انسانم آرزوست مصنف ڈاکٹر محمد امین/مرتب سخاوت حسین(مجلس23)

اجنبی بیمار پڑ گیا۔دانش ور اسے شہر کے بڑے ہسپتال لے آیا۔ ایک سال تک علاج ہوتا رہا۔تب کہیں جا کر طبیعت سنبھلی۔ سال بعد اجنبی اور دانش ور ابوالحسن کے پاس لوٹے۔ابوالحسن نے کہا۔ تمہیں دیکھے تو عمر بیت گئی۔کیا حال ہے۔
میں اب ٹھیک ہوں۔
دانش ور، تم بڑے اداس اور افسرده دیکھائی دے رہے ہو۔کیا بات ہے۔ ابوالحسن، میں نے ایسی بہت سی عورتوں کو دیکھا۔ جو ہسپتالوں میں لائی گئیں۔جن پر ظلم و ستم کی کہانی سن کر میں کانپ جاتا تھا۔ میرا جسم لرزنے لگتا تھا۔کسی کو زنجیروں سے باندھ کر مارا پیٹا گیا۔ کسی کے ہاتھ پاؤں توڑ دیئے گئے۔ کسی کے ناک کان کاٹ دئیے گئے۔
ابوالحسن مجھ میں حوصلہ نہیں کہ ان کی حالت زار بیان کر سکوں۔دل روتا ہے۔ یہ مظلوم عورتیں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چند دنوں میں مر گئیں۔ سال بھر یہ سوال میرے ذہن میں گونجتا رہا۔کیا مرد اس قدر وحشی ہو سکتا ہے۔
یہ سن کر ابوالحسن کی آنکھیں بھر آئیں۔ ہونٹ کانپنے لگے۔وہ تیزی سے پچھلے کمرے میں چلے گئے۔ اور چارپائی پر دراز ہو گئے۔ کچھ دیر بعد دریچے کا ایک پٹ کھولا۔اور یوں گویا ہوئے۔
اندھیرا کر دو تاکہ تم اپنے آپ کو پہچان سکو۔میری آواز میرے ہونے کی گواہی دے۔جس شخص نے یہ ظلم کیا۔وہ برباد ہوا۔ویران ہوئیں وہ بستیاں جن کے لوگ اس ظلم پر چپ رہے۔
ابوالحسن نے جھٹ سے کھڑکی بند کر دی اور یہ مجلس سناٹے میں برخاست ہوئی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply