دلوں کو فتح کرنے کا راز۔۔حافظہ لاریب فاطمہ بنت نعیم

حسن سلوک کیا ہے؟
حسن سلوک ایک ایسی چیز ہے جس سے دشمن کوبھی اپنی طرف مائل کیا جا سکتا ہے۔
آج کی دنیا میں 90 فیصد لوگ حسن سلوک کو بھول چکے ہیں،صرف 10 فیصد لوگ حسن سلوک کے معنی سے آشنا ہیں اور دوسروں کے ساتھ اچھے طریقے سے پیش آتے ہیں ، وہ اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ کیا چیز ہے جو دوسروں کو تکلیف پہنچا سکتی ہے ،پھر وہ اس سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔
وہ جانتے ہیں کہ وہ کون سے الفاظ ہیں جو بولنے ہیں اور جو نہیں بولنے، وہ جانتے ہیں کہ وہ کیا سلوک ہے جس سے لوگ ان سے محبت کریں اور پیار اور خلوص سے پیش آئیں گے اور اچھے انداز سے بات چیت سمجھیں گے ۔
جبکہ 90 فیصد لوگ دوسروں کے ساتھ اپنے ہوں یا پرائے ،بڑے یا چھوٹے ہوں سب کے ساتھ ایک ہی رویے سے پیش آتے ہیں۔ وہ نہیں خیال کرتے کہ ان کو کیا بات بری لگ سکتی ہے۔
ان کی عادت ہوتی ہے طنز کرتے رہنا، بات بات پر ٹوکنا دوسروں پر ہنسنا۔
حسن سلوک صرف اسی چیز کا نام ہی نہیں کہ دوسروں کے ساتھ اچھے طریقے سے پیش آئیں ،خلوص سے،محبت سے۔ بلکہ حسن سلوک تو یہ ہے کہ آپ کے ساتھ جو کوئی بدسلوکی کرے، یا زیادتی کرے تو آپ اس کے ساتھ اچھے طریقے سے پیش آئیں اسے معاف کریں اس کو سمجھائیں ، اس سے بدلہ نہ لیں۔
آخرحسن سلوک سے پیش آنے سے کیا ہوتا ہے؟
سب سے بڑی بات یہ کہ حسن سلوک سے پیش آنے پر اللہ تعالی ہم سے خوش ہوتے ہیں جو کہ کسی بھی مسلمان کی اولین ترجیح ہوتی ہے۔ حسن سلوک میں معاف کرنا دوسروں کے ساتھ خلوص سے پیش آنا سب شامل ہے۔
حسن سلوک تو ہو گیا ہے ہر ایک کے ساتھ اچھے انداز،اور خلوص سے پیش آنا، اب بات آتی ہے معاف کرنے اور بدلہ لینے یا نہ لینے کی۔

جب کسی سے کوئی غلطی ہو یا اس کے ہاتھ، زبان سے ہمیں تکلیف پہنچے تو ہم اسے معاف کر دیں تو اللہ تو خوش ہو گا ہی اس کے ساتھ اگلے بندے کے ذہن میں بھی خیال آئے گا کہ میں نے اس کو برا بھلا کہا اس کو تکلیف دی یا مارا پیٹا،لیکن اس نے تو مجھے معاف کر دیا۔
ہو سکتا ہے وہ آپ کو ایک بار تکلیف پہنچائے ،دو بار، تین بار بالآخر وہ دیکھے گا کہ یہ ایک اچھا انسان ہے اور اگلی بار آپ کے ساتھ اچھا سلوک کرے گا اور برا سلوک چھوڑ دے گا۔
ایک بات ہمیشہ یاد رکھیں کہ دوسروں کو معاف کرنا لوگوں کی نظر میں اچھا بننے کے لیے نہیں یا یہ سوچ کر دوسروں کو معاف کریں کہ لوگ واہ واہ کریں گے میرا نام ہوگا جب بھی معاف کریں ثواب کی نیت سے کریں اللہ کو خوش کرنے کے لیے کریں۔

اگر ہر کوئی ایک دوسرے سے اچھے طریقے سے پیش آئے اور ہر کوئی ایک دوسرے کو معاف کردے تو معاشرہ کتنا اچھا ہو گا۔
جب ایک انسان دوسرےانسان کو معاف کرے گا تو وہ اس سے متاثر ہوکر خود بھی دوسروں کے ساتھ ایسے ہی پیش آئے گا
اس طرح سب ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ اچھے طریقے سے پیش آئیں گے۔ اور یہ معاشرہ خوشیوں کا گہوارہ بن جائے گا اور اگر ہم کسی کے ساتھ برا سلوک کریں گے تو اس کے ذہن میں بھی شیطان بدلے کی آگ کو بھڑکائے گا اور وہ مسلسل ذہنی اذیت میں رہتے ہوئے آپ کے ساتھ برا سلوک کرنے کے ساتھ اسی غصے میں دوسروں سے بھی بد سلوکی سے پیش آئے گا۔
یوں لا شعوری طور پر سب ایک دوسرے کے ساتھ برا کریں گے اور معاشرے میں برائی پھیل جائے گی۔ ویسے بھی جہاں ہم نے ایک نیکی کی تو ایک بدعت اپنے آپ ختم ہو جاتی ہے جیسے کہ اگر ایک دوسرے کے ساتھ اچھے سے پیش آئیں گے تو کوئی ایک دوسرے کے ساتھ برا نہیں کرے گا اور برائی اپنے آپ ختم ہو جائے۔

بدلہ لینا یا نہ لینا
بہت سے انسانوں کی فطرت ہوتی ہے ان کے ساتھ کوئی برا کرے یا زیادتی کرے تو وہ فورا ًبدلہ لینے پہ اتر آتے ہیں ۔
اور بعض اوقات تو وہ بدلہ لیتے وقت انسانیت سے ہی گر جاتے ہیں۔ جبکہ اللہ سبحان و تعالی نے فرمایا: ‘کان کے بدلے کان،آنکھ کے بدلے آنکھ،اور ناک کے بدلے ناک۔۔ یعنی کہ اگر ہم ناانصافی کیے بغیر زیادتی کیے بغیر جتنی اگلے بندے نے آپ کو اذیت دی ہے اتنی دے سکتے ہیں تو ٹھیک ہے تو آپ کو گناہ نہیں ہوگا اور نہ ہی ثواب۔لیکن معاف کرنا افضل عمل ہے اور ثواب بھی ملتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالی نے انسان کو بدلہ لینے کا حق دیا ہے۔مگر اللہ تعالی معاف کرنے کو پسند فرماتے ہیں۔
اللہ تعالی نے فرمایا: تم زمین والوں پر رحم کرو آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔
اور ہمارے قومی شاعر علامہ اقبال نے اللہ کےاسی فرمان کو ایک شعر کی صورت میں کچھ یوں بیان کیا ہے۔
‘کرو مہربانی تم اہل زمیں پر
خدا مہرباں ہوگا عرش بریں پر

جو لوگ بدلہ نہیں لیتے،دوسروں کو معاف کردیتے ہیں۔
اللہ سبحان و تعالی ان لوگوں سے بہت خوش ہوتے ہیں کیونکہ اللہ کو معاف کرنا زیادہ پسند ہے۔ اور اللہ خود بھی تو بہت مہربان ہے،رحیم و کریم ہے۔
اور ایک بات یہ بھی کہ جو انسان بدلہ نہیں لیتا تو دوسرا انسان یہ دیکھ کر کہ اس نے آپ کے ساتھ برا سلوک کیا یا زیادتی کی اور آپ نے بدلہ نہیں لیا۔ تو وہ یہ دیکھ کر آپ سے معافی بھی مانگے گا۔کیونکہ اس کو احساس ہو گا کہ یہ ایک اچھا آدمی ہے اور میں نے اس کے ساتھ برا کیا۔
سب سے بڑی مثال تو یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر تمام کافروں کو معاف کردیا۔ حالانکہ انہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو کیا کیا اذیتیں نہیں دیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اللہ تبارک و تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں معاف کرنے،بدلہ نہ لینے اور حسن سلوک سے پیش آنے کی توفیق عطاء فرمائے۔
آمین!ثم آمین!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply