میل جول۔۔۔ وثیق چیمہ

آج کل کے دور کسی پرانے دوست سے مل کر ایک تازگی اور فرحت کا احساس کیوں ہوتا ہے؟ شاید اس لیے کہ ہم وقتی طور پر اس موجودہ زندگی سے نکل کر ان یادوں والی زندگی میں چلے جاتے ہیں جہاں کی صرف اچھی اچھی باتیں ہی ہمیں یاد رہ گئی ہوتی ہیں، سلیکٹو میموری کے کارنامے کی وجہ سے۔

کل ایک دیرینہ دوست کے ساتھ گپ شپ میں یہی موضوع  زیرِ بحث رہا کہ پرانے دوستوں کو ملتے رہنا چاہیے۔ کیونکہ یہ ایک ایسی تھراپی ہے جس کی وجہ سے انسان بہت سے میڈیکل بلز سے بچ جاتا ہے۔

اگرآپ مانیں تو یہ مشورہ دوں کہ دوستوں سے ملاقات کو کم از کم ہر دو ماہ کے بعد دہرا لینے سے آپ ڈپریشن کی کئی اقسام سے بچ سکتے ہیں۔ پاکستانی اندازِ  زندگی میں مردوں کے لیے خاص طور پر چالیس سال کے بعد کی زندگی بہت تنہا ہو جاتی ہے (ہائیں ؟ یہ کیا کہہ دیا ۔ ۔ ۔ وہ عورتوں والی بات کریں نا) ۔ عورت کے بارے میں تو بہرحال لکھا جاتا ہے اور ہمارے جیسے سماج میں عورت کی زندگی کو آسان بنانے کے لیے   بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ مگر یہ حقیقت ہے کہ پاکستانی مرد بھی چالیس کے بعد ایک تنہائی کی سی زندگی گزارتا ہے۔

ہمارا سماجی رہن سہن بچوں کی تعلیم و تربیت سے زیادہ بچوں کے مستقبل کے لیے پیسہ جمع کرنے اور کرتے رہنے کے گرد زیادہ گھومتا ہے۔ اس لیے بچوں کے  سکول کالج جانے کے بعد میاں کا مصرف اتنا ہی رہ جاتا ہے کہ وہ مزید پیسہ کماتا چلا جائے اور فالتو وقت  گھر کی چیزیں مرمت کرنے یا کروانے میں گزار دے۔

ایسے میں اگر کوئی بندہ اپنے دوستوں کے ساتھ کچھ زیادہ وقت گزارنے لگے تو فوراً دوست احباب ہی اس کے درپے ہوجاتے ہیں، کہ اس عمر میں آوارہ ہوگیا ہے۔ گھر میں تو اسکی “شوہر” والی ہوتی ہی ہے، اس کا ذکر کیا۔

حقیقت یہ ہے کہ ابھی تک کے پاکستانی معاشرے میں شادی کے بعد مرد کے اندازِ  زندگی میں زیادہ بڑی تبدیلی آتی ہے۔ ابھی بھی اَسّی فیصد لڑکیاں ایک گھر کے ماحول سے نکل کر دوسرے گھر کے ماحول میں چلی جاتی ہیں اور موبائل ٹیکنالوجی کی وجہ سے ان کا “نفسیاتی سپورٹ سسٹم” ان کے ساتھ ہی چلا جاتا ہے۔

جبکہ لڑکوں میں دوستی، گپ شپ، اور آوارہ خرامی کے جو ادوار شادی سے پہلے چلتے تھے، وہ یکدم معدوم ہوجاتے ہیں۔ شادی کے بعد بچے بھی مرد کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائے رکھتے ہیں۔ مگر جب بچے  سکولوں سے کالج کی جانب چلے جاتے ہیں تو اس کو کچھ خالی خالی لگنے لگتا ہے۔ یہ وہی وقت ہوتا ہے جب اکثر تجزیے چالیس کے مرد کے “ناٹی” ہونے کا ذکر بھی کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنے کھوئے ہوئے لڑکپن کی تلاش میں کنفیوزڈ ہوتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

انسان کے نفسیاتی توازن میں دوستوں کی اپنی ایک اہمیت ہے۔ یہ ایک ایسا رشتہ ہے جس میں لین دین، غرض، اور ذمہ داری، کچھ بھی نہیں ہوتا۔ انسان کا حقیقی کتھارسس اپنے جیسوں کے ساتھ مل کرہوتا ہے۔

Facebook Comments

وثیق چیمہ
خاک ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply