بیوہ/مطلقہ کی عدت پر ایک سیکولرموقف۔۔۔(قسط5)سلیم جاوید

اب ہم بیوہ کی عدت والی دوسری آیت کی تشریح کریں گے جو بالکل ہی ایک دوسرا کیس ہے۔
اس آیت کی تشریح سے پہلے میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ مولوی صاحبان نے قرآن میں موجود اس آیت کوخود سے ہی منسوخ کررکھا ہے حالانکہ کسی بھی آفیشل آرڈر کو ایک آفیشل نوٹس سے معطل کیا جاتا ہے نہ کہ کلرک کے زبانی فرمان پر( جبکہ جس آرڈر کو کنسیل شدہ بتایا جا رہا ہو، وہ ہنوز گزٹ رولز میں لکھا ہوا موجودبھی ہو)۔
کیا ظلم ہے کہ ہم بخاری کی کسی حدیث کوحجت ماننے سے انکار کریں تو ہمیں منکرحدیث کہا جائے جبکہ ہمارے کرم فرما صاحبان، قرآن میں سامنے موجود ایک آیت کا انکار کرتے ہیں مگران کو منکرِقرآن نہیں کہا جاتا۔
مزے کی بات یہ ہے کہ جو آیت منسوخ بتائی جاتی ہے اس کا نمبر240 ہے۔ جس آیت نے اسکو منسوخ کیا ہے، اسکا نمبر 234 ہے۔ اتنی کامن سینس تو سب میں ہوتی ہے کہ آفس آرڈر نمبر تین کو بعد میں آرڈر نمبر پانچ کینسل کرسکتا ہے مگرایسا نہیں ہوتا کہ پہلے والا آرڈر بعد میں آنے والے آرڈر کو کینسل کردیتا ہو۔
خیر، ہم تو ناسخ ومنسوخ والی بات کو قرآن پہ الزام سمجھتے ہیں۔ چنانچہ، زیربحث ایت کوایک اور سماجی کیس بارے قانون سازی کی گائیڈ لائن سمجھتے ہیں۔
ذیل کا منظر نامہ سوچیے گا:

ماضی کی سچویشن: عرب کلچر کو مدنظر رکھیے جہاں بیوہ یا مطلقہ کودوسری جگہ شادی کی آفرہر وقت موجود ہوتی ہے۔ کل قبیلہ کی لڑائی میں خاوند نے شریک ہونا ہے جہاں وہ مارا جاسکتا ہے۔ مگرخاوند کواپنے شیرخوار بچے کی فکر بھی ہے۔ یہ خاوند، اپنی بیوی سے کہتا ہے کہ میرے مرنے کے بعد اگر اتنا عرصہ دوسری شادی نہ کرو (تاکہ بچہ ہوشیارہوجائے) تونان ونقفہ کے علاوہ، مزید اخراجات بھی لکھ دوں گا۔ عورت راضی ہوجاتی ہے۔ پھریوں ہوتا ہے کہ خاوند کی وفات کے کچھ عرصہ بعد، اسکو ایک اچھا پروپوزل آتا ہے تویہ وہاں شادی کرنا چاہتی ہے۔ معاہدہ ٹوٹنے پرجرمانہ ہونا چاہیے تھا مگرعورت ذات کی خاطر، خاوند کے قبیلہ والوں کوخدا نصیحت کرتا ہےکہ ایسی صورت میں غصہ نہیں ہونا۔تم اس پرخرچہ بند کرسکتے ہوباقی آپکی کوئی ذمہ داری نہیں۔

حال کی سچویشن : انڈپنڈنٹ میاں بیوی ہیں۔ میاں کو کینسر تشخیص ہوگیا –قریب المرگ ہے۔ خاوند کو اپنی پڑھی لکھی بیوی پرگمان ہے کہ میرے مرنے کے بعد، بیوی اپنے اخراجات کی خاطر کہیں جاب کرلے گی تو ہمارے بچے رُل جائیں گے(یا چلتا بزنس متاثر ہوگا۔وغیرہ)۔ وہ اسکے ساتھ معاہدہ کرتا ہے کہ بچوں کی خاطرکچھ عرصہ میرے لئے مزید وقف کرنا ہے۔ اسکے بدلے میری فلاں جائیداد بھی آپکے نام ہوگی۔ یہ معاہدہ عدالت سے سٹیمپ ہوجاتا ہے مگرخاوند کی وفات کے کچھ عرصہ بعد، عورت کو اچھی جاب آفر ہوتی ہے اور وہ معاہدہ توڑ دیتی ہے۔ عدالت اسکو سزا وجرمانہ کرسکتی ہے مگرقرآن یہ نصیحت کرتا ہے کہ عورت ہونے کی خاطر، اسکو اپنا اچھا مستقبل اختیار کرنے دو۔ البتہ سٹام پیپر میں مذکور، ایکسٹرا جائیداد اس کو اب نہیں دی جائے گی۔
قرآن کی آیت ملاحظہ کیجئے: البقرہ 240
وَ الَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَ یَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا ۚۖ۔وَّصِیَّةً لِّاَزْوَاجِهِمْ مَّتَاعًا اِلَى الْحَوْلِ غَیْرَ اِخْرَاجٍۚ۔فَاِنْ خَرَجْنَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ فِیْ مَا فَعَلْنَ فِیْۤ اَنْفُسِهِنَّ مِنْ مَّعْرُوْفٍؕ۔وَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ۔
پہلے کی طرح، الہی قانون کی اس ایت کی تشرٰیح بھی چار الگ ٹکڑوں میں کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
1۔ وَٱلَّذِينَ يُتَوَفَّوۡنَ مِنۡکُمۡ وَيَذَرُوۡنَ اَزۡوَاجًا ۖ۔ (اور تم میں سے جو لوگ فوت ہوں اور (اپنی) بیویاں چھوڑ جائیں)۔
اسکا ترجمہ وتشریح پیچھے والی ایت جیسی ہے۔مگرآگے والی بات کے پیش نظر اس کیس کو یوں لیتے ہیں کہ خاوند اور بیوی آپس میں مستقبل کیلئے ایک مشورہ کررہے ہیں ۔ خاوند چاہتا ہے کہ میری بیوی میرے مرنے کے بعد بھی کچھ عرصہ تک شادی وغیرہ نہ کرے بلکہ اسی گھر میں بچوں کی دیکھ بھال کرے۔ ظاہر ہے کہ اس مزید وقت کیلئے فریق ثانی کوزائد ادائیگی کرنا ہوگی۔ ( اس کیس کو فی زمانہ الٹا بھی لیا جاسکتا ہے یعنی بیوی ، خاوند سے بھی یہ ایگریمنٹ کرسکتی مگراسکی صورت ذرا الگ ہوگی)۔
2۔ وَّصِيَّةً لِّاَزۡوَاجِهِمۡ مَّتَاعًا اِلَى الۡحَـوۡلِ غَيۡرَ اِخۡرَاجٍ‌‌ ۔ (تو وہ اپنی بیویوں کے لئے ایک سال تک (کے خرچہ) کا انتظام کرکے جائیں مگراس ایک سال میں بیوی نے گھر نہیں چھوڑنا۔
تشریح:
یعنی (خاوند،مرنے سے پہلے) اپنی بیویوں کے لئے انہیں ایک سال تک کا خرچہ دینے (اور) اپنے گھروں سے نہ نکالے جانے کی وصیت کر جائیں)۔
یہاں بھی ایک سال کی مدت حتمی نہیں ہے، مگریہ کہ ایک بڑی مدت کی بات ہے۔ عورت کوپابند کیا کہ کسی اور جگہ شادی/جاب نہیں کرے گی۔ اسکے بدلے نان ونفقہ کے علاوہ بھی اسکو کچھ مزید مہیا کیا جائیگا۔(یہ باہمی رضامندی پرمنحصر ہے)۔ یہاں لفظ “خرجن” کا معنی یہ کہ باہرنہیں نکلیں گی۔ مگراسکا مطلب یہ نہیں کہ کسی ضروری کام یا تفریح وغیرہ کیلئے بھی گھرسے نہیں نکلیں گی، بلکہ مطلب یہ کہ معاہدہ شدہ مدت میں کسی اور جگہ “کانٹریکٹ” نہیں کریں گی۔( آج کل کمپنی ملازمت کابونڈ بھرا جاتا ہے کہ پانچ سال کمپنی کو چھوڑ کرنہیں جانا۔ کیا اسکا مطلب یہ ہوتا ہے کہ پانچ سال تک کمپنی کے ہیڈ آفس میں بند ہوکر بیٹھے رہنا ہے؟)۔
یہ لفظ “خرجن” ایک اور آیت میں بڑی وضاحت کے ساتھ امہات المومنین کیلئے استعمال ہوا ہے کہ نبی کی بیویو، نبی کی وفات کے بعد اپنے گھروں سے نہیں نکلنا۔ مگرحضرت عائشہ، گھر تو کیا مدینہ سے بھی باہر نکلیں اور جنگ جمل میں حضرت علی کے خلاف لشکرکی کمانڈ کی تھی۔ کیا ان کو لفظ “خرجن” کا معنی نہیں آتا تھا؟۔ پس اسکا وہ مطلب نہیں جو مولویوں نے عورت کو عدت کے نام پرقید کرنے سے جوڑرکھا ہے۔
3۔ فَاِنۡ خَرَجۡنَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيۡکُمۡ فِىۡ مَا فَعَلۡنَ فِىۡٓ اَنۡفُسِهِنَّ مِنۡ مَّعۡرُوۡفٍؕ۔( پھر اگر وہ خود (اپنی مرضی سی) نکل جائیں تو دستور کے مطابق جو کچھ بھی وہ اپنے حق میں کریں تم پر اس معاملے میں کوئی ذمہ داری نہیں)
تشریح: خاوند کی زندگی میں عورت نے معاہدہ کرلیا تھا مگرمقررہ مدت ختم ہونے سے پہلے ہی کوئی اچھا رشتہ اس عورت کو بھاگیا اور یہ اسکے ساتھ معروف معنوں میں جانے کو تیار ہوگئی۔(یعنی شادی کیلئے)۔ چاہیے تو یہ تھا کہ اس عورت کو بزور روکا جاتا کہ معاہدہ کیوں توڑ رہی ہومگر خدا نے عورت کا لحاظ کرتے ہوئے صرف ورثا کو نصیحت کی کہ اسکو جانے دو، البتہ مرنے والا خاوند جس “ایکسٹرا پیمنٹ” کا معاہدہ کرگیا تھا، اب وہ تمہاری ذمہ داری نہیں کہ مزید اسکو ادائیگی کرو۔
4۔ ؕ وَاللّٰهُ عَزِيۡزٌ حَکِيۡمٌ‏۔( اور اﷲ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے)
تشریح: جب عورت مقررہ معاہدہ توڑے گی تو خاوندکے ورثا، اسکے لئے لکھی گئی رقم کو اس سے روک لیں گے۔ مگراس رقم کا کیا کریں گے؟ ظاہر ہے کہ پھر آپس میں بطور وراثت بانٹ لیں گے۔ یہاں پرورثا کی طرف سے سازش کا امکان ہوسکتا ہے تو خدا نے وارننگ دی کہ میں آپ لوگوں پرغالب بھی ہوں اورمظلوم کی مدد کی سبیل نکالنے کی حکمت بھی رکھتا ہوں۔
پچھلی قسط میں عرض کیا تھا کہ یہ آخری جملہ انسانوں کی نیت بارے وارننگ کا ہوتا ہے اور مقصود یہ ہوتا ہے کہ جو قانون پہلے بتایا جاچکا، اس میں حالات کے تحت ردوبدل کیا جاسکتا ہے مگرنیک نیتی شرط ہے۔
برادران!
قرآن کی یہ دوآیات بیوہ کی عدت بارے دوکیسز بیان کرتی ہیں اور آپ سمجھ سکتے ہیں کہ یہ دونوں کیسز قیامت تک وجود پذیرہوتے رہیں گے۔ہمارے نزدیک دونوں کیسز کی اساس ، معیشت ہے۔

ان آیات سے ہمیں مندرجہ ذیل گائیڈ لائین ملتی ہے۔
آیت نمبر 234 (اور نمبر 235) کا خلاصہ یہ کہ کسی بے آسرا عورت کا خاوند اچانک فوت ہوگیا تو ظاہر ہے کہ اس مرد کی وراثت ، فوراً تقسیم ہوجائے گی۔ بیوی کے حصے میں جو آیا وہ اسکی گزربسر کو کافی نہیں تو خاوند کے دیگر ورثا بھلا کیوں اپنا حصہ اس عورت پہ لگائیں جبکہ انکا اب کوئی رشتہ ہی نہیں رہا؟۔ پس قرآن یہ اصول وضع کرتا ہے کہ خاوند کے ورثا اس عورت کو دوسرا ٹھکانہ مہیا ہونے تک نہ صرف اسی گھر میں رہنے دیں گے بلکہ معقول ہرجہ وخرچہ بھی دیں گے۔یہ مدت ایسی ہوجو فریقین کیلئے بارنہ بن جائے۔ اس مدت میں عورت، ورثا کےخاندانی ڈسپلن کی پابندی کرے گی۔
اور اگر ورثابیچارے بھی اس قابل نہیں کہ اس عورت کو ایک معقول عرصہ نان ونفقہ دے سکیں توپھرریاست کی ذمہ داری ہے کہ اس عرصے میں اسکو ضروری مراعات مہیا کرے۔ یہ عرصہ زمان ومکان کے لحاظ سے ہرسماج اپنے لئے طے کرے گا۔ اسکو عدت کہتے ہیں۔ ہاں اگر کسی عورت کو اس کی ضرورت نہیں تو اسکے لئے عدت بھی ضروری نہیں۔ حمل وغیرہ والی باتیں ، عدت کی وجہ ہیں اورنہ شرط – وہ اس لئے کہ فقہاء کرام نے صراحتاً بیان فرمایا کہ عورت “دخول بہ” نہ بھی ہو تو بھی اسکی عدت چار ماہ دس دن ہوگی۔( عدت کی وجہ “اظہارحمل ” ہوتی تو “غیرمدخول بھا” کیلئے عدت کیوں ؟)۔ قرآن نے ہی بانجھ عورت کیلئے بھی تین ماہ عدت رکھی ہوئی ہے تو کیا یہ عدت بھی وضع حمل کی بنیاد پر ہے؟۔ ہم عرض کرتے ہیں کہ حمل والی بات عدت کی بنیاد نہیں ہے بلکہ “معاشی ایشو” ہی اصل ایشوہے۔ اسکے باوجود اگر” اظہارِ حمل ” کو ہی عدت کی اصل وجہ مان لیا جائے تو جدید میڈیکل سائنس کیلئے یہ چند منٹ کا ٹیسٹ پروسیجر ہے اور بس۔
آیت نمبر 240 کا خلاصہ یہ ہے کہ زوجین میں سے کوئی ایک فریق( بالخصوص مرد) اپنے مرنے کے بعد، فریق ثانی کو کسی ایسے معاہدے کا پابند کرنا چاہتا ہے جس میں ایک لمبی مدت کیلئے اسکو دوسری شادی سے روکنا مقصود ہوتو اس مدت کیلئے باہمی رضامندی سے معقول نان ونفقہ اور مزید خرچہ کا بندوبست کرکے جائے گا۔ فریق ثانی اس دوران، کسی اور جگہ شادی نہیں کرے گا۔ تاہم اگر فریق ثانی عورت ہے اور کسی معروف وجہ کی بنا پراس معاہدہ سے آزاد ہونا چاہے تو اسکو رعایت حاصل ہوگی۔
مزید یہ کہ ہم چونکہ بیوہ کی عدت کو ایک انتظامی و معاشی ترکیب سمجھتے ہیں تو اگر بیوہ کو یہ ایشو درپیش نہ ہو تو پھرعدت کی ضرورت نہیں رہتی۔
عرض کیا تھا کہ مطلقہ کے کیس میں صرف دو سٹیک ہولڈر ہوتے ہیں (یعنی میاں بیوی)۔ بالغ عورت اور مرد، باہمی مرضی سے شادی کرتے ہیں توباہمی مرضی سے یہ معاہدہ توڑ بھی سکتے ہیں۔ اس میں ایک فریق کومزید کیوں قید میں رکھا جائے؟۔

طلاق کے ضمن میں دوکیسز ہیں۔ پہلا کیس یہ کہ نکاح کے بعد، عورت سے صحبت نہیں ہوئی اور طلاق ہوگئی۔ دوسرے کیس میں صحبت کے بعد طلاق ہوئی ۔
پہلے کیس کی مطلقہ کی عدت کیلئے قرآن جو گائیڈ لائن دیتا ہے، اس پرذراغور کرلیتے ہیں۔
اسلام کا شادی بارے تصور کچھ یوں ہے کہ مردہی عورت کو گھربار، کپڑا پوشاک ، نان نفقہ دینے کا پابند ہے۔ تاہم جب عورت کو نکاح کرکے گھرلاتا ہے تو پہلی بار اسکے بدن کا حظ اٹھانے کا کچھ نذرانہ یا معاوضہ بھی اداکرنا ہوتا ہے۔ اس کو مہرکہتے ہیں۔ عورت اپنی مرضی سے مہر مقرر کرسکتی ہے( معاف بھی کرسکتی ہے)۔آسان لفظوں میں یوں سمجھ لیں کہ عورت کو پہلی بار برتنے کی جوپیمنٹ اداکی جاتی ہے اسکا نام مہرہے۔( اگر پیمنٹ کی بات ناگوار گزرے تو اسکو انعام واعزازیہ وغیرہ کہہ لیجیے)۔
مہرکی رقم (پیمنٹ) کا اگریمنٹ بھی دوقسم کا ہوتا ہے۔ ایک صورت یہ ہوتی ہے کہ عورت سے مباشرت کا عمل کرنے سے پہلے ادائیگی کرنا ہوتی ہے۔ دوسری صورت یہ کہ عمل کرنے کے بعد ادائیگی ہوگی( اسکو” ایڈوانس پیمنٹ” اور “پیمنٹ آن ڈیلیوری” کے کانسپٹ سے سمجھ لیجیے)۔

پہلا کیس:
“بغیر صحبت کیے طلاق ہوجانا” والاپہلا کیس لے لیں (جس میں ایڈوانس پیمنٹ دینا طے ہوئی ہو)۔
اگرچہ شادی ایک دوسرے کی پسند سے ہوئی ہے مگرجب جنسی عمل کیلئے تنہائی میسرآئی تو کسی بھی مستورعیب کی وجہ سے خاوند کوبیوی سے کراہت ہوگئی اور اس نے مزید”کانٹریکٹ” برقرار رکھنے سے انکار کردیا۔
اب دیکھیے کہ مہرکی رقم جس “خدمت” کے بدلے طے ہوئی تھی، وہ خدمت تو ہوئی نہیں۔رواج تو یہی ہے کہ اب پیمنٹ نہ دی جائے مگرچونکہ طے ہوا تھا “ایڈوانس” رقم کا دینا تو اب قرآن یہ فیصلہ کرتا ہے کہ اس نقصان کو آدھا آدھ کرلو۔ یہ آدھی رقم، یا تو خاوند ادا کرے گا یا پھر وہ بندہ اداکرے گا جس نے نکاح کا معاہدہ کروایا ہے۔ مزید ہدایت یہ کی گئی کہ اگرتم پوری رقم بھی اس عورت کو دے دو( جو کہ اسکے حق سے زیادہ ہے) تو یہ بات تقوی کے قریب ہے(یعنی خدا کو پسند ہے)۔
اس ساری ہدایت کو سورہ بقرہ کی آیت نمبر 237 میں یوں بیان کیا۔
وَ اِنْ طَلَّقْتُمُوْهُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْهُنَّ وَ قَدْ فَرَضْتُمْ لَهُنَّ فَرِیْضَةً فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ اِلَّاۤ اَنْ یَّعْفُوْنَ اَوْ یَعْفُوَا الَّذِیْ بِیَدِهٖ عُقْدَةُ النِّكَاحِؕ۔وَ اَنْ تَعْفُوْۤا اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰىؕ۔وَ لَا تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَیْنَكُمْؕ۔اِنَّ اللّٰهَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ
ترجمہ: اور اگر تم نے عورتوں کو بے چھوئے طلاق دے دی اور ان کے لیے کچھ مہر مقرر کرچکے تھے تو جتنا ٹھہرا تھا اس کا آدھا واجب ہے مگر یہ کہ عورتیں کچھ چھوڑدیں یا وہ زیادہ دے جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے اور اے مردو تمہارا زیادہ دینا پرہیزگاری سے نزدیک تر ہے اور آپس میں ایک دوسرے پر احسان کو بُھلا نہ دو بےشک اللہ تمہارے کام دیکھ رہا ہے

دوسرا کیس:
اب “بغیر صحبت کیے طلاق ہوجانا” والا دوسرا کیس لے لیں (جس میں مباشرت کے بعد پیمنٹ دینا طے ہوئی ہو)۔
ناگوار الفاظ استعمال کرنے معذرت خواہ ہوں مگربات کواچھی طرح سمجھانے یہ سطحی جملہ عرض کرتا ہوں کہ “جب پیمنٹ آن ڈیلیوری طے ہو اور پارسل پیکنگ کھلنے کے بعد حسب طلب پراڈکٹ نہ ملے تو خریدار کیوں پیمنٹ کرے گا؟”۔ چنانچہ اگر مہر کی رقم، صحبت کے عمل کے بعد دینا طے پایا تھا مگرا س عمل سے پہلے ہی طلاق ہوگئی توپھر قرآن کا فیصلہ ہے کہ مرد پر کوئی ذمہ داری نہیں بنتی۔تاہم اگر اپنی وسعت بقدر ، اس عورت کو کچھ عطا کردے تو یہ برتاؤ نیک لوگوں کا برتاؤ ہے (یعنی خدا اس سے راضی ہوگا)۔
یہ آیت اوپر درج شدہ آیت سے ایک نمبر پہلے والی آیت ہے یعنی سورہ بقرہ آیت 236۔ ملاحظہ کیجیے۔
لَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ اِنْ طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ مَا لَمْ تَمَسُّوْهُنَّ اَوْ تَفْرِضُوْا لَهُنَّ فَرِیْضَةً ۚۖ۔وَّ مَتِّعُوْهُنَّۚ۔عَلَى الْمُوْسِعِ قَدَرُهٗ وَ عَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهٗۚ۔مَتَاعًۢا بِالْمَعْرُوْفِۚ۔حَقًّا عَلَى الْمُحْسِنِیْنَ
ترجمہ: تم پر کچھ مطالبہ نہیں اگرتم عورتوں کو طلاق دو جب تک تم نے ان کو ہاتھ نہ لگایا ہو یا کوئی مہر مقرر کرلیا ہو اور ان کو کچھ برتنے کو دو مقدور والے پر اس کے لائق اور تنگدست پر اس کے لائق حسب دستور کچھ برتنے کی چیز یہ واجب ہے بھلائی والوں پر۔
یہ دونوں آیات فقط “پیمنٹ” کا طریقہ بتانے کیلئے ہیں۔ ان دوآیات سے پہلے والی دوآیات بیوہ کی عدت بارے ہدایات تھیں۔ یعنی یہ سارا ٹاپک “معاشی ایشو” پر ہی چل رہا ہے۔
اب مطلقہ کی عدت بارے سورہ احزاب کی آیت نمبر 49 دیکھیے جو بڑی واضح ہے کہ ایسی عورت پر کوئی عدت نہیں جس کے ساتھ خاوند نے صحبت نہ کی ہو۔ البتہ جنرل ہدایت یہ کی گئی ہے کہ ان کو رخصت کرتے ہوئے انکی عزت نفس اور مالی حاجت کا احساس ضرور کیا کرو۔کچھ نہ کچھ ہرجہ خرچہ بھی دو اور احترام سے رخصت کرو۔ملاحظہ کیجیے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِن قَبْلِ أَن تَمَسُّوهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّونَهَا فَمَتِّعُوهُنَّ وَسَرِّحُوهُنَّ سَرَاحًا جَمِيلًا
ترجمہ: مومنو! جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرکے ان کو ہاتھ لگانے (یعنی ان کے پاس جانے) سے پہلے طلاق دے دو تو تم کو کچھ اختیار نہیں کہ ان سے عدت پوری کراؤ۔ ان کو کچھ فائدہ (یعنی خرچ) دے کر اچھی طرح سے رخصت کردو۔
برسبیل تذکرہ، یہ تینوں آیات بھی اگرایک ہی آیت قرار پاتیں تو یہ آرٹیکل زیادہ واضح ہوجاتا۔ کبھی تمنا ہوتی ہے کہ جس شخص نے بھی ہمارا قرآن مرتب کیا ہے، وہ یا تو تاریخ نزول کے حساب سے آیات کودرج کرتا یا پھر ٹاپک وائز جمع کرتا تو زیادہ بہتر ہوتا۔ ( براہ کرم یہ سٹوری نہ سنائی جائے کہ یہ والا قرآن خود جناب نبی اکرم نے ترتیب دیا ہوا ہے۔ اور یہ کہ 23 سال میں جب جب کوئی آیت نازل ہوتی تو پیغمبر خود بتاتے کہ اس آیت کا یہ والا ٹکڑا فلاں سورت کی فلاں آیات کے درمیان رکھ دیا جائے)۔
بہرحال، قرآن کی جو ترتیب آج موجود ہے، اسی پرمتفق ہونا ہی اب خیرکی بات ہے کیونکہ آج اس ایشو کو کوئی بھی حل نہیں کرسکتا۔

برادران کرام!
قرآن کی آیات نے بڑے واضح طریقہ سے مذکورہ ایشوحل دیا ہے اور مزید کسی رفرنس کی ضرورت نہیں ہے۔ہمارے اس مضمون کے جواب میں بعض مولوی صاحبان مختلف روایات واحادیث پیش فرما رہے ہیں۔ ہرقسم کا علمی اختلاف سر آنکھوں پر مگرگزارش ہے کہ وہ حضرات، ایک غلط پچ پرکھیل رہے ہیں۔ ہمیں جس دن قرآن کو قرآن سے سمجھنے میں بے بسی ہوئی تو پھراحادیث کا آسرا لیں گے۔ ہم قرآن کی بجائے، احادیث کو رفرنس کیوں نہیں بناتے؟، اسکی ایک وجہ آپ سے شیئرکرتا ہوں۔
کوئی بھی شخص، قرآن( یا کسی بھی قانون کی کتاب) سے اپنا کوئی مقدمہ ثابت کرنا چاہتا ہے تواسکے لئے ٹیکسٹ میں سے اپنے لئے مطلب نکالا کرتا ہے۔ یعنی پہلے ایک ذہن بناکرہی کسی ٹیکسٹ کواسی عینک سے پڑھتا ہے(ہم نے بھی ایسا ہی کیا ہے)۔مگر پرانے زمانے کے مولوی صاحبان نے پہلے اپنے ذہن میں دین کی ایک خاص شکل سوچی، پھر اسکو سپورٹ کرنے کیلئے رسول کے نام پراحادیث بنا دیں تاکہ لوگ سوال نہ اٹھا سکیں۔
کوئی بھی قانون ہو، اس پرانسانی ذہن نے سوال در سوال اٹھانے ہی ہوتے ہیں۔ اختلافی سوالات کا ایک جواب تو منطقی ہوا کرتا ہے اورایک جواب مولویانہ ہوا کرتا ہے۔ میں اسکی مثال عرض کرتا ہوں۔
مثلاً مذکورہ آیت پرایک سوال کھڑا کیا جائے کہ آخر کیا وجہ ہوسکتی ہے کہ شادی کی پہلی رات ہی بغیرصحبت کیے آپس میں جدائی کا فیصلہ ہوگیا؟۔ (یہ فیصلہ بیوی یا میاں دونوں کی طرف سے ہوسکتا ہے)؟۔ ہمارا جواب ہے “اسکی کئی قابل فہم وجوہات ہوسکتی ہیں مثلاً ایک دوسرے کے بدن میں کوئ ایسا عیب دیکھا جو انتہائی کراہت کا سبب بنا ہو”۔اب ہمارے جواب پر پرمزید مکالمہ بھی کیا جاسکتا ہے کیونکہ یہ لوجک پرجواب ہے نہ کہ تقدس پر۔
مگرمولویانہ جواب یہ ہوتا ہے کہ رسول اکرم سے ایک حدیث روایت کردی جائے تاکہ اگلے کا منہ بند ہوجائے۔ چنانچہ اس سوال کے ضمن میں بھی ستم ظریفوں نے حدیث مہیا کی ہوئی ہے۔
بخاری شریف کی ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول نے ایک کنواری اورخوبصورت لڑکی سے نکاح کرلیا تھا۔ جب خدا کا رسول، شب زفاف میں اس لڑکی کے پاس آیا تو اس نے کہا” اعوذ باللہ منک”۔ ( بالفاظ دیگررسول اکرم کو نعوذباللہ شیطان سے ملا دیا)۔ یہ جملہ سن کر رسول اکرم نے اس کو فوراً طلاق دے دی تھی۔
اب اس حدیث شریف پرخود ہی غورکرلیجیے۔ ایک لڑکی نے اپنی مرضی سے نکاح کیا پھردلہا کو دیکھتے ہی بدتمیزی کردی، تو کیا یہ لڑکی نارمل تھی؟۔ اسکو ابنارمل کہیں توبھی مسئلہ کہ صحابیہ کی توہین کی( بلکہ ام المومنین کی توہین کیونکہ نکاح کے بعد اسکو یہ سٹیٹس تو بہرحال مل ہی چکا تھا)۔ اس سے قطع نظر کہ رسول اکرم جیسے صاحب بصیرت نے ایسی لڑکی کو کیوں چنا تھا، سوال تو یہ بھی اٹھتا ہے کہ رسول اکرم اپنی شب زفاف کی ایسی باتیں کس کو بتایا کرتے تھے؟۔

ایک منطقی سوال ہرذہن میں اٹھتا ہے کہ ایک لڑکی اپنی شادی کی پہلی رات، پہلی ملاقات میں خوامخواہ ایسا جملہ کیوں کہے گی؟۔ اب اسکو جسٹیفائی کرنے ایک دوسری حدیث ہے کہ چونکہ اس لڑکی کے حسن سے حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ کو رقابت محسوس ہوئی تو انہوں نے اسکو پٹی پڑھائی کہ رسول اکرم کو پہلی رات ایسا جملہ بولوتو وہ خوش ہوجاتے ہیں۔یہ اسی بات میں آگئی۔ سبحان اللہ۔ یعنی ہماری امہات المومنین کا یہ کیریکٹر تھا کہ ایک بچی کی زندگی برباد کردی اور سوری تک نہیں کیا کہ حضور کو اصل بات بتادیتیں اور اس کو طلاق نہ ہوتی۔
اب اس اعتراض کا پھر یہ جواب دیا جاتاہے کہ دراصل یہ حضرت عائشہ اور حفصہ والی روایت ہماری کتابوں میں اہل تشیع نے ڈالی ہوئی ہے کیونکہ اہل تشیع کوان دونوں صحابیات سے نفرت ہے۔(مگرآپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ بخاری میں یہ حدیث یہودیوں نے ڈالی ہوگی کیوں کہ انکو بھی تو رسول کی ذات سے نفرت ہے)۔
اچھا یہی بخاری کی حدیث ایک اور سوال کو جنم دیتی ہے۔ مولوی صاحبان نے ایک خودساختہ خدائی قانون یہ بھی بنایا ہوا ہے کہ اسلام میں مرتد کی سزا موت ہے( سینکڑوں مسلمانوں کی زندگی کے چراغ گل کروائے گئے)۔ اب پوچھیں کہ رسول اکرم کے منہ پر رسول کی توہین کرنے والی نے کفر کا ارتکاب کیا یا نہیں؟۔ اور اگر وہ مرتد قرارپاتی ہے تو رسول اکرم نے اسکو موت کی سزا کیوں نہیں دی تھی؟۔

Advertisements
julia rana solicitors

آمدم برسرمطلب! ہمیں بخاری شریف کو غلط یا درست کہنے کی ضرورت نہیں مگرہمیں اس روایت کی کوئی ضرورت بھی نہیں ہے۔ہم یہ عرض کرتے ہیں کہ قرآن کو چھوڑ کرآپ دیگر حوالہ جات کی طرف جائیں گے تو بھول بھلیوں میں بھٹکتے پھریں گے مگر معاملہ الجھتا ہی چلا جائے گا۔
واپس اپنے موضوع پرآتے ہیں۔
مندرجہ بالا آیات کی روشنی میں پاکستانی کلچر کے حساب سے ہمیں مندرجہ ذیل راہنمائی ملتی ہے۔
1۔ لاہور کے دوبندوں نے ایک لاکھ روپے مہرمقرر کرکے، دولڑکیوں سے شادی طے کی۔ایک بندے نے چترال کی لڑکی سے شادی کی، وہاں گیا، پیسے دیئے، نکاح پڑھایا اور لڑکی کو لاہور لے آیا۔ دوسرے بندے نے فیصل آباد میں شادی کی،ولیمہ بارات وغیرہ سب کچھ ہوا۔
2۔ شادی کی پہلی رات چترالی لڑکی پسند نہیں آئی اور اس بندے نے بغیرکوئی صحبت کیے اسکو طلاق دے دی۔ اس لڑکی پرکوئی عدت نہیں –کورٹ یہ فیصلہ کرے گی کہ مہرکا آدھا یعنی پچاس ہزار اس خاوند کوواپس کیا جائے گا۔ البتہ خاوند کو نصیحت کی جائے گی کہ سارا مہرمعاف کردو۔ لڑکی کو عزت واحترام سے واپس کیا جائے گا( یعنی اسکے کسی عیب کو مشتہر نہ کیا جائے،وغیرہ)۔
3۔ شادی کی پہلی رات فیصل آبادی لڑکی پسند نہیں آئی اور اس بندے نے بغیرصحبت کیے اسکو طلاق دے دی۔ اس لڑکی پر کوئی عدت نہیں۔ مگرکورٹ یہاں آدھوآدھ مہر کا فیصلہ نہیں کرے گی۔ سماجی پریشرکی مجبوری سے لڑکی والوں نے لاکھوں کا جہیز دیا، شادی بارات پرلاکھوں روپے خرچ کئے، اب اس کیس میں فقط یہ نہیں ہوسکتا کہ خاوند کوپچاس ہزار روہے واپس دے کر بات ختم ہوجائے۔
امید ہے احباب مقدمہ کو بخوبی سمجھ چکے ہوں گے۔ آگے ہم مطلقہ کی عدت کے دوسرے کیس پربات کریں گے ان شاء اللہ۔
جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply