میری وفا پر یقین رکھنا ۔۔۔۔۔مونا شہزاد

 ماہم جس روز پیدا ہوئی اسی روز شائستہ خالہ نے اسے اپنے دس سالہ بیٹے عبید الرحمان کے لئے مانگ لیا۔ اس نے جیسے جیسے شعور کی وادیوں میں قدم رکھا اس کے کانوں نے یہی سنا کہ وہ عبید الرحمان کی “منگ” ہے۔ ماہم کے رگ وپے میں عبید الرحمان کی محبت بچپن سے لہو کی طرح دوڑ رہی تھی۔ماہم کا تعلق ایک متوسط گھرانے سے تھا، ابا سرکاری ملازم تھے ،وہ سات بہن بھائی تھے۔ ہر سال جہاں مہنگائی بڑھتی جاتی وہیں پر اماں کی گود میں ایک نیا بہن بھائی آجاتا۔ ماہم اپنے بہن بھائیوں میں دوسرے نمبر پر تھی، بڑے بھیا کو تو دن بھر اپنے آپ سے فرصت نہ ملتی،وہ صبح صبح “بابو” کی طرح سج دھج کر گھر سے نکلتا اور رات گئے، گھر داخل ہوتا۔ماہم پر تو جیسے بچپن آیا ہی نہیں،وہ ایک حساس محبت کرنے والی لڑکی تھی، اماں کی خرابی صحت کو نظر میں رکھ کر وہ اماں کا سایہ بن گئی ۔اسکول سے واپس آکر وہ اماں اور چھوٹے بہن بھائیوں کے کام کرتی۔رات کو جب وہ بستر پر لیٹتی تو اس کا جوڑ جوڑ دکھ رہا ہوتا۔اسی طرح شب و روز گزر رہے تھے، یہاں تک وہ دسویں میں پہنچ گئی ۔اس پر غضب کا جوبن آیا تھا،اس کی بھنورا کٹورا آنکھیں، دودھ میں ملی رنگت، دراز چوٹی ،سرو قامت کسی کو بھی بھنورا بنانے کی اہلیت رکھتی تھی، مگر اس کے خوابوں پر صرف عبید الرحمان کی حکومت تھی۔وہ فارغ وقت میں اکثر اپنے ہاتھ میں پہنی ہوئی خوبصورت یاقوت جڑی سونے کی انگوٹھی کو دیکھتی، جو شائستہ خالہ اس کو مڈل کے امتحانات کے بعد عبید الرحمان کے نام کی پہنا گئی تھیں ۔وہ اس انگوٹھی کو اکثر اماں کی نظر سے بچ کر چومتی اور خود ہی شرم سے بیر بہوٹی بن جاتی۔ عبید الرحمان کا تقرر پاک فوج میں ہوگیا تھا، ماہم نے جب دسویں کے امتحان دئے تو شائستہ خالہ نے اماں سے رخصتی کی تاریخ مانگ لی۔ اماں نے رمضان سے پہلے کی انھیں تاریخ دے دی۔ ماہم اور اماں شادی کی تیاریوں میں مصروف ہوگئے۔اماں کام والے زرق برق جوڑے اس کو پہنا پہنا کر خوش ہوتیں اور اس کے اچھے نصیب کی دعائیں کرتیں ۔ماہم تصور ہی تصور میں سوچتی کہ عبید الرحمان کے لئے جب یہ کپڑے پہن کر وہ سجے گئ تو وہ کیسے اس پر فریفتہ ہوگا۔ وہ اس خیال سے ہی کسمسانے لگ جاتی۔ آخر کار وہ دن آہی گیا، ماہم سرخ عروسی لباس میں سجی دھجی عبید الرحمان کے سنگ رخصت ہوکر خالہ کے گھر آگئی ۔
آج اس کی شب عروسی تھی، اپنے پیا کے انتظار میں اسے لطف آرہا تھا، مگر اس کا انتظار، انتظار ہی رہا، رات کا اندھیرا، صبح کے اجالے میں بدل گیا مگر ماہم کی رات کا سویرا نہ ہوا۔ بیٹھے بیٹھے اس کی کمر اکڑ کا تختہ ہوگئی تھی، اس کا کاجل آنسوؤں میں بہہ چکا تھا ۔صبح شائستہ خالہ اس کے کمرے میں آکر اس کے پیروں میں گر گئیں ۔انھوں نے اعتراف کیا کہ عبید الرحمان درحقیقت ماہم سے شادی ہی نہیں کرنا چاہتا تھا ۔وہ درحقیقت کسی اعلی تعلیم یافتہ لڑکی سے شادی کرنا چاہتا تھا، وہ اپنی شریک حیات ایک پڑھی لکھی، باشعور لڑکی چاہتا تھا۔ میٹرک پاس لڑکی اس کا خواب ہرگز نہیں تھی۔ ماہم کے سپنوں کا محل یہ سن کر زمین بوس ہوگیا۔ مگر اس نے پھرتی سے آنسو صاف کرکے شائستہ خالہ کو اپنے پیروں سے اٹھایا اور گلے سے لگایا اور رسان سے بولی:
“خالہ! انھوں نے پڑھائی کی ہی تو شرط رکھی ہے ، میں انشاءاللہ آپ کی مدد سے یہ منزل بھی طے کرلونگی۔”
خالہ نے اسے خوب دعائیں دیں ۔جب ماہم کے گھر والے پہنچے ،تو ماہم نے انھیں یہی بتایا کہ آرڈر آنے کے باعث عبید الرحمان کو ہنگامی بنیادوں پر جاب پر واپس جانا پڑا۔
ماہم نے کچھ دنوں کے بعد کالج میں داخلہ لے لیا۔ عبید الرحمان چھ ماہ بعد چھٹیاں گزارنے گھر آیا، تو اس کا رویہ ماہم سے بہت ناروا تھا۔ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر اس کی بری طرح بے عزتی کردیتا۔ایک دن اس کی نظر اس کی انگلی میں پہنی ہوئی یاقوت جڑی خوبصورت انگوٹھی پر پڑی تو وہ چیل کی طرح اس پرجھپٹا اور دہاڑا:
“یہ منحوس انگوٹھی فورا اتار کر مجھے دے دو ۔اسی کے باعث تم جیسی گنوار عورت پہلے میری منگ بنی اور پھر بیوی ۔”
ماہم نے آنسوؤں کو ضبط کرتے ہوئے اپنے ہاتھ سے انگوٹھی اتار کر اسے دے دی۔
ماہم نے BSc مکمل کرنے کے بعد MSc Chemistry میں داخلہ لے لیا۔ عبید الرحمان اس کی تعلیمی مصروفیات سے مکمل بے خبر تھا۔ ماہم نے خالہ کو قسم دی تھی کہ اس کی تعلیم کے بارے میں عبید کو وہ کچھ بھی نہیں بتائیں گی۔
آج عید کے دن عبید نے اپنے چند دوستوں کو شام کو دعوت پر بلایا تھا۔ ماہم نے دعوت کا سارا انتظام بہت شوق سے کیا۔ شام کو عبید الرحمان اپنا بلیک ڈنر سوٹ پہن کر ابھی اپنا جائزہ شیشے میں لے ہی رہے تھے کہ انھوں نے ماہم کو باتھ روم سے نکلتے دیکھا، سرخ انار کلی پشواز ،تنگ پائجامے اور لمبا سا دوپٹہ،نفیس سی جیولری پہنے وہ انھیں کسی اور دنیا کی مخلوق لگی۔ وہ بےاختیار ہی ڈریسنگ ٹیبل سے ہٹ کر صوفے پر بیٹھ گئے ۔ماہم نے اپنے بالوں کو برش کیا، اس کے بالوں سے ٹپکتے پانی کے قطرے ان کو بہت بھا رہے تھے۔عبید الرحمان کی گہری کچھ بولتی ہوئی آنکھیں ماہم کو نروس کر رہی تھیں ۔شام کو جب تمام مہمان پہنچ گئے تو ماہم نے ان سب کا سواگت بڑے خلوص سے کیا۔ آج عبید کے کان نہ چاہتے ہوئے بھی ماہم کی طرف متوجہ تھے۔ برگیڈیر عنایت اللہ کی بیگم نے اچانک انگریزی میں ماہم سے اس کی تعلیم کے بارے میں پوچھا۔ عبید الرحمان کے دل کی دھڑکن رک سی گئی ،مگر اس کی حیرت کے مارے سانس رک سی گئی جب بہت شستہ انگریزی میں ماہم نے انھیں بتایا کہ اس نے MSC Chemistry کے امتحانات دیئے ہیں اور وہ رزلٹ کا انتظار کررہی ہے۔یہ سن کر عبیدالرحمان کے لئے دعوت میں وقت گزارنا مشکل ہوگیا۔ دعوت کے اختتام پر ماہم جب سب چیزیں سمیٹ کر اپنے کمرے میں پہنچی ،تو کمرے کی حالت دیکھ کر چکرا گئی ۔کمرا حجلہ عروسی کی طرح سجا ہوا تھا۔ عبید الرحمان اس کا ہاتھ پکڑ کر نرمی سے بولے:
“ماہم میں نے اپنی جھوٹی انا اور جہالت میں ہماری زندگی کے خوبصورت چھ سال گنوا دیئے ۔میں صرف ڈگریوں کے حصول کو ہی شعور کی علامت سمجھتا رہا، تم نے تعلیم حاصل کی مگر مجھے بتایا تک نہیں ۔ میں تمھیں زلیل کرتا رہا مگر درحقیقت میں اپنے آپ کو زلیل کررہا تھا۔”
ماہم نے بے اختیار اس کے لبوں پر ہاتھ رکھ دیا۔ عبید الرحمان نے ماہم کے ہاتھ کو چوما اور یاقوت کی خوبصورت انگوٹھی اس کی انگلی میں پہنا دی۔ ماہم نے مسکراتے ہوئے اپنے ہاتھ کی طرف دیکھا۔ سجنا کے ہاتھ سے پہنائی گئی انگوٹھی اس کو اچھے وقت کی آمد کی نوید دے رہی تھی۔

Facebook Comments

Munnaza S
میرا نام مونا شہزاد ہے، میں کالج کے زمانے سے لکھتی تھی،1994 میں بی اے کے دوران قومی اخبارات میں لکھنے کا سلسلہ شروع کیا،جو گاہے بگاہے چلتا رہا۔2001 میں شادی کے بعد کینیڈا آنے سے سلسلہ رک گیا۔میں زندگی کی مصروفیات میں گم ہوگئی،زینب کے سانحے نے مجھے جھنجھوڑ کر بیدار کیامیں نے قلم سے رشتہ استوار کیا۔اب میری تحریریں تمام بڑے آن لائن پلیٹ فارمز،آن لائن رسالوں، دیگر رسالوں اور اخبارات میں چھپتی رہتی ہیں ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply