اشاروں سے کہانی مکمل کریں ۔۔۔عاصم اللہ بخش

اقوام متحدہ کا اجلاس ۔۔۔۔ وزیراعظم پاکستان کی اس اجلاس میں شرکت کے لیے اسلام آباد سے روانگی، راستے میں سعودی عرب میں مختصر قیام۔ پھر وہاں سے سعودی ولی عہد کے ذاتی جہاز میں امریکہ کے لیے عازم سفر ۔۔۔۔ امریکہ میں دھواں دار تقاریر اور پھر ترک اور ملائیشیائی لیڈران کے ساتھ نیویارک میں ملاقات ۔ باہمی تعاوک کی بات چیت اور مسلم امہ کا نقطہ نظر واضح کرنے کے لیے انگریزی زبان کے ٹیلی وژن چینل کے قیام کا اعلان ۔ واپسی کے سفر میں سعودی ولیعھد کے طیارے میں “اچانک” خرابی ۔۔ وزیراعظم کی ہنگامی طور نیویارک واپسی ۔۔ وزیراعظم کو بخیریت جہاز سے “اتار” لیا جاتا ہے۔ سعودی ولی عھد کا جہاز اچانک پس منظر میں چلا جاتا ہے اور اب وزیراعظم سعودی ائیرلائن کی ایک عمومی پرواز سے واپس سعودی عرب پہنچتے ہیں اور پھر وطن واپسی ہوتی ہے۔

پاکستان کشمیر میں 5 اگست کے بعد کے حالات سے مضطرب ہے ۔تاہم سعودی عرب اور عرب امارات بھارت کے وزیراعظم کی فقید المثال پذیرائی کے ساتھ ساتھ بھارت کے ساتھ اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدوں پر دستخط کرتے ہیں۔۔اس پر پاکستان میں امہ امہ کا شور مچتا ہے تو سعودی اور اماراتی وزرائے خارجہ پاکستان کا دورہ کرتے ہیں اور مبینہ طور پر یہ بتاتے ہیں کہ کشمیر کو امہ کے مسئلہ کے طور پر نہ دیکھا جائے ۔ادھر ترکی اور ملائیشیا کشمیر پر بھارت کی کڑی مذمت کرتے ہیں ۔ایف اے ٹی ایف میں بھی ترکی اور ملائیشیا پاکستان کی حمایت میں کھڑے رہتےہیں ۔ اب دسمبر میں اس اتحاد کی پہلی باقاعدہ کانفرنس ہونا طے پاتی ہے جس کی بات ستمبر میں نیویارک میں ہوئی ۔وزیر اعظم پاکستان اچانک پھر سعودی عرب کے “خیر سگالی” دورے پر جا پہنچتے ہیں ۔ اس کے بعد انہیں سربراہ کانفرنس میں شرکت کے لیے ملائیشیا بھی جانا ہے ۔ پھر اچانک اطلاع آتی ہے کہ وزیراعظم ملائیشیا نہیں جا پائیں گے ۔۔۔ ان کی جگہ وزیر خارجہ پاکستان کی نمائندگی کریں گے ۔اگلی خبر یہ ملتی ہے کہ وزیر خارجہ بھی نہیں جا سکیں گے ۔ وہ کانفرنس ہو جاتی ہے اور پھر ترک صدر ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو کے دوران یہ انکشاف کرتے ہیں کہ پاکستان نے سعودی عرب کے غیرمعمولی دباؤ پر اس کانفرنس سے علیحدگی اختیار کی ۔ پاکستان ایک مرتبہ پھر پھنس جاتا ہے کہ اس بات کی تردید کرتا ہے تو بھی خرابی ہے اور اس کی تصدیق کرتا ہے تو پھر سو جوتوں اور سو پیاز والی مثال ایک مرتبہ پھر اس پر فٹ بیٹھ جائے گی ۔۔۔۔ اس دوران سعودی عرب کی تردید سامنے آ جاتی ہے کہ وہ پاکستان پر دباؤ دالنے کا سوچ بھی نہین سکتا ۔۔۔۔ وہ تو بس یوں ہی ۔

اب سین یہ ہے کہ جن ممالک نے پاکستان کا بین الاقوامی سطح پر ساتھ دیا ان سے تعلقات میں سرد مہری آ جانے کا قوی امکان ہے اور جس کے لیے یہ سب کیا اسے ہماری ساکھ، اور ہمارے مسائل سے ذرہ برابر دلچسپی نہیں۔

آ رہی ہے چاہ یوسف سے صدا
دوست یاں تھوڑے ہیں اور بھائی بہت

آپ جب یہ کہانی مکمل کر لیں گے تو آپ ضرور یہ محسوس کر لیں گے کہ ہمیں پوری طرح گھیرنے اور مشکیں کسنے کا سامان تیار ہے۔ اس میں آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف کے ذریعہ ہماری معیشت کو ساقط کر دینے کا پہلو بھی ضرور مد نظر رہنا چاہیے۔ بھارت کو کھل کھیلنے اور ہمیں باندھنے میں ہمارے بردران پوری طرح شامل ہیں کیونکہ امریکہ بہادر کے حکم کی پاسداری کے علاوہ انہیں گوادر بہادر اور سی پیک سے بھی مسائل ہیں۔ “برادرنہ امداد” کے ساتھ معاندانہ شرائط پر غور بھی ضروری ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آخری بات یہ ہے کہ اب ہمیں کیا کرنا ہے ۔۔۔ کیونکہ یہ صرف بڑھکوں سے دوسروں کو کوسنے کا محل نہیں ہے۔ یہ جہد مسلسل اور بڑے فیصلے کرنے کا وقت ہے ۔۔۔ ۔۔ اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کر جانا ہے۔ جبکہ ہمارے وژن کی موجودہ حالت یہ ہے کہ اورنج ٹرین پر مسافروں کو دی جانے والی جس سبسڈی پر ہم اتنا متفکر ہیں ۔۔۔۔۔ بارہ سال کی سبسڈی سے زیادہ رقم ہم نے اس میں سیاسی وجوہ کی بنیاد پر کی جانے والی تاخیر سے گنوا دی ۔۔۔۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply