپ کی اس محنت اور خدمت کا صلہ قوم اچھے طریق میں نہیں لوٹا رہی اور کیونکہ اس وقت تک آپ کو جہالت کے خلاف جنگ پر نوبیل انعام تو مل جانا چاہیے تھا لیکن یہ احمق آپ کو گالیوں اور دھمکیوں سے نواز رہے ہیں تو آپ جواب میں ان کے عقائد پر بار بار زد کرکے مقدس شخصیات سے متعلق ہلکی گفتگو کرکے اپنی آزادی کی توثیق اور ان کو تکلیف پہنچانے کی بھرپور کوشش میں ہیں تو اس لیے آپ کے نزدیک نارمل ہے۔

اس میں آپ ایک فاش غلطی یہ بھی کرتے ہیں کہ خود کو مغربی لبرل/سیکولر وغیرہ تسلیم کرلیتے ہیں۔ تو اب آپ کے اقدام کو ایک بڑے گروہ سے تقویت ملنا شروع ہوجاتی ہے۔ جن کی اقدار و اخلاق آپ کو چھو کر بھی نہیں گزرا ہوتا لیکن کیا کیجیے۔

یہ وہ وقت ہے جہاں تربیت کا فقدان اور خاص کر اس لبرل اور سیکولر سوسائٹی کے علماء سے فقط باتیں سن لینے اور تربیت نہ ملنے سے آپ شدید خطرے میں ہیں۔

اب جب آپ کی باتوں سے غصہ ہو کر مجمع آپ کو مارنے دوڑے گا تو بے شک یہ مجمع غلط کام کرے گا۔ لیکن خود سے سوچیے کہ کیا آپ نے کچھ نہیں کیا؟ اور اگر کیا تو کیا آپ کو اس کی قمیت کا علم نہیں تھا؟ اس مجمع کی تو تربیت ہونی ہی چاہیے، ہزار بار ہونی چاہیے۔ لیکن کیا تربیت کی کمی آپ میں بھی نہیں تھی؟ کیا حق صرف تضحیک آمیز رویہ اور جملہ بازی کا نام ہے؟ اگر ان کا جذباتی پن جہالت ہے تو آپ کی جذباتیت یا غصے میں کسے گئے جملے کیا ہیں؟

Advertisements
julia rana solicitors london

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

محمد حسنین اشرف
ایک طالب علم کا تعارف کیا ہوسکتا ہے؟

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply