• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • طاعون عمواس  سے  وبائی صورتحال میں رہنمائی۔۔                   ڈاکٹر محمد عادل

طاعون عمواس  سے  وبائی صورتحال میں رہنمائی۔۔                   ڈاکٹر محمد عادل

تعارف

اس وقت پاکستان سمیت پوری دنیا   ایک جان لیوا وائرس  کورونا  (COVID-19)کے لپیٹ میں ہے ۔ طبی ماہرین  اس وبا کی ویکسین کی تیاری  کی کوششوں پر دن رات ایک کئے ہوئے ہیں ۔ اور بڑی حد تک ان کو اس  میں کامیابی ملی ہے۔ لیکن ویکسین کے ساتھ ساتھ حفاظتی تدابیر  اختیار کرنے  پر بھی زور دیا جارہا ہے۔ ان حفاظتی تدابیر  کو سوشل میڈیا  پر  مختلف حوالوں سے زیر بحث لایا گیا ۔ سب سے زیادہ  یہ سوال اٹھایا گیا کہ کیا  حفاظتی تدابیر توکل کے خلاف  ہے  یا نہیں؟  اس حوالے سے اسلامی احکامات  تو پوری تفصیل کے ساتھ ذخیرۂ کتب میں موجود ہے۔ البتہ تاریخ اسلامی  پر نظر ڈالنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ موجودہ دور میں  طبی ماہرین  نےجو حفاظتی تدابیر  تجویز کئے ہیں ، ان کا تصور پہلے سے موجود رہا  ہے۔  زیرِ نظر آرٹیکل میں اسلامی تاریخ  میں مذکور ایک  مشہور وبا طاعون عمواس اور اس سے مستبط حفاظتی تدابیر کا ذکر کیا جائے گا۔ آرٹیکل کے پہلے حصے  میں طاعون عمواس  کی مختصر تاریخ   اور دوسرے حصے میں طاعون کے چند منتخب واقعات سے  ایسے  مستنبط  احکامات کا ذکر کیا جائے گا، جو موجودہ وباء کے حوالے سے اہمیت کے حامل ہیں۔

طاعون عمواس

سیدنا عمر بن الخطابؓ کے زمانہ خلافت کے پانچویں سال سن ۱۸ ہجری میں فلسطینی شہر رملہ  کے قریبی  علاقہ عمواس میں طاعون کی وبا پھوٹ پڑی ۔ اس وقت اسلامی لشکر سیدنا ابو عبیدہ بن الجراح  ؓکی قیادت میں اسی علاقے میں جہادی مہم پر تھا۔ اس وبا سے ابو عبیدہ بن الجراحؓ ، سیدنا معاذ بن جبل ؓ، یزید بن ابی سفیانؓ  اور سہیل بن عمرو ؓ جیسے کبارصحابہؓ سمیت پچیس ہزار (۲۵۰۰۰) افراد  لقمہ اجل بنے [i]۔

طاعون عمواس  سے وبائی صورتحال میں رہنمائی

طاعون عمواس کے زمانہ میں رونما ہونے والے تین  واقعات سے  موجودہ وبائی صورتحال میں مجوزہ حفاظتی تدابیر  کا ثبوت  اور رہنمائی ملتی ہے:

لاک ڈاؤن(lock down)  کا  ثبوت

سیدنا عمر ؓ   بن الخطاب  طاعون عمواس  وبا کے زمانہ  میں  شام کے دورے کے ارادے سے مدینہ منورہ سے نکلے ۔ آپؓ  جب مقام سرغ پہنچے، تو  آپ کو وبا  پھوٹ پڑنے کی خبر دی گئی ۔ آپ نے کبار صحابہ ؓ کو جمع کرکے ان سے مشورہ طلب کیا کہ میں طاعون سے متأثرہ علاقہ میں داخل ہو جاؤں  یا نہیں؟ اکثر صحابہ کرام ؓ  نے آپ کو مشورہ دیا  کہ آپؓ  وبائی علاقہ میں داخل ہوئے بغیر واپس  مدینہ منورہ چلے جائیں ۔ سیدنا عمرؓ نے ان کے مشورے پر دورہ ملتوی کیا اور وہیں سے  واپسی کے لئے رخت سفر باندھا۔  ابو عبیدہ بن الجراحؓ کو خلیفہ وقت کے  اس فیصلے کا علم ہوا تو حاضرِ خدمت ہو کر آپ سے کہا کہ آپ اللہ تعالیٰ  کی تقدیر سے فرار اختیار کرنا چاہتے ہیں ،تو سیدنا عمرؓ نے جواب دیا کہ ہاں   میں  اللہ تعالیٰٰ کی ایک تقدیر سے دوسری تقدیر  کی طرف لوٹ  رہا ہوں[ii] [iii]۔اس موقع پر  سیدنا عبد الرحمٰن بن عوف ؓ نے    سیدنا عمرؓ کے فیصلے کی تائید میں یہ  حدیث مبارک  بیان  فرمائی:

“جس شہر میں طاعون پھوٹ پڑا ہو، وہاں مت جاؤ، اوراگر پہلے سے اس شہر میں ہوں، تو وہاں سے باہر نہ جاؤ”۔[iv]

اس  واقعہ سے لاک ڈاؤن (Lock down) وبا کے علاقے میں باہر سے داخل ہونے کی  ممانعت  اور  وبا کے علاقے کے لاک ڈاؤن کی مشروعیت معلوم ہوتی ہےاور ساتھ  یہ بات بھی   ثابت ہوتی ہے کہ ایسا کرنا توکل کے خلاف نہیں ،جیسے سیدنا عمر ؓ مقام سرغ سے واپس ہوئے اور ابو عبیدہ بن الجراح کے جواب میں فرمایا کہ  یہ بھی تقدیر ہے۔

قرنطینہ (Quarantine)آئسولیشن(Isolation)  اور(Social distancing) کا  ثبوت

سیدنا معاذؓکے بعد سیدنا عمر بن العاص امیر مقرر ہوئے ، تو آپ نے وبا کے پھیلاؤ کو آگ سے تشبیہ دی اور لشکر کے افراد کو پہاڑوں میں منتشر ہونے کا حکم دیا ۔ شرکائے لشکر جب آپ کے حکم کے مطابق پہاڑوں میں منتشر ہوگئے تو وبا ختم ہوگئی۔ سیدنا عمر کو جب اس عمل کے متعلق معلوم ہوا ،تو آپ نے نکیر نہیں فرمائی[v]۔

اس واقعہ سے وبا سے متاثرہ علاقے کے افراد کا ایک جگہ جمع ہونے  سے روکنے کا جواز معلوم ہوتا ہے، جیسے عمرو بن العاص ؓ نے لشکر کے افراد کو پہاڑوں میں منتشر ہونے کا حکم دیا۔یہ ایک طرح سے قرنطینہ(quarantine) آئسولیشن(Isolation)  اور لوگوں سے دور رہنے(Social distancing) کا ثبوت ہے۔

وبا کے وقت لوگوں کو امید دلانا اور خوف  و دہشت نہ پھیلانا

طاعون عمواس کے وقت اسلامی لشکر ابو عبیدہ بن الجراحؓ  کی قیادت میں اس علاقہ میں  موجود تھا ۔ آپؓ نے لشکر کے شرکاء کو  خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ اے لوگو!یہ وبا تمہارے لئے رحمت ہے اور تمہارے نبی کی دعا ہے،تم سے پہلے گزرے صالحین کی موت کا ذریعہ ہے۔ ابو عبیدہ ؓ اسی مرض میں وفات پا گئے ،تو سیدنا معاذ بن جبل ؓ کو امارت ملی ۔لیکن بہت جلد آپ بھی اس مرض کا شکار ہو کر چل بسے [vi]۔

اس واقعہ سے دو  احکامات ثابت ہوتے ہیں پہلا حکم وبائی علاقہ سے باہر نہ نکلنے کی ممانعت   اور  دوسرا  حکم  یہ معلوم ہوتا ہے  وبائی صورتحال میں خوف و دہشت پھیلانے کی بجائے  لوگوں کو حوصلہ   اور امید دلایا جائے،جیسے  سیدنا ابو عبیدۃ الجراح ؓ  نے خطبہ میں فرمایا۔

مندرجہ بالا واقعات سے وبائی صورتحال میں کافی رہنمائی ملتی ہے۔ اسی طرح وبا کے زمانے میں عبادات ، تجہیز وتکفین وغیرہ  کے حوالے سے  احکامات جابجا موجود ہیں، لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ ان احکامات کو   میڈیا  و سوشل میڈیا  کے ذریعے لوگوں تک پہنچایا جائے، اس سے ایک طرف پاکستان جیسے مذہبی معاشرہ کے حامل ملک میں لوگوں کے درمیان وبا کے حوالے سے  شکوک و شبہات دور ہوں گے اور دوسری  طرف  حفاظتی تدابیر اختیار کو شرعی  ذمہ داری  سمجھ کر اس پر عمل پیرا ہوں گے اور وبا کے پھیلاؤ کے روکنے میں مدد ملے گی۔

حوالہ جات

[i]               ٍٍٍ تاریخ ابن خلدون ،عبد الرحمٰن بن محمد  بن محمد ابن خلدون، 2: 524، دار الفکر ، بیروت،۱۴۰۸ھ

[ii]              ٍٍٍ البدء والتاریخ،المطہر بن طاہر المقدسی،5: 186،مکتبۃ الثقافۃ الدینیۃ،بور سعید

[iii]             تاریخ الطبری،محمد بن جریر الطبری،4: 61، دارالتراث ، بیروت، 1387ھ

[iv]             ٍٍٍ صحیح  البخاری، کتاب احادیث الانبیاء،  باب   حدیث الغار ،حدیث نمبر :4373

[v]              تاریخ الطبری،4: 62

Advertisements
julia rana solicitors

[vi]             المنتظم  فی تاریخ الامم والملوک،  4: 247، دار الکتب العلمیۃ  ،بیروت،1412ھ

Facebook Comments

ڈاکٹر محمد عادل
لیکچرار اسلامک اسٹڈیز باچا خان یونیورسٹی چارسدہ خیبر پختونخوا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply