• صفحہ اول
  • /
  • سائنس
  • /
  • ہمارے ہاں فلکیاتی ترقی کی راہ میں حائل رکاوٹیں۔۔۔(قسط2)حافظ یاسر لاہوری

ہمارے ہاں فلکیاتی ترقی کی راہ میں حائل رکاوٹیں۔۔۔(قسط2)حافظ یاسر لاہوری

فلکیاتی شوق کو کیسے پورا کیا جا سکتا ہے؟

یہ پڑھ کر شاید آپ کو دکھ بھی ہو کہ ایک تو یہ شوق تھوڑا مہنگا ہے، دوسرا ہم جس ملک میں رہتے ہیں یہاں ہر فضول اور نقصان دہ کام سستا ہے جبکہ ہر تعلیمی، تحقیقی اور سائنسی کام کرنے کے لئے انتہائی مشکلات کا سامنا کرنے کے ساتھ ساتھ ایک بھاری رقم بھی خرچ کرنا پڑتی ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے لئے میں آپ کو مختصرا چند ایک ایسی مثالیں دیتا ہوں کہ جن مثالوں کا براہ راست مجھ سے تعلق ہے۔

پچھلے سال 2018 میں میرے پاس کچھ Telescopes دوربینیں سیل کے لئے آئیں۔ سوچا کہ صرف جانکاری دینا ہی سب کچھ نہیں بلکہ عوام میں فلکیاتی دوربینوں کو بھی عام کیا جائے۔ ان ٹیلی سکوپس کے ایڈ وغیرہ دیئے۔ مجھے شاید تھر کے علاقے سے ایک صاحب نے کال کی کہ سر میں ایک چھوٹی دوربین خریدنا چاہتا ہوں کتنے کی ہے؟ میں نے قیمت بتائی تو وہ انتہائی غمزدہ ہوئے اور بولے کہ سر اتنے تو میں پورے سال میں جمع نہیں کر سکوں گا (ہمارے ملک میں وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سے پیدا ہونے والی مفلسی کی وجہ سے علمی تحقیق سے رک گئے تھے وہ۔ ورنہ وہ نہایت سستی دوربین تھی)

کچھ عرصہ قبل لاہور میں اپنی شاپ پہ میں نے چند ایک لینز (عدسے) ٹیبل پر بکھیر رکھے تھے۔ ان کے ساتھ میں ایک عدد چھوٹی سی دوربین بنا رہا تھا۔ ایک پولیس والا گزرتے ہوئے میرے پاس کھڑا ہو گیا۔ اور دوربین کے سامان کو دیکھ کر یوں تشویشناک لہجے میں ری ایکٹ کر رہا تھا کہ جیسے میں دوربین نہیں بلکہ “ایٹم بم” بنا رہا ہوں۔ آخر اس سے رہا نہیں گیا، پوچھا جناب کیا بنا رہے ہیں۔ میں نے بتایا کہ دوربین بنانے کی کوشش کر رہا ہوں۔ کہنے لگا کہ یہ بازار وغیرہ سے نہیں ملتی؟ میں نے بتایا کہ بہت مشکل سے ملتی ہے۔ کہنے لگا کہ بازار سے ہی خرید لیں ایسے تجربے نا کریں۔ پولیس اگر آپ سے اس پر پوچھ گچھ کرنے لگ جائے تو پریشانی ہو گی وغیرہ وغیرہ۔

میری طرح آپ بھی سوچ میں پڑ گئے ہوں گے کہ ہمارے ادارے، خصوصا عوام کو تحفظ فراہم کرنے والے ادارے کس قدر جہالت رکھنے والے افراد سے بھرے پڑے ہیں۔ ایک انسان اپنی کوشش سے (حالانکہ اس طرح کے کام ساری دنیا میں حکومتوں اور اداروں کی مدد سے کیے جاتے ہیں) کچھ علمی کام کر رہا ہے، آپ اس کو اپنی جھالت اور رعب و دبدبہ قائم کرنے کے لئے ڈرا رہے ہیں۔

میرے پاس اور بھی بہت سی مثالیں ہیں یہ بات سمجھانے کے لئے کہ “ہمارے ہاں سائنسی تحقیقات، ایجادات اور علم کی ترویج میں جو رکاوٹیں ہیں وہ مذہب، معاشرہ یا کسی کے انفرادی اختلاف کی وجہ سے نہیں ہیں۔ بلکہ ہمارے ہاں اس طرح کے علمی اور سائنسی کاموں میں اہم رکاوٹیں حکمرانوں کی کرپشن، تعلیمی بجٹ کا انتہائی کم ہونا، عوام کے لئے بیسک Basic ضروریات کا پورا نا ہونا اور عوام پر خرچ ہونے والے وسائل کا ایک بڑا حصہ چند اشرافیہ خاندانوں کی سیکورٹی عیاشی اور سیر سپاٹوں پر خرچ ہونا ہے”

اس کے ساتھ ساتھ ہر ہر ادارہ اگر اپنی حد سے تجاوز نہ  کرتے ہوئے ملکی بجٹ میں سے اپنی ضرورت کے مطابق حصہ لے تو میں یہ بات پورے یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ “عوام کے روزمرہ کے مسائل کو کم کر کے ان کے اندر تعلیمی سوچ کو شوق کی چنگاری سے سلگایا جا سکتا ہے”

اگر آج ادارے اور حکومتیں پاکستانی عوام کے ساتھ مخلص ہوں جائیں اور (غریب) عوام کو ان کے مکمل حقوق دیئے جائیں تو “اس قوم کے اندر بہت سے بو علی سینا، آئن سٹائن اور اسٹیفن ہاکنگ جیسے سائنسدان آج بھی پیدا کئے جا سکتے ہیں۔ میں ایسا کیوں کہہ رہا ہوں؟ کس وجہ سے کہہ رہا ہوں؟ چونکہ تحریر فلکیات پر لکھی جا رہی ہے، اس لئے اسی حوالے سے سمجھانا چاہوں گا۔

ایک درمیانے درجے کا ٹیلی سکوپ یعنی دوربین باہر کے ملک سے اگر پاکستانی پچاس ہزار میں آ رہی ہے تو وہی دوربین پاکستان میں پہنچتے پہنچتے یہاں خریدنے والے کو ڈیڑھ لاکھ تک پڑ جاتی ہے۔ اب ایک عام بندہ جو بمشکل اپنے معاملات کو چلا رہا ہے، وہ اس سائنسی کام میں تحقیق کرنے کے لئے یا اپنا فلکیاتی شوق پورا کرنے کے لئے اس قدر مہنگے آلات کس طرح خرید سکتا ہے؟ کیا ٹیلی سکوپ ایٹم بم سے بھی کوئی مشکل چیز ہے؟ جو پاکستان میں نہیں بن سکتی۔

بن سکتی ہے کہوں نہیں بن سکتی۔ حکومتیں کھوکھلے نعرے لگانے کی بجائے عملی کام کیوں نہیں کرتیں؟ اس فیلڈ سے تعلق رکھنے والے قابل بندوں کو چن کر آگے لایا جائے، حکومت انہیں اپنے پاس سے اس طرح کے آلات بنانے کے لئے چھوٹی چھوٹی کمپنیاں لگا کر دے۔

اگر کہیں ضرورت پڑتی ہے تو پہلے پہل ان کمپنیوں میں باہر سے اس فیلڈ سے تعلق رکھنے والے ٹیچرز منگوائیں جائیں۔ آہستہ آہستہ ان کاموں کو بڑھایا جائے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر بجٹ میں سے اس طرح کے کام کئے گئے تو ان حکمرانوں کی عیاشیاں کیسے چلیں گی؟ کیوں کہ وہ حکومتیں اور ادارے اور ہوتے ہیں جو اپنے ملک کی آنے والی نسلوں کے لئے کچھ کر جاتے ہیں۔ لیکن پھر بھی ہم حکومت وقت سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ان کا اس طرف خاص توجہ دینا اور بجٹ میں سے تعلیمی، تحقیقی اور سائنسی سر گرمیوں کے لئے ایک خاص حصہ مقرر کرنا وقت کا تقاضا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس تحریر کے اگلے حصے (حصہ سوئم) میں ہم پڑھیں گے کہ “پاکستان میں یا پاکستان سے باہر فلکیاتی تعلیم کیسے حاصل کی جا سکتی ہے؟”

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply