ناموافق حالات ہی ترقی کا زینہ ہیں۔۔۔عثمان ہاشمی

   سفر زندگی میں اگر لمبے عرصے تلک موافق حالات رہیں تو ترقی کا سفر جامد ہوجاتا ہے جبکہ اس کے برعکس نا موافق حالات انسان میں اک تحریک برپا کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں انسان کچھ قدم پیچھے   ہٹتا ہے تو پھر پوری توانائی سے آگے   بڑھتا ہے اور بڑھتا ہی چلا جاتا ہے ۔

یہ صرف چند جملے یا کتابی باتیں نہیں ہیں کہ جو میں لکھ رہا ہوں بلکہ میری اب تک کی شعوری زندگی کا وہ سبق ہے جو میں نے سیکھا ہے  ۔ ۔ تجربہ تو اس لیے نہیں کہوں گا کہ وہ صرف وہی شخصیات کہہ سکتی ہیں جنھوں نے کئی دہائیاں زندگی کے نشیب و فراز میں گزاری ہوں۔ خیر ! یہ ہی کوئی سترہ برس عمر رہی ہوگی کہ جب مجھے کل وقتی تعلیمی سفر کو خیر آباد کہہ  کر ملازمت شروع کرنا پڑی، تقریباً  دس ماہ ملازمت کی ، چڑھتی جوانی اور کچھ کرنے کا جنون تھا سو    کبھی خرابی موسم بھی  میری راہ کی رکاوٹ نہ  بنی، بسا اوقات ایک سو چار ڈگری کے تپتے بخار ،درد سے ٹوٹتے جسم اور چکراتے سر کے ساتھ بھی کام پر پہنچتا اور لگاتار بارہ تیرہ گھنٹے کام کرتا۔ ۔

اس سب کے باوجود دس ماہ کے بعد میں اسلام آباد کے ایک پارک کے کونے میں لگے بینچ پر بیٹھا تھا اور سوچ رہا تھا کہ میری دن رات کی محنت کے باوجود میری تین ماہ کی تنخواہ دبا لی گئی اور جو باقی کی دی گئی وہ بھی اتنی کم کہ میرا آنے جانے کا خرچہ بھی نہ نکل پایا اور مطالبے پر ملازمت سے ہی فارغ کردیا گیا ۔

یہ  میری شعوری زندگی میں پڑنے والا پہلا تھپڑ اور پہلی ٹھوکر تھی ۔ ۔ ۔ جب محنت کے باوجود صلہ نہ ملے تو بڑے بڑے ہمت ہار جایا کرتے ہیں ،میں تو پھر بھی ایک سترہ سالہ “ٹین ایجر” تھا ۔ ۔ ۔ میرے سامنے تین راستے تھے کہ اٹھوں اور پھر سے کوئی نئی نوکری ڈھونڈوں ، کام وام کا چکر چھوڑوں اور والدین سے کہہ  دوں کہ میرے بس کا روگ نہیں یا پھر تیسرا راستہ وہ تھا جو کم از کم میں صرف سوچ ہی سکتا تھا ۔ ۔ ۔ لیکن نہ جانے اس سمے کہاں سے مجھ میں اتنی ہمت پیدا ہوگئی کہ مجھے یہ فیصلہ کرنے میں کچھ پل لگے کہ مجھے تیسرا رستہ چننا ہے یعنی اب نوکری نہیں بلکہ اپنا کام کرنا ہے ۔

ٹھیک ایک سال کے بعد میں اسی گلی سے گزر رہا تھا تو اس وقت کے حساب سے قیمتی ترین نئی گاڑی میرے قدموں تلے تھی ، جیب اور اکاؤنٹ  پیسوں سے بھرے تھے، اتنے ملازمین اس ادارے میں نہیں  تھے جتنے میرے ادارے میں تھے ۔ میرے ساتھ فرنٹ سیٹ پر والدہ بیٹھی تھیں، میں نےان سے نظر بچا کر چپکے سے پارک کے اس بینچ پر ڈالی اور سوچ میں پڑ گیا کہ واقعی اگر میرے مالکان مجھے میرا حق پوری طرح سے دے رہے ہوتے اور مجھے ناموافق حالات کا سامنا نہ کرنا پڑتا تو میں آج اٹھارہ برس کی عمر میں اتنی ترقی کبھی نہ کرپاتا جتنی میں کرچکا ہوں ۔ ۔ ۔ اور اسی دوران ایک آنسو پلکوں پر آن ٹکا،جسے میں نے  گال پر بہنے دیا ، چونکہ یہ فتح اور شکر کا آنسو تھا نہ کہ  ہار اور بیچارگی کا ۔

یہ تو زندگی کا پہلا واقعہ تھا تب سے اب تک جب کبھی حالات بگڑے یا مشکلات آئیں ، کبھی یگانوں اور کبھی بیگانوں کے رویوں نے سانسیں محال کیں تو نہ جانے کہاں سے اک عجیب سا جذبہ اور ہمت دل میں پیدا ہوئی کہ جس نے مالک کے کرم سے پہلے سے بڑھ کر عزت و ترقی کی راہیں روشن کر دیں ۔

المختصر ! ناموافق حالات ہی ترقی کا زینہ ہوا کرتے ہیں بشرطیکہ اس حقیقت کو سمجھا جائے ۔ ہاں یہ ایک علیحدہ بات ہے کہ  اگر ہم ذرا سی پریشانی اور معمولی سی ناکامی سے ہی دل گرفتہ ہو کر ہمت ہار جائیں اور خود ہی اپنے پر جلا ڈالیں تو یقیناً  پھر اونچائی ہمارا مقدر نہیں  ہو سکتی۔

Advertisements
julia rana solicitors

لہذا ناموافق حالات کو ترقی و کامیابی کی نوید سمجھیے  ، اٹھیے اور بھرپور ہمت و محنت کے ساتھ اپنے حالات کو بدل دیجیے اور کامیابی کو اپنی قدم بوسی پر مجبور کر دیجیے چونکہ کلام خدا میں خدا کا بھی یہ ہی اعلان ہے کہ  ” لیس للانسان الا ماسعی ” !

Facebook Comments

عثمان ہاشمی
عثمان ھاشمی "علوم اسلامیہ" کے طالب علم رھے ھیں لیکن "مولوی" نھیں ھیں ،"قانون" پڑھے ھیں مگر "وکیل" نھیں ھیں صحافت کرتے ھیں مگر "صحافی" نھیں ھیں جسمانی لحاظ سے تو "جرمنی" میں پاۓ جاتے ھیں جبکہ روحانی طور پر "پاکستان" کی ھی گلیوں میں ھوتے ھیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply