وکلاء حملہ اور سکے کا دوسرا رخ۔۔سیّد حامد بخاری

کل کے واقعے کے حوالے سے اگر میں اپنی رائے دوں تو وہ اس کے علاوہ کچھ نہیں ہو گی کہ کل کا واقعہ قابل مذمت ہے اور اسکی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ ہسپتال پر حملہ کرنے کو کسی صورت ڈیفنڈ نہیں کیا جانا چاہیے۔اور ملوث لوگوں کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حوالے کیا جانا چاہیے لیکن یہ کیا۔۔؟ قانون نافذ کرنے والے ادارے کل کے واقعے کے وقت کہاں تھے اس سوال کا جواب سوچنے کا وقت مل جائے تو آپ کو کل کا واقعہ ایک نئے رخ سے نظر آنا شروع ہو جائے گا۔

عمران خان حکومت کا پہلے دن سے ہی بیوروکریسی کے ساتھ ٹکراؤ رہا، جس کی پہلی جھلک آئی جی تبادلہ کیس کی صورت میں ہمیں نظر آئی۔ اور ملکی حالات پر نظر رکھنے والے لوگ اچھے سے جانتے ہیں کہ اس وقت بیوروکریسی مکمل طور پر حکومت کے خلاف محاذ بنا کر کھڑی ہے اور کوئی موقع  حکومت کو بدنام یا نااہل ثابت کرنے کا ہاتھ سے جانے نہیں دیتی۔ اس کی حالیہ مثال آرمی چیف ایکسٹینشن نوٹیفیکیشن ہے،جو کہ ایک وفاقی سیکریٹری کی جانب سے ٹائپ کیا جاتا ہے جس کو جان بوجھ کر غلط ٹائپ کیا گیا جس کی بنا پر ایکسٹینشن کا معاملہ عدالت تک جا پہنچا اور جب عدالت نے نوٹیفیکیشن درست کر کے لانے کا کہا تو ایک بار پھر جان بوجھ کر غلط ٹائپ کیا گیا کیونکہ وزراء اور وزیر اعظم ان چیزوں کو نہیں جانتے ہوتے۔ ان کا کام بس سائن کرنا ہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے حکومت اور آرمی دونوں کو عدالت میں شدید  سبکی کا سامنا کرنا پڑا۔

اب آتے ہیں کل کے واقعے کی طرف۔ کل کے واقعے کی مکمل انٹیلی جنس بیس رپورٹ اداروں کو مل چکی  تھی۔ جس کی بنیاد پر ایک گھنٹہ پہلے ذاکٹرز کو ہسپتال سے بھگا دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ کل کوئی ڈاکٹر وکلاء کے ہاتھ نہ لگ سکا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر ڈاکٹرز کو بھگایا جا سکتا ہے تو پی آئی سی کی عمارت کی حفاظت کیوں نہیں کی جا سکتی تھی؟۔ پچھلے 4 سال سے Anti Riot Force اور ان معاملات سے نمٹنے کو اس کی قابلیت کے حوالے سے شہباز شریف حکومت نے آسمان سر پہ اٹھا رکھا تھا لیکن کل جب کہ اس حوالے سے پہلے ہی اطلاع مل چکی تھی تو یہ فورس کہاں تھی۔ کل کے معاملے میں اگر مبالغہ آرائی سے کام لیا جائے تو شاید 300 وکیل ملوث تھے۔ شہباز شریف،حمزہ شہباز ،سعد رفیق کی احتساب عدالت پیشی کے موقع پر پورا لاہور پولیس فورس لگا کر بند کر دیا جاتا ہےہزاروں نہیں تو سینکڑوں اہلکار احتساب عدالت سے لے کر اور مال روڈ تک تعینات ہوتے ہیں۔ تو اگر کل صرف 500 اہلکار ہی پی آئی سی کے اردگرد کھڑے ہو جاتے تو کسی صورت وکلاء اندر داخل نہیں ہو سکتے تھے اور اس سانحے سے بچا جا سکتا تھا۔ لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ جب وکیلوں نے ہسپتال میں توڑ پھوڑ شروع کی تو ہر طرف سے پولیس فورس نے دھاوا بول دیا اور بہت سے وکلاء گرفتار اور زخمی ہوئے۔ کوئی سوشل میڈیا افلاطون یک طرفہ ڈھول اپنے گلے سے اتار کر سوچے کہ وہی فورس جو حملے کے بعدمسلح ہو کر آ گئی تو وہ حملے سے پہلے موقع  پر کیوں نہ  آئی؟۔ حادثہ ہونے سے پہلے اس سے بچنے کے اقدامات کیوں نہ کر لئے گئے؟۔

اس سوال کا جواب جاننے کیلئے آپ کا IQ لیول 150+ ہونا ضروری نہیں۔ اگر پھر بھی سمجھ نہ آئے تو اوپر والا پیراگراف دوبارہ   پڑھ لیں۔ اس صورت حال میں فیاض الحسن چوہان کا بیان بھی بعید از قیاس نہیں۔اور حالیہ بیوروکریسی کی اکھاڑ پچھاڑ کے بعد بیوروکریسی کسی بھی حد تک جا سکتی ہے۔

اگر نیت ہوتی تو مسئلہ سلجھانا اتنا مشکل نہیں تھا۔ جن چند ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل سٹاف نے 3 وکلاء کو مارا تھا ان کو قانون کے مطابق گرفتار کر کے  قانون کے حوالے کر دیا جاتا، تو بات وہیں ختم ہو جاتی۔ اس واقعے کو ایک مہینہ گزر گیا ۔ لیکن اس دن جب وکیلوں کو مار پڑی تھی مجھے تب بھی لوگوں کے کمنٹس یاد ہیں کہ کلیجے میں ٹھنڈ پڑ گئی یا دل خوش ہو گیا وغیرہ وغیرہ۔ وکیلوں نے آئی جی آفس کے باہر اور سیکریٹریٹ کے باہر پُرامن احتجاج کرتے ہوئے مجرموں کو گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا لیکن قانون ستُو پی کر سویا رہا۔معاملہ تب ختم ہو گیا تھا کہ جب  ڈاکٹرز نے وکلاء سے معافی مانگ لی اور وکلاء نے احتجاج ختم کر کے  ان کی معافی قبول کر لی اور بات ختم ہو گئی۔ لیکن اس بات کو ڈاکٹرز نے وکلاء کی  کمزوری سمجھا اور وہ ویڈیو وائرل کی جس سے اشتعال پھیلا۔

Advertisements
julia rana solicitors

اب کوئی افلاطون مجھے یہ بتا دے کہ کیا اشتعال انگیز تقریر کرنے پر اگر اس ڈاکٹر کو گرفتار کر لیا جاتا تو نوبت یہاں تک کیوں آتی۔ لیکن سب چاہتے ہیں کہ نہ ریاست اپنی ذمہ داری ادا کرے اور نہ کسی اور کو کچھ کہا جائے وہ جو مرضی لاقانونیت کرتے رہیں۔نہ ریاست کو خیال آیا کہ وکلاء کے خلاف کوئی جرم ہوا ہے اور نہ کسی میڈیائی سقراط اور سوشل میڈیائی بقراط کو قانون یاد آیا۔ آج ہر میڈیائی اور سوشل میڈیائی افلاطون اپنے ہاتھ میں Constitution of Pakistan کی کتاب ہاتھ میں اٹھائے گھوم رہا ہے۔ وکلاء نے جو کیا وہ غلط کیا لیکن اس سے پہلے جہاں ریاست اپنی ذمہ داری ادا کر سکتی تھی اور معاملہ ختم ہو سکتا تھا تو وہاں قانون اور قانونی ادارے اونگھنے میں مصروف رہے۔ تو صرف وکلاء سے شکوہ کیوں۔ کوئی ریاستی اداروں اور ان کی نالائقی یا بد نیتی پر سوال کیوں نہیں اٹھا رہا۔ اپنے پیمانے درست کریں تو آپ کی بات سنی جا سکتی ہے۔ ورنہ بغض وکلاء تو ہر ادارے کو ہے اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply