فدک کا مقدمہ۔۔۔ (دوسرا ،آخری حصہ)محمد فاروق علوی

دوسری بات یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں اس لیے کہ نبوت ختم ہوچکی ، لہذا اے علی تم نبی نہیں ہوسکتے البتہ میرے نائب ہو ، ۔
حضرت ہارون موسیٰ کے وارث نہیں وزیرتھے، انہوں نے رب سے مانگا بھی وزیر ہی تھا، اب اس آیت کو لیکر اگر کوئی یہ معانی پہناتا ہے کہ موسی ٰ نے نبوت میں اپناوارث مانگاتھا جوان کو دے دیاگیا تو یہ معنی لغت اور اصطلاح دونوں کی رو سے غلط بھی ہے اور قرآن کی معنوی تحریف بھی کیونکہ حقیقی معنی جب متعذر نہ ہوتو مجازی معنی مراد لینا جائز نہیں ، جبکہ یہاں حقیقی معنی متعذر نہیں ہے ۔
حضرت زکریا علیہ السلام کی دعا قرآن مجید میں مذکور ہے :-
قَالَ رَبِّ إِنِّي وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّي وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شيبا وَلَمْ أَكُن بِدُعَائِكَ رَبِّ شَقِيّاً (٤) وَإِنِّي خِفْتُ الْمَوَالِيَ مِن وَرَائِي وَكَانَتِ امْرَأَتِي عَاقِراً فَهَبْ لِي مِن لَّدُنكَ وَلِيّاً (٥) يَرِثُنِي وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ وَاجْعَلْهُ رَبِّ رَضِيّاً (٦) يَا زَكَرِيَّا إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلَامٍ اسْمُهُ يَحْيَى لَمْ نَجْعَل لَّهُ مِن قَبْلُ سَمِيّاً ۔
زکریا نے کہا میرے رب میری ہڈیاں کمزورہوگئیں اور سربڑھاپے کی وجہ سے سفید ہوچکا اور اے رب میں تجھ سے دعا کرکے محروم نہیں ہوا اور میں اپنے پیچھے بھائی بندوں سے ڈرتا ہوں اور میری عورت بانجھ ہے مجھے اپنی طرف سے ایک وارث عطا کر جو میرا وارث ہو اور آل یعقوب کی جو میراث مجھے ملی ہے اس کا بھی وارث ہو اے میرے رب اسے نیک بنانا ۔اللہ تعالی نے کہا : اے زکریا ! ہم تجھے ایک لڑکے کی خوش خبری دیتے ہیں جس کا نام یحیی ہے اس سے پہلے ہم نے کسی کا یہ نام نہیں رکھا۔

درج بالا آیت کو مکرر پڑھیں ،حضرت زکریا نے اللہ سے اپنا وارث مانگا اور اللہ نے انہیں وارث بھی دیا اور اس وارث کا نام بھی خود ہی تجویز فرمایا ۔

یہ بھی پڑھیں :فدک کا مقدمہ۔۔۔ (حصہ اول)محمد فاروق علوی
انی خفت الموالی کے الفاظ بتا رہے ہیں کہ نبوت کا وارث مراد نہیں کیونکہ حضرت زکریا کو اپنے موالی سے یہ خطرہ تو ہو نہیں سکتا تھا کہ وہ زبردستی منصب نبوت پر قابض ہو جائیں گے ، البتہ یہ خطرہ ضرور موجود تھا کہ وہ مال و جائیداد پر قبضہ کر لیں گے اور اسی ڈر کی وجہ سے انہوں نے خدا سے اپنا وارث مانگا۔
اہل علم قرآن کے الفاظ ؛ انی خفت الموالی ؛ پراگر غور فرمائیں تو مسئلہ حل ہوجائے گا ، آخر وہ کونسا ڈر تھا جو زکریا علیہ السلام کو لگا ہوا تھا کہ میرےبعد میری وراثت چھن جائے گی، کون چھینے گا؟ وراثت کیا تھی جس کے چھن جانے کاانہیں ڈرتھا؟ اگر نبوت بھی وراثت ہے جیسا کہ بعض کا زعم ہے   کہ انہوں نے اپنی نبوت اور علم و فضل کا وارث مانگا تھا تو کیا نبوت یا علم و فضل کو بھی کوئی چھین سکتا ہے ؟
” واجعلہ رب رضیا  “کا جملہ بتا رہا ہے کہ وہ نبوت کا وارث ” نبی ؛ بیٹا نہیں مانگ رہے بلکہ اپنا ذاتی وارث مانگ رہے تھے ورنہ وہ اس کے نیک ہونے کی دعا نہ کرتے کیونکہ انہیں کم از کم یہ تو معلوم ہی تھا کہ نبی نیک ہی ہوتا ہے

اگر انبیاء کی میراث ہی نہیں ہوتی تو حضرت زکریا علیہ السلام نے وارث کی درخواست کیوں کی ؟
اور اگر بالفرض انہوں نے وارث کے لئے دعا مانگ بھی لی تھی تو اللہ نے انہیں یہ کہہ کر خاموش کیوں نہ کرا دیا کہ تم تونبی ہو ۔تم یہ کیا کہہ رہے  ہو؟ نبی کی تومیراث ہی نہیں ہوتی ۔لہذا تمہیں وارث کی دعا ہی سرے سے نہیں مانگنی چاہیے ؟

اگر انبیاء کی میراث ہی نہیں ہوتی تو اللہ تعالی نے انہیں وارث کیوں عطا فرمایا اور اس وارث کا نام بھی خود ہی تجویز کیوں کیا؟
حضرت سیدہ فاطمة الزهراء سلام اللہ علیھا نے مذکورہ بالا آیات کی تلاوت کی اور ان آیات سے “لا نورث ” والی اس حدیث کی تردید فرمائی ۔ لیکن حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے تمام آیات اور دلائل سن کربھی حضرت سیدہ فاطمہ کو حق دینے سے انکار کردیا ۔ پھر حضرت سیدہ نے آخر میں فرمایا :-
فدونکھا مخطومۃ مرحومۃ نلقاک یوم حشرک ۔۔۔۔۔۔۔فنعم الحکم اللہ ۔۔۔۔۔والموعد القیامۃ وعند الساعۃ یخسر المبطلون ۔
“اب تم اپنی خلافت کو نکیل ڈال کر اس پر سوار رہو ۔اب قیامت کے دن تجھ سے ملاقات ہوگی ۔اس وقت فیصلہ کرنے والا اللہ ہوگا اور وعدہ کا مقام قیامت ہے اور قیامت کے روز باطل پرست خسارہ اٹھائیں گے ”
یابن ابی قحافۃ افی کتاب اللہ ان ترث اباک ولا ارث ابی لقد جئت شیا فریا افعلی عمد ترکتم کتاب اللہ ونبذتموہ ورآء اظھرکم ؟
الم تسمع قولہ تعالی واولوالارحام بعضھم اولی ببعض فی کتاب اللہ اخصّکم اللہ بایۃ اخرج ابی منھا ؟ ام تقولون اھلی ملّتین لایتوارثان ؟
اولست انا وابی من ملّۃ واحدۃ ؟ اانتم اعلم بخصوص القرآن وعمومہ من ابی وابن عمّی ؟
“اے ابو قحافہ کے بیٹے ! کیا اللہ کی کتاب کا یہی فیصلہ ہے کہ تم تو اپنے باپ کے وارث بنو اور میں اپنے والد کی میراث سے محروم رہوں ؟ تم ایک عجیب چیز لائے ہو ۔ تو کیا تم نے جان بوجھ کر اللہ کی کتاب کو چھوڑ دیا اور اسے پس پشت ڈال دیا ؟اور کیا تم نے اللہ تعالی کا یہ فرمان نہیں سنا کہ :رشتہ دار ہی ایک دوسرے کے اللہ کی کتاب میں وارث ہیں ؟ اور کیا اللہ نے تمہیں میراث کے لئے مخصوص کرنے کے لئے کوئی آیت نازل فرمائی ہے جس سے میرے والد کو مستثنی قرار دیا ہے ؟ یا تم یہ کہتے ہو کہ دو ملت والے افراد ایک دوسرے کے وارث نہیں بنتے ؟ تو کیا میں اور میرے والد ایک ہی ملت سے تعلق نہیں رکھتے ؟ اور کیا تم میرے والد اور میرے چچا زاد کی بہ نسبت قرآن کے عموم وخصوص کو زیادہ جانتے ہو؟

ان دلائل اور آیات قرآنیہ کو پیش کرنے کے بعد حضرت سیدہ فاطمہ نے ملاحظہ کیا کہ ان باتوں کا حضرت ابوبکر پر کوئی اثر مرتب نہیں ہوا تو ناراض ہو کرروتی ہوئی واپس آئیں ۔ حضرت سیدہ فاطمہ کو پہلے سے ہی اندازہ تھا کہ حضرت ابوبکر انہیں فدک کبھی بھی واپس نہیں کریں گے ۔ لگتا ہے اتمام حجت کے لئے تشریف لے گئی تھیں اور عملی طور پر واضح کردیا کہ جب چند روز پہلے میرے والد وصیت لکھوانا چاہتے تھے تو کہا گیا : ہمیں قرآن کافی ہے ۔اور جب حضرت سیدہ فاطمہ نے اپنی میراث کے لیے قرآن پڑھا تو مقابلہ میں حدیث پڑھ کر سیدہ کو محروم کردیا گیا ۔

حدیث اور عقل ونقل کے تقاضے:
آئیے اس حدیث کو سیرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں دیکھیں ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے والد گرامی حضرت عبداللہ کی میراث لی تھی، اب اگر یہ حدیث درست ہے کہ ہم انبیاء نہ کسی کی وارث ہوتے ہیں اور نہ کوئی ہمارا وارث ہوتا ہے تو رسول اکرم نے اپنے والد کی وراثت کیوں لی ؟ جب وراثت لیکر وارث بن چکے تھے تو یہ کیوں کہا کہ ہم وارث نہیں ہوتے؟ اگر ہم اس حدیث کودرست مانتے ہیں تو اس کا مطلب ہے ہمیں نعوذباللہ پیغمبر کی بات کو کذب ماننا پڑے گا کہ جب وارث بن چکے تو پھر بھی کہہ رہے ہیں کہ ہم وارث نہیں ہوتے ،، یہ وہ صادق و مصدوق پیغمبر ہے جنہیں کافر بھی کاذب نہ کہہ سکے، انہوں نے بھی صادق اور امین مانا جبکہ یہ حدیث ؛ لا نورث ؛ پیغمبر کو نعوذ باللہ جھوٹا ثابت کرتی ہے، اس لیے درایت کے لحاظ سے بھی یہ روایت صحیح نہیں، محدثین نے أصول حدیث میں پہلا نمبر قرآن کودیا ہے کہ روایت کو قرآن پر پیش کیاجائے اگر وہ خلاف قرآن ہوگی تو مردود ہوگی، ہم پہلے یہ واضح کرچکے ہیں یہ روایت قرآن کے خلاف ہے ۔
دوسرا أصول محدثین نے یہ بتایا ہے کہ درایت کے طریق سے روایت کودیکھا جائے اگر وہ درایت کے خلاف ہوتو بھی اسے رد کیاجائے گا، ہم ابھی ابھی یہ واضح کرچکے ہیں کہ پیغمبر نے اپنے والد کی وراثت جب لے لی تو وہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہم کسی کے وارث نہیں؟
پھریہ بات بھی قابل غور ہے کہ رسول خدانے اپنے آپ کو شریعت مطہرہ کے احکام سے کبھی بھی مستثنی نہیں فرمایا :
1:- جس طرح سے یہ کہنا غلط ہوگا کہ : ہم گروہ انبیاء نہ تو نماز پڑھیں گے اور نہ ہی روزہ رکھیں گے (نعوذ باللہ )مذکورہ فقرہ اس لئے غلط ہے کہ نبی احکام شریعت سے مستثنی نہیں ہوتا ۔ تو جس طرح نبی نماز روزہ اور اسلام کے دیگر احکام سے مستثنی نہیں ہوتا ۔اسی طرح سے وہ اسلام کے احکام میراث سے بھی مستثنی نہیں ہوتا ۔
2:- کیا فدک کا مسئلہ جو کہ خالص شرعی مسئلہ تھا ، اس کے نہ دینے میں کوئی سیاسی اغراض تو کار فرما نہیں تھیں ؟
3:- کیا اس مسئلہ کا تعلق اقتصادیات سے تو نہیں تھا ؟
4 :- اگر یہ حدیث درست ہے تو اس حدیث کا اطلاق صرف پیغمبر اکرم کے لئے ہوگا یا دوسرے انبیاء پر بھی اس کا انطباق ہوگا ؟
5 :-آخر رسول خدا اپنی بیٹی کو محروم وراثت کیوں رکھنا چاہتے تھے ؟
6 :- کیا خدانخواستہ حضور کریم کو یہ اندیشہ تھا کہ ان کے بعد ان کی بیٹی اور داماد فدک کی کمائی کو غلط مصرف میں خرچ کریں گے ؟
7 :- اگر حضور کریم کو یہی اندیشہ تھا تو انہوں نے اپنی حیات مبارکہ میں اپنی بیٹی کو جنت کی عورتوں کی سردار کیوں قرار دیا ؟
8 :- اور کیا یہ “خدشہ اس لیے پیدا ہوا تھا کہ حضرت سیدہ فاطمہ نے اپنے والد کی حیات طیبہ میں اس جاگیر سے سوء استفادہ کیا تھا ؟
9 :- اگر خدا نخواستہ ایسا ہوا تو کب اور کیسے ؟

علامہ ابن ابی الحدید معتزلی نے اسی مسئلہ کے متعلق قاضی القضاۃ اور شیعہ عالم سید مرتضی کا ایک خوبصورت مباحثہ نقل کیا ہے ۔قاضی القضاۃ وراثت انبیاء کی نفی کرتے تھے ۔جبکہ سید مرتضی میراث انبیاء کا اثبات کرتے تھے ۔ قاضی القضاۃ کا موقف یہ تھا کہ قرآن مجید میں انبیاء کی میراث کا جو تذکرہ کیا گیا ہے اس سے علم وفضل کی میراث مراد ہے ۔مالی وراثت مراد نہیں ہے ۔ سید مرتضی کا موقف تھا کہ میراث کا اطلاق پہلے مال ودولت اور زمین پر ہوتا ہے ۔اور یہ اطلاق حقیقی ہوتا ہے ۔علم وفضل کے لئے مجازی طور پر اس کا اطلاق ہوسکتا ہے اور اصول قرآن یہ ہے کہ مجازی معنی صرف اس وقت درست قرار پاتا ہے جب کہ حقیقی معنی متعذر ومحال ہو ۔ انبیاء اگر مالی میراث حاصل کریں تو اس سے کونسی شرعی اور عقلی قباحت لازم آتی ہے کہ ہم حقیقی معنی کو چھوڑ کر مجازی معنی قبول کرنے پر مجبور ہوجائیں ۔اور اگر قاضی القضاۃ کی بات کو تسلیم بھی کرلیاجائے کہ انبیاء کی میراث مالی کی بجائے معنوی یعنی علم وفضل پر مشتمل ہوتی ہے تو اس کا مقصد یہ بھی ہوگا کہ آل نبی پیغمبر کے علم وفضل کے وارث ہیں ۔ اور اگر آل نبی پیغمبر کے علم وفضل کے وارث ہیں تو ان وارثان علم وفضل کی موجودگی میں حضرت ابو بکر کی خلافت کا جواز کیاتھا ؟ –
وراثت انبیاء کا یہی مفہوم آجکل بھی بیان کیا جاتا ہے کہ وراثت سے مراد علم و فضل کی میراث ہے، اگر یہ مفہوم درست ہے تو علوم و فضل پیغمبر کے وارثوں کی موجودگی میں حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان کی خلافتیں ناجائز ٹھہرتی  ہیں ، وارثان علوم پیغمبر کی موجودگی میں غیر وارثوں کی کیا حیثیت باقی رہ جاتی ہے۔ ان آیات کا جو مفہوم بھی مراد لیں بہرحال وہ دو باتوں سے خالی نہیں ، اگر مراد مالی وراثت لیں تو فدک کے معاملہ میں وارثان رسول کے ساتھ ظلم ہوا ہے، اگر علم وفضل مراد لیں تو پہلی تینوں خلافتیں ناجائز ٹھہرتی ہیں اس لیے علی بن ابی طالب کے ساتھ ظلم ہوا ہے ۔ جو صورت بھی مراد لے لیں ظلم و زیادتی بہر حال ثابت ہے ۔

فدک بعنوان ہبہ:
جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ ایک دوسری سوچ یہ بھی ہے کہ جناب سیدہ فاطمہ زہراء نے فدک کا مطالبہ بطور ہبہ بھی کیا تھا جس پر حضرت ابوبکر نے گواہوں کا مطالبہ کیا ۔حضرت سیدہ کی طرف سے حضرت علی ، اور حضرت ام ایمن نے گواہی دی ۔ مگر حضرت ابوبکر نے اس گواہی کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور کہا کہ نصاب شہادت مکمل نہیں ہے ۔کیونکہ علی سیدہ کے شوہر ہیں ۔ اور ام ایمن ایک کنیز ہے ۔ حالانکہ شہادت ہر لحاظ سے کامل و اکمل تھی ، امّ ایمن حضور علیہ االسلام کے والد کی کنیز ضرور رہی ہیں لیکن اب وہ ایک آزاد عورت تھیں، نبی علیہ السلام کی پرورش بھی انہوں نے کی تھی ، جب یہ ایک آزاد عورت تھیں تو کس لحاظ سے ام ایمن کو کنیز و لونڈی قرار دیاجارہا ہے ، اگر آزادی کے بعد بھی عورت لونڈی ہی رہتی تو آزاد کرنے کا پھر کیا مطلب ہے، بہر حال ہم دیکھتے ہیں کہ سیدہ فاطمہ کو ان کے حق سے محروم کرنے کے لیے ہر تنکے کا سہارا لیا گیا لیکن اس کے مقابلہ میں دلیل کا ہر شہتیر رد کردیا گیا ۔

حضرت علی علیہ السلام کی گواہی کس قدر مستند ہے ۔اس کے لیے سورہ آل عمران کی اس آیت کریمہ کی تلاوت مناسب رہے گی : شہد اللہ انہ لا الہ الا ھو و الملائکۃ و اولو العلم قآئما بالقسط لا الہ الا ھو العزیز الحکیم ۔ اللہ خود اس بات کا گواہ ہے کہ اس کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں اور ملائکہ اوروہ اہل علم جو عدل پر قائم ہیں کہ اس غالب اور صاحب حکمت اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے ۔

اس آیت میں توحید کے گواہوں میں خود اللہ تعالی اور ملائکہ اور عدل پر قائم رہنے والے اہل علم کا تذکرہ کیا گیا ہے
وہ اہل علم جو عدل پر قائم ہیں وہ توحید کے گواہ ہیں ۔اورعدل پر قائم رہنے والے علماء میں علی بن ابی طالب سر فہرست ہیں کیونکہ امیر المؤمنین حضرت علی کے علم کے متعلق رسول اکرم کی مشہور حدیث ہے ۔”انا مدینۃ العلم وعلی بابھا ” میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے ۔
اور جہاں تک عادل ہونے کاتعلق ہے تو علی جیسا عادل چشم فلک نے نہیں دیکھا ۔جب علی توحید کے گواہ ہیں تو پھر فدک کے گواہ کیوں نہیں ہوسکتے ؟عجیب بات ہے کہ توحید کی شہادت کے لئے تو علی کی گواہی مستند مانی جائے اور تھوڑی سی جائیداد کے لئے ان کی گواہی کو ٹھکرا دیا جائے ؟ علی صرف توحید کے گواہ نہیں ہیں وہ رسالت محمدیہ کے بھی گواہ ہیں ۔جیسا کہ سورہ رعد کی آخری آیت میں ارشاد خداوندی ہے :
ویقول الذین کفروا لست مرسلا قل کفی باللہ شھیدا بینی وبینکم ومن عندہ علم الکتاب ۔ اور کافر کہتے ہیں کہ تو رسول نہیں ہے ۔ آپ کہہ دیں کہ میرے اور تمہارے درمیان گواہی کے لئے اللہ کافی ہے اور وہ جس کے پاس کتاب کا مکمل علم موجود ہے ۔ایک قول صحیح کے مطابق “من عندہ علم الکتاب “سے مراد حضرت علی علیہ السلام ہیں۔ اس آیت کریمہ میں حضرت علی کو رسالت کا گواہ قرار دیا گیا ۔

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو علی بن ابی طالب رسالت محمدیہ کے گواہ ہیں ۔ان کی گواہی کو فدک کے لیے معتبر کیوں نہیں تسلیم کیا جاسکتی ؟ دربار خلافت میں عظیم شخصیات موجود تھیں جن میں سے ایک مدعیہ تھیں سیدہ فاطمہ جو ایک جائیداد لینے کے لیے جھوٹ نہیں بول سکتی تھیں کہ رسول خدا نے تو فدک ہبہ نہ کیا ہو اور وہ جھوٹا دعویٰ  لیکر کھڑی ہو جائیں کہ میرے والد نے یہ جائیداد مجھے دی تھی۔ اور تین شحصیات وہ تھیں جنہیں چادر میں لیکر پیغمبر اکرم نے کہا تھا؛ اللھم ھؤلاء أھل بیتی ؛ یعنی علی، حسن، حسین، ان کے علاوہ ام ایمن تھیں کسی زمانہ میں باندی تھیں لیکن اب وہ ایک آزاد عورت تھیں، اور یہ کس نے کہہ دیا کہ مومنہ باندی کی گواہی قبول نہیں یا عورت کی گواہی نصف ہے ؟ عورت کی آدھی گواہی کا فلسفہ بھی ایک بناوٹی ہے کتاب و سنت سے اس کا کوئی ثبوت نہیں، سورہ بقرہ کی آیت قرض والے مضمون کا واقعاتی شہادت سے کوئی تعلق نہیں۔

ہم پوچھتے ہیں کہ علی کی شہادت اس لیے قبول نہیں کہ وہ فاطمہ کے  شوہر ہیں تو ابوبکر کا فیصلہ کیونکر قابل قبول ہے اس لیے کہ وہ اس مقدمہ میں مدعی علیہ ہیں،علی جیسے شوہر کی گواہی قبول کرنے کے تو پھر بھی دلائل موجود ہیں لیکن ایک مدعی علیہ کے منصف اور جج بننے پر شیعت اسلامی میں کونسی دلیل ہے ؟ یا دنیا کے ہی کسی قانون میں سے کوئی دلیل دے دیں کہ مدعی علیہ خود ہی اپنے خلاف کیس میں جج بن سکتا ہے ۔
اب ان چاروں شخصیات ( علی فاطمہ حسن حسین ) کی گواہی کتنی معتبر ہے ؟ اس کیلئے واقعہ مباہلہ کو مد نظر رکھیں ۔

مباہلہ کی گواہی:
جب عیسائی علماء دلائل نبوی سن کر مطمئن  نہ ہوئے تو اللہ تعالی نے آیت مباہلہ نازل کی اور ارشاد فرمایا :- فمن حاجّک فیہ من بعد ما جآ ء ک من العلم فقل تعالوا ندع ابنا ءنا وابناءکم و نساءنا ونساءکم وانفسنا وانفسکم ثم نبتھل فنجعل لعنۃ اللہ علی الکاذبین –
جو علم آنے کے بعد تم سے جھگڑا کرے تو کہہ دو کہ آؤ ہم اپنے بیٹے بلائیں اور تم اپنے بیٹوں کو بلاؤ او ر ہم اپنی عورتوں کو بلائیں اور تم اپنی عورتوں کو بلاؤ اور ہم اپنی جانوں کو لائیں اور تو اپنی جانوں کو لاؤ پھر دعا کریں اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت کریں ۔

جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ، حضرت علی کے گھر تشریف لائے اور علی و فاطمہ اور حسن وحسین کو اپنی چادر پہنائی اور کہا پروردگار یہ میرے اہل بیت ہیں ۔ رسول اکرم ان عظیم شخصیات کو لے کر مباہلہ کے لئے روانہ ہوئے جب عیسائی علماء نے ان نورانی چہروں کو دیکھا تو جزیہ دینا قبول کیا اور مباہلہ سے معذرت کرلی اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ چار شخصیات پورے اسلام کی گواہ ہیں اور ان کی گواہی کا عیسائیوں نے بھی احترام کیا تھا ۔

مباہلہ کے تھوڑے ہی عرصہ بعد یہی چاروں شخصیات دربار خلافت میں گئیں ۔ان میں ایک مدعیہ تھیں اور تین گواہ تھے ۔

انسانی ذہن کو انتہائی تعجب ہوتا ہے کہ جن شخصیات کو اللہ نے پوری امت اسلامیہ میں سے بطور نمونہ جماعت صادقین بنا کر غیر مسلموں کے مقابلہ میں بھیجا تھا ، ان شخصیات کی گواہی کو خلیفۃ المسلمین نے کیسے رد فرمادیا- خزیمہ بن ثابت اکیلے کی گواہی اس لیے دو آدمیوں کے برابر تسلیم کی گئی کہ انہوں نے ایک کیس میں رسول اکرم کے حق میں بن دیکھے سنے گواہی دی تھی لیکن جن کو رسول اکرم نے جنت کے سرداروحکمران قراردیا ان کی گواہی قبول نہیں ، جن کے باپ کو ان دونوں سے بہتر قرار دیاگیا اس کی گواہی بھی اس لیے رد کی گئی کہ وہ زنان جنت کی سردار فاطمہ کا شوہر ہے، حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا حق تھا کہ حضرت سیدہ فاطمہ کے دعوی کو تسلیم کرلیتے۔ کیونکہ تاریخ وحدیث کا مشہور واقعہ ہے کہ حضور کے ساتھ ایک اعرابی نے ناقہ کے متعلق تنازعہ کیا ۔ ہردو فریق ناقہ کی ملکیت کے دعویدار تھے ۔اعرابی نے رسول اکرم سے گواہ طلب کیا تو حضرت خزیمہ بن ثابت نے حضور کے حق کے متعلق گواہی دی ۔ اور جب حضرت خزیمہ سے پوچھا گیا کہ تم نے یہ گواہی بغیر علم کے کیوں دے دی ہے ؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم محمد کی نبوت اور وحی کی بھی تو گواہی دیتے ہیں جب کہ ہم نے جبریل امین کو اپنی آنکھوں سے اترتے نہیں دیکھا ۔جب ہم نبوت ورسالت جیسے عظیم منصب کی ان دیکھے گواہی دے دیتے ہیں تو کیا ہم اپنے نبی کے لئے ایک اونٹنی کی گواہی نہیں دیں گے ؟ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت خزیمہ کی شہادت کو صحیح قراردیا اور انہیں “ذو الشہادتین ” یعنی دو گواہیوں والا قراردیا ۔ کیا علی اور فاطمہ حضرت خزیمہ سے فروتر تھے کہ ان کی گواہی تسلیم نہیں کی گئی، جبکہ ہزار خزیمہ جناب علی اور فاطمہ کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتے –

حقیقت یہ ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا یہ فیصلہ خلافِ قرآن ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی لحاظ سے بھی غلط تھا اور اپنے نتائج کے اعتبار سے تو نہایت ہی مہلک ثابت ہوا، اس فیصلہ نے امت کو تقسیم کیا ہے ، یہ چند گز زمین اس کے وارثوں کو دے دینا امت کے اتحاد کے لیے کوئی مہنگا سودا نہیں تھا، اور نہ ہی حضرت ابوبکر کی حکومت مالی لحاظ سے دیوالیہ ہونی تھی اگر خیبر کی یہ زمین وارثان رسول کو دے دی جاتی ۔

پھر عجیب تر بات یہ بھی ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ جناب سیدہ سے گواہ طلب کرتے ہیں لیکن خود جو روایت پیش کی اس کے کوئی گواہ پیش نہیں کیے اور نہ ہی جناب سیدہ نے گواہ طلب کیے حالانکہ وہ اس روایت کو ایک من گھڑت اور جھوٹی روایت سمجھتی تھیں اور اسے خلاف قرآن کہہ کر دلائل قرآنی کے ساتھ رد کر رہی تھیں، وہ کہہ سکتی تھیں کہ جس روایت سے گھر کے لوگوں سمیت پوری امت بے خبر ہے اس پر آپ گواہ پیش کریں، بعد میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ طریقہ اختیار کیا تھا جب ان کے دور میں کوئی صحابی حدیث روایت کرتا تو حضرت عمر فرمایا کرتے تھے کہ اپنی اس روایت پر گواہ پیش کرو ورنہ میں تمہیں دُرے ماروں گا، تو جب ایک ایسی روایت پیش کی گئی جس سے رسول خدا کی نہ اولاد آگاہ تھی اور نہ امت کا کوئی فرد آگاہ تھا اور روایت بھی ایسی تھی جو براہ راست قرآن کے بیان کردہ قانون کو توڑ کر پیغمبر کے خاندان کو وراثت سے محروم کررہی تھی اسے آنکھیں بند کرکے کیوں قبول کیا گیا اور کیوں نہ حضرت ابوبکر سے گواہ مانگے گئے ؟

اگر کہا جائے کہ وہ تو ابوبکر تھے جو صدیق تھے ، گواہوں کی کیا ضرورت تھی ، تو یہاں بھی علی اور فاطمہ تھے کیا وہ جھوٹ بول رہے تھے ؟ یا حضرت عمر جن صحابہ سے روایت کردہ حدیث پر گواہ طلب کرتے تھے کیا وہ جھوٹے تھے یا وہ حدیثیں گھڑ کر بیان کرتے تھے کہ حضرت عمر کو گواہوں کی ضرورت پڑتی تھی، اگر کہا جائے کہ حضرت عمر احتیاط کے پہلو سے ایسا کرتے تھے تو ہم کہتے ہیں حضرت سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کے معاملہ میں احتیاط کہاں چلی گئی ؟

حضرت خزیمہ کی طرح اگر حضرت ابو بکر بھی حضرت سیدہ کی روایت ہبہ کو بدون شہود تسلیم کر لیتے تو یہ ان کے لئے زیادہ مناسب تھا ۔اس کے برعکس حضرت ابو بکر کی بیان کردہ اس حدیث کے متعلق جناب سیدہ فاطمہ زہرا نے ان سے گواہ نہیں مانگے تھے ۔جب کہ حضرت سیدہ اس روایت کی صحت سے بھی منکر تھیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اور حضرت علی بن ابی طالب جیسے صدیق اکبر کی گواہی رد کرنے کا بھی کوئی جواز نہیں تھا ۔اور ام ایمن جو کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دایہ تھیں جن کی پوری زندگی اسلام اور رسول اسلام کی خدمت میں گزری تھی ، ان کی گواہی کو رد کرنے کی آخر ضرورت کیوں پیش آئی تھی – لا نورث والی روایت کو قرآن سے بھی اہم اور فائق سمجھنے والے اس پر بھی غور فرمالیں کہ یہ “ام ایمن” بھی باپ کی وراثت سے ہی نبی اکرم کے پاس آئی تھیں ، پیغمبر اکرم نے اپنے والد محترم کی وراثت حاصل کی، پھر آپ علیہ السلام کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہم کسی کے وارث نہیں ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”فدک کا مقدمہ۔۔۔ (دوسرا ،آخری حصہ)محمد فاروق علوی

  1. اللّه تعالی اج کے مسلمانوں سے فدک کی بابت سوال نہیں پوچھے گا لیکن کشمیر ۔فلسطین ۔عراق ۔شام اور دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کے بارے میں ضرور پوچھے گا کہ تم نے ان مظلوموں کے لئے کیا کیا

Leave a Reply