گِدھ بیمار کیوں نہیں ہوتے؟۔۔وہاراامباکر

جب کوئی جاندار مرتا ہے تو اس کے قدرتی دفاعی نظام بھی ختم ہو جاتے ہیں۔ اگلے پانچ منٹ میں ہی ننھے منے جراثیم اس کو گلانے کے لئے اپنے کام پر لگ جاتے ہیں۔ دعوت اڑانے والے ان مائیکروب میں سے کچھ اور ایک کام کرتے ہیں، یہ ایسے ٹاکسن (زہریلے کمپاونڈ) پیدا کرتے ہیں جو گوشت خور جانوروں کو اپنی اس پارٹی سے دور رکھیں۔ ان مادوں میں اینتھراکس اور بوٹیلائینم جیسے مالیکیول ہیں جن کی تھوڑی سی ڈوز بھی زیادہ تر جانوروں کے لئے مہلک ہو سکتی ہے۔ تو پھر جانوروں کی دنیا میں سے کچھ ایسے کیوں ہیں جو ان کے گوشت کو بغیر کسی مسئلے کے کھا لیتے ہیں؟ آخر یہ مردارخور بیمار کیوں نہیں ہوتے؟

ہم اس کو ابھی سمجھنا شروع ہوئے ہیں کہ مردارخور یہ کیسے کر لیتے ہیں۔ ان کا سب سے پہلا دفاع کوالٹی کنٹرول ہے۔ لومڑیاں اور بھیڑیے بیماری سے مرنے والے جانور کو چھوڑ دیتے ہیں جبکہ دوسرے جانور کا شکار کھا لیتے ہیں۔ یہ ان میں فرق کیسے کر لیتے ہیں؟ یہ ابھی واضح نہیں۔ لگڑ بگڑ عام طور پر صرف تازہ مردار ہی کھاتے ہیں۔ یہ کوالٹی کنٹرول ان کو بیماری سے محفوظ رہنے میں مدد کرتا ہے۔

کئی بار ایسا وقت آ جاتا ہے جب پرانی لاش کے علاوہ کچھ اور میسر نہیں ہوتا۔ گدھ اور بریئنگ بیٹل خود ہی پرانی لاشیں ڈھونڈتے ہیں۔ ایک تو زیادہ بو کی وجہ سے یہ آسانی سے مل جاتی ہیں، دوسرا یہ کہ ان کا گوشت توڑنا آسان ہوتا ہے، تیسرا یہ کہ ان کا دوسرے جانوروں سے دفاع آسان ہوتا ہے۔ دوسرے ان کی طرف نہیں آتے۔

جراثیم کا مقابلہ کرنے کے لئے بیٹل جراثیم کش جوس پیدا کرتے ہیں جو ان پر چھڑکتے ہیں۔ گدھ کا طریقہ کار مختلف ہے، یہ اپنی اینٹی بائیوٹک کھانے سے پہلے کے بعد بجائے کھانے کے بعد پسند کرتے ہیں۔ ان کے معدے میں ہمارے مقابلے میں دس گنا زیادہ تیزابیت ہوتی ہے۔ یہ اتنا سٹرانگ ہوتا ہے کہ فولاد کو گلا سکتا ہے۔ بہت سے جراثیم اس کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ البتہ کچھ دھن کے پکے پیتھوجن ایسے ہیں، جن میں تشنج اور بوٹلزم کا باعث بننے والے شامل ہیں، جو اس میں سے بحفاظت گزر جاتے ہیں اور ان کی آنت تک پہنچ جاتے ہیں۔

ہمیں یہ اچھی طرح نہیں پتا کہ گدھ پہلے چند ایسے حملے کیسے برداشت کرتے ہیں، لیکن ان خظرناک جراثیم کے یہ حملے برداشت کرنے میں گدھ کے اپنے جراثیم مدد کرتے ہیں۔ ہر نیا مقابلہ ان کے دفاعی نظام کو مضبوط تر کر دیتا ہے اور یہ زیادہ سے زیادہ اینٹی باڈیز پیدا کرنے لگتے ہیں اور ان کے خلاف بھی دفاع بنا لیتے ہیں۔

مردارخوروں کا آپس میں سوشل نظام بھی ان کے امیون سسٹم کو بہتر کرتا ہے۔ لگڑ بگڑ یا شیر جب ایک دوسرے کی صفائی کرتے ہیں یا لڑائی کرتے ہیں تو یہ ایک دوسرے سے تھوڑی مقدار میں جراثیم کا تبادلہ بھی کرتے ہیں۔ اس طرح گروپ میں اینتھراکس جیسے زہریلے مادوں کے خلاف دفاع ڈویلپ ہونے میں مدد ملتی ہے۔

یہ وہی طریقہ ہے جو ہم انسان استعمال کرتے ہیں۔ گردن توڑ بخار یا چیچک کی جراثیموں کے خلاف۔ ہم نے اس کا نام ویکسین رکھا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply