پانچویں جنریشن کے شعراء اور ہم۔۔۔محمد حسنین اشرف

تنقید نہ تو میرا شوق ہے اور نہ اہلیت اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ میں اس موضوع پر کچھ لکھ سکوں۔ قلم و قرطاس سے پرانا تعلق ہے لیکن کچھ ایسا پرانا نہیں کہ اہل  قلم میں شمار کیا جاؤں۔ طالب علم ہوں، چیزوں کو اُلٹ پلٹ کر دیکھنے کا عارضہ لاحق ہے  بہرحال  جدید شعراء نے شاعری کا رخ جس طرف موڑ دیا ہے،  وہ اب بہت عجیب سا معلوم ہوتا ہے۔ مجھ ایسے قدامت پسند لوگوں پر یہ تنقید بالکل جائز ہے اور سوال پلٹ کر ہوسکتا ہے کہ آپ جدیدیت سے اس قدر بیزار کیوں ہیں۔ تو یہ مضمون شاید اسی الزام کے جواب میں اپنی پوزیشن واضح کرنے کی کوشش ہے۔

یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ میں ذاتی طور پر اس طرف کبھی مائل نہیں ہوسکا کہ ادب و ادبیات کو جدید و قدیم کی تفریق میں ڈالا جائے۔ زبان و ادب اپنا ظرف بہت وسیع رکھتے ہیں اور یہ اپنا سفر حالات کے مطابق کرتے ہیں۔ اس سفر کے دوران لسانی و  ادبی رجحانات میں ایک واضح تبدیلی دیکھی جاسکتی ہے اور یہ تبدیلی ایک زندہ زبان میں صحت مند سرگرمی کے طور پر ہی دیکھی جاتی ہے اور دیکھی جانی بھی چاہیے۔ اگر آپ غور کریں تو  جدید شاعر و ادیب سے ہمارا اختلاف ہرگز اس بات پر نہیں ہے کہ جدید لسانی و ادبی رجحانات سے اعتناء کوئی بُری چیز ہے۔ یہ ہرگز کوئی بُری چیز نہیں ہے۔

مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب شاعر و ادیب زبان کے استعمال میں یا تخیل کی پرواز میں سے ایک یا دونوں پر سمجھوتہ کرلیتا ہے۔ اس کی وجہ زود گوئی بھی ہوسکتی ہے اور زود گو ہونا بھی بُرا نہیں ہے۔ اگر کلام کے انتخاب کی کسوٹی اور معیار ذرا اعلیٰ ہو تو اس زود گوئی سےبہت بہتر نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ ادب حقیقت کا پرتو ہو یا ادب برائے ادب ہو، جب تک زبان کا جمالیاتی استعمال نہ ہو۔ یہ  ایک لایعنی مشق  رہ جاتی ہے جس میں ایک عرصہ ریاض کےبعد الفاظ کے اُلٹ پھیر پر تو گرفت اچھی ہوجاتی ہے لیکن شعر و جملے کی بنت کمزور پڑجاتی ہے۔ جس میں ادیب و شاعر کے ہاں، کلام کی ساخت حاوی ہوجاتی ہے   نتیجتاً زبان اور تخیل ثانوی حیثیت اختیار کرلیتا ہے۔ یہی مسئلہ ادب سے حقیقت کو منعکس دکھانے والوں کے ساتھ تھا۔ ان کے ہاں، حقیقت اور اس کا بیان اولین جگہ پا جاتا تھا اور زبان اس حقیقت کی ترسیل کے لیے بطور واسطہ استعمال ہوتی تھی ۔ جس سے حقیقت کا بیان زبان کی جمالیات پر حاوی ہونا شروع ہوجایا کرتا تھا۔ ادب برائے ادب نے، ان دونوں مسائل کو بیک وقت جانچا اور  اس نقص کو دور کرنے کی کوشش کی جس سے زبان اورمقصدیت کے درمیان توازن قائم کرنے کی کوشش کی گئی۔

آپ اقبال کو دیکھیں،  اقبال بلاشبہ ایک بڑا شاعر ہے مسجد قرطبہ کا خالق جب کسی فلسفہ پر تنقید کی غرض سے کچھ کہتا تو نظر آتا ہے کہ شاید تیسرے درجے کی کوئی چیز تیار ہوئی ہے۔ جس سے نہ تو ادبیات میں اعتناء ہوسکتا ہے اور نہ ہی فلسفہ میں۔ آپ فیض کو لیجیے، جس دن فیض کا نظریہ غیر متعلق ہوگا آپ دیکھیے کہ فیض کے ساتھ بھی زمانہ وہی حشر کرے گا جو اقبال کے ساتھ ہوا۔ حالانکہ یہ اپنے زمانے کے بڑے لوگ ہیں۔ خیر،  پانچویں جنریشن کے شعراء سے ہماری جنگ اس سے بھی آگے کی ہے۔

مسئلہ ہے کہ ہم ایسے نوجوان جو شاعری کا پہلے ہی کم تر ذوق رکھتے ہیں ان کے سامنے جب ایسا کلام پیش کیا جائے گا جس کا مضمون اور زبان دونوں ناقص اور بعض مقامات پر باہم متضاد ہوں گے۔ تو ہمارا ذوق تو جا تارہے گا۔ اب ہم ایسے بھی میر نہیں کہ ہماری زبان خراب ہوتی ہے لیکن وہ نسل جس کے پاس زبان و بیان میں سے ایک بھی نہ بچ رہا ہو۔ ان کے لیے یہ شدید نقصان دہ بات ہے کہ شعر کے نام پر ان کو کسی ایسی چیز کا عادی کردیا جائے جس سے صحت خراب ہوتی ہو۔ یعنی اگر آپ نشہ کرنا ہی چاہتے ہیں تو کچھ اچھا کیجیے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ قوم چونکہ زبان وبیان سے نابلد ہے اس لیے کمتر سے کمتر کلام کو بھی قبول کرلیا جائے تاکہ کم از کم زبان سے تعلق بنا رہے۔ نوجوان کو سہل پسندبنا دینااور اس کے جذبات کو الفاظ کا رُخ نہ دکھا سکنا جرم ہے جس کی سزا  ہم یوں قبول کرتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ ہم اردو کو رومن رسم الخط کی نظر ہونے سے قبل بچا سکتے ہیں، سوشل میڈیا اور بلاگز نے ہمیں یہ بڑی سہولت دی ہے۔ہمیں اس موقع کو ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیے۔

ایک اور مغالطے کا شاید ہم عرصہ دراز سے شکا ر ہیں کہ زبان کا جمالیاتی اظہار محض شعری اصناف میں ہوسکتا ہے۔ حالانکہ ایسا ہرگز نہیں ہے، غالب جو ہماری شعری روایت کا ایک بڑا نام ہے ذرا اس کی نثر اٹھا کر دیکھیے، اردوئے معلیٰ کیا شاندار مجموعہ ہے۔ یہ ڈاکٹر محمد حسین نے غلام رسول مہر کےبنام خطوط میں سے کچھ ظرافت کچھ شوخی چنی ہے تم بھی لطف لو۔ اور زبان کا استعمال دیکھو۔۔

’’آپ کا خط کل پہنچا ۔ آج جواب لکھتا ہوں ۔داد دینا ، کتنا شِتاب لکھتا ہوں ۔مطالبِ مندرجہ کے جواب کا بھی وقت آتا ہے ۔ پہلے تم سے یہ پوچھا جا تا ہے کہ برابر کئی خطوں میں تم کو غم و اندوہ کا شکوہ گزار پایا ہے۔ پس اگر کسی بے درد پر دل آیا ہے تو شکایت کی کیا گنجایش ہے؟بلکہ یہ غم تو نصیبِ دوستاں درخورافزایش ہے۔‘‘( خطوطِ غالب: غلام رسول مہر، ص ۲۲۲)

آہ،

 

جز قیس اور کوئی نہ آیا بروئے کار

صحرا مگر بہ تنگی چشم حسود تھا

سوچ میں ہوں کہ اس شعر کا مفہوم لکھوں یا یونہی جانے دوں؟

جز قیس اور کوئی نہ آیا بروئے کار

صحرا مگر بہ تنگی چشم حسود تھا

Advertisements
julia rana solicitors

معلوم پڑتا ہے جیسے اردو کے صحراء میں جز غالب کوئی اور بروئے کار نہ آیا۔

Facebook Comments

محمد حسنین اشرف
ایک طالب علم کا تعارف کیا ہوسکتا ہے؟

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply