آزادی کی حنوط شدہ لاش۔۔شیخ خالد زاہد

ہم اللہ رب العزت کا جتنا شکر ادا کریں وہ کم ہوگا کہ اس نے  ہمیں رہنے کیلئے دنیا جہان کی نعمتوں سے بھرپور ایک خطہ زمین ہمارے آباءو اجداد کی قربانیوں کی بدولت عطاء فرمایا ۔ اس خطہ کی آزادی کی ضرورت کیوں پیش آئی یہ ایک الگ داستان ہے جس پر اللہ تعالی نے موقع دیا تو پھر کبھی تفصیل سے لکھیں گے ۔ ہم ہندوستان میں ایسے دو پاٹوں میں پس رہے تھے جہاں ناصرف مذہبی بلکہ نظریاتی مفادات کو بھی بری طرح سے مسخ کیا جارہاتھا ۔ مسلمانوں سے انکی سال ہا سال سے ہندوستان پر حکمرانی کا بدلہ لیا جارہا تھا اور ایسا بدلہ لیا گیا کہ ہم حکمرانی کےلئے پیدا ہونے والے غلام بن کر رہ گئے ۔ ہم نے احتیاطوں کے، مصلحتوں کے اتنے طوق اپنی گردنوں میں ڈال لئے کہ  گردن کو اٹھنے کے قابل ہی نہیں چھوڑا اور ہماری سوچ بھی محکوم ہوکر رہ گئی ۔

پاکستان کو ہندوستان سے نکلے (نئی نسل کیلئے لفظ نکلے کی وضاحت کرتے چلتے ہیں کیونکہ مسلمان درحقیقت برصغیر کے حکمران تھے لیکن سازشوں کے ایسے جال بُنے گئے کہ جس میں بری طرح پھنس کر اقتدار و اختیار ہاتھ سے ریت کی مانند جاتے دیکھتے رہے اور سوائے اسکے کے نئے سرے سے آزادی کی تحریک چلائی جائے کچھ نہیں کر سکتے تھے)یا آزاد ہوئے پچھتر سال ہونے کو آگئے ہیں اور پاکستانی قوم اس کا جشن ِ خاص(ڈائمنڈ جوبلی) منانے کی تیاریوں میں مشغول ہے، پاکستانی قوم ہر سال بھرپور طریقے سے آزادی کا جشن مناتی ہے اور ہر سال پچھلے سال سے زیادہ رقم خرچ کرنے کا ریکارڈ بھی قائم کرتی ہے ۔ بھوک و افلاس کی ماری یہ قوم پاکستان کی آزادی کا جشن منانے سے کبھی بھی نہیں چوکی، یہ اپنے دلوں میں جلتی ہوئی آزادی کی شمع کو کسی حال میں بجھنے نہیں دینا چاہتی، بھلے انکی زندگیوں کے چراغ ہی کیوں نا گُل ہوجائیں ۔

آج تک زندگی کی بنیادی ضروریات ہی میسر نہیں آسکیں ۔ قوم کی وطن عزیز پاکستان سے اس والہانہ اور اندھی محبت کے پیش نظردشمن نے بڑی خاموشی سے اور منظم طریقے سے ملک کو نقصان پہنچایا ہے ۔ ہم پاکستانیوں کو ایک عرصے تک تو علیحدگی کی خوشی مناتے گزر گئی اور خوشی منانے میں اتنے مگن ہوئے کہ ایک مخصوص ٹولے نے تمام وسائل پر اغیار کی مدد یا پھر سرپرستی کی بدولت قبضہ کرلیا ۔ لوگ جشن ِ آزادی مناتے رہے اور وطن عزیز سے محبت کا ثبوت دیتے رہے اور یہ سمجھتے رہے کہ  پاکستان کی آزادی سے انہیں ایک آزاد مملکت، ایک آزاد خطہ زمین مل گیا ہے ۔

اس بات کا احاطہ کرنا ذرا مشکل ہے کہ یہ مخصوص ٹولہ حقیقت میں کس کا ساتھ دینے والا ہے اور کس کو آنکھیں دکھانے والا ہے ۔

قوم کی معصومیت کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ انکی حب الوطنی کو سیاسی بازیگروں نے اپنے سے منسوب کروا لیا اور اپنی حمایت کرنے والوں کو حب الوطنی کی  اسناد دی جانے لگیں ۔ مختلف مکتبہ فکر کے لوگ پاکستان کی نومولود انتظامیہ کی کشتی میں سوار ہوگئے جہاں اس بات کا تعین کرنا ناممکن ہوگیا کہ کو ن پاکستان کا حامی ہے اور کون پاکستان کا مخالف ہے ، اس لئے اس بحث نے بھی سر اٹھایا کہ پاکستان میں کون سا حکومتی نظام رائج کیا جائے گا۔۔ جس پر بانی پاکستان سے جب پوچھا گیا کہ پاکستان کس نظام حکومت یا طرز حکومت کی پیروی کرے گا تو بانی پاکستان محمد علی جناح نے واشگاف الفاظ میں بتایا کہ جو نظام 14 سو سال قبل دنیا کے لئے نور ہدایت بنا کر آسمان سے اُتارا گیا اور جس کا نفاذ حضرت محمد ﷺنے ریاست مدینہ میں کیا اور وہ نظام آدھی سے زیادہ دنیا پر نافذ رہا ۔ یہ وہ نظام تھا کہ جس نے دنیا کو منظم کیا اور فلاح کی صحیح تشریح کر کے عملی طور پر دکھائی ۔ لیکن اغیار کیلئے پاکستان مخالفین کیلئے سب سے بڑھ کر اسلام دشمنوں کیلئے تو یہ بات کبھی بھی قابل قبول نہیں ہوسکتی ہے ۔ تو یہ بحث تاحال پچھتر سال گزر جانے کے بعد بھی جاری ہے ۔

پاکستان آزاد ہوگیا اور پاکستان کیلئے جدوجہد کرنے والوں کو رہنے کیلئے ایک الگ خطہ زمین فراہم کردیا گیا ۔ ہندوستان کے مسلمانوں کو آزاد کردیا گیا اور آزادی کو آزاد سرزمین پر پہنچتے ہی وہاں پہلے سے موجود کچھ بیرونی اہلکاروں نے پھٹے پرانے اور ٹوٹے پھوٹے لوگوں سے آزادی یہ کہہ کر لے لی  کہ پہلے ذرا اپنے پیروں پر کھڑے ہوجاؤ، اپنے آپ کو سنبھال لو ،پھر یہ آزادی لے لینا گویا آزادی کو قید ہوگئی اوراسے مصر میں رکھی گئی ممی کی طرح حنوط کرکے رکھ دیا گیا،وقت اور حالات اجازت نہیں دے رہے تھے ورنہ باقاعدہ طور پر اس آزادی کا گلا اسی وقت دبا دیا جاتا، ویسے ہمیشہ کیلئے ختم کرنے کی طاقت کسی میں نہیں تھی ورنہ ایسا ہی کرتے ۔ آستین کے سانپوں کا ڈسا ایسے مرتا ہے کہ بس زندوں کی فہرست سے نکال دیا جاتا ہے ۔ پھٹے پرانے اور لٹے پٹے لوگوں کو ان کی زندگی کی بقاء کی جنگ میں دھکیل دیا گیا  ۔ یہی ان گھس بیٹھیوں کی سب سے پہلی فتح تھی۔

پھر کیا تھا ،یہ لوگ جیت کا جشن مناتے رہے اور ہم پاکستانی اپنی زندگیوں کی بقاء کی جنگ میں ایسے کودے کہ پھر پلٹ کا کچھ دیکھنے کا موقع ہی نہیں ملا ۔ ہم پر مسلط ہونے والوں نے ہماری مجبوریوں سے خوب فائدہ اٹھایا اور ہماری پریشانیوں میں کمی کرنے کی بجائے ہماری کوئی داد رسی کرنے کی بجائے انہوں نے انہیں پروان چڑھانے کا بیڑہ اٹھا لیا یعنی مشکلات میں اضافہ کرتے چلے گئے ،

آزادی کی حنوط شدہ لاش اسی دن سے اپنے حقیقی ورثہ کی منتظر ہے(جنہیں زندگی کی بقاء کی جنگ میں دھکیل دیا گیا تھا) وہ راہ دیکھ رہی ہے کہ کب اسے آزاد کرایا جائے تاکہ وہ ہمیں آزاد آب و ہوا کا احساس دلاسکے ، ہمارے حقیقی حقوق تک رسائی دلا سکے  ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آج جب آگہی کا سورج طلوع ہوا ہے جب یہ سمجھ میں آنا شروع ہوا ہے کہ کوئی تو ہے جو ہماری محنت کا صلہ ہم سے پہلے ہی لئے جارہا ہے ۔ یہ کیسی آزادی ہے کہ کبھی صحافت آزادی کا نعرہ لگاتی سڑکوں پر روندی جاتی ہے، کبھی سیاسی جماعتوں کو آزادی کی جدوجہد کیلئے جیلوں میں دھکیل دیا جاتا ہے ، کبھی اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا ملک اسلام کیلئے قید خانہ بنا دیا جاتا ہے ، کبھی حقوق نسواں والے اودھم مچا تے دکھائی دیتے ہیں ، کبھی صوبوں تو کبھی زبانوں اور کبھی علاقوں کی آزادی کی جدوجہدہوتی دکھائی دیتی ہے ، کبھی قانون اپنی بیچارگی کا ماتم کرتا دکھائی دیتا ہے تو کبھی عوام کی جان و مال کے رکھوالے اپنی آزادی مانگتے نظر آتے  ہوتے ہیں ۔ تدریسی عمل اپنے نفاذ کیلئے تاحال تگ و دو میں مصروف عمل ہے ۔ آزادی کو تو حنوط شدہ لاش بنا کر رکھ دیا گیا تھا ۔ آئیں اس حنوط شدہ لاش کے حقیقی وارث ہونے کا ثبوت دیں اورسب سے پہلے اپنی صفوں میں سے کالی بھیڑوں کو نکالیں ۔ سوائے اسکے اور کوئی حل نہیں کہ  اللہ اور اسکے رسول ﷺ کی اطاعت کا مکمل یقین رکھتے ہوئے انکا نظام قائم کیا جائے اور ہر قسم کے غم و خوف سے پاکستان اور پاکستانیوں کو آزاد کیا جائے ۔ آخر ہم کب تک اس گھٹن زدہ ماحول میں سانس لیتے رہیں گے ۔

Facebook Comments

شیخ خالد زاہد
شیخ خالد زاہد، ملک کے مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر سیاسی اور معاشرتی معاملات پر قلم سے قلب تک کے عنوان سے مضامین لکھتے ہیں۔ ان کا سمجھنا ہے کہ انکا قلم معاشرے میں تحمل اور برداشت کی فضاء قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے اور دوسرے لکھنے والوں سے بھی اسی بات کی توقع رکھتے ہیں کہ قلم کو نفرت مٹانے کیلئے استعمال کریں۔ ان کے منتخب مضامین کا پہلا مجموعہ بعنوان قلم سے قلب تک بھی شائع ہوچکا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply