نومولود ستارے اور سورج کا آغاز/ثناء فرزند نقوی

تعارف:
امریکی خلائی ادارے ناسا کی جانب سے شائع کردہ جیمز ویب خلائی دوربین سے لی گئی اس تصویر میں ایک نومولود ستارہ دکھایا گیا ہے، جسے سائنسی اصطلاح میں ‘پروٹوسٹار’ کہا جاتا ہے اور اس کے پولز سے انتہائی تیزی سے خارج ہوتی گیس نظر آ رہی ہے۔ اس تصویر میں اُفقی طرز پر پھیلا ہوا ایک پتلا اور لمبا “بادل” سا دکھائی دے رہا ہے جو نشیبی بائیں جانب سے بالائی دائیں جانب تک پھیلا ہوا ہے۔ اس کے درمیان میں گہرے بھورے اور کالے رنگ کے امتزاج کا قدرے گول سا خطہ موجود ہے، جس کے دونوں جانب سے چمکدار گیس خارج ہوتی دکھائی دے رہی ہے جنہیں عموماً ‘بائی پولر جیٹس’ کہا جاتا ہے۔ اس تصویر میں ‘پروٹوسٹار’ دکھائی نہیں دے رہا لیکن محققین جانتے ہیں کہ یہ اس بھورے اور کالے سے تاریک خطے کے بیچ واقع ہے۔ اس نومولود ستارے کو پیدا ہوئے ابھی تقریباً چند دسیوں ہزاروں سال ہی گزرے ہیں البتہ جب یہ عمر میں بڑا ہو جائے گا تو کافی حد تک ہمارے سورج جیسا نظر آئے گا۔

ستاروں کی پیدائش:
ستاروں کی “زندگی” کا بھی ایک چکر ہوتا ہے۔ یعنی پہلے ان کی پیدائش ہوتی ہے، اس کے بعد یہ اپنی زندگی کی درمیانی عمر سے گزرتے ہیں – جسے سائنسی اصطلاح میں ‘مین سیکوئینس فیز’ کہا جاتا ہے – اور بالآخر یہ اپنے اختتام کو پہنچ جاتے ہیں۔ عام طور پر اکثر ستارے الگ تھلگ سے تنہائی میں نہیں بنتے بلکہ یہ گروہوں کی صورت پیدا ہوتے ہیں، جنہیں ستاروں کے جھرمٹ کہا جاتا ہے۔ کسی ستارے کی پیدائش کافی حد تک اس بات کا تعین کرتی ہے کہ وہ اپنی زندگی کیسے گزارے گا۔ کیونکہ ایک ستارے کے پیدائشی مراحل کے دوران اس کی خصوصیات جیسا کہ اس کی کمیت یہ طے کرتی ہے کہ اس کی عمر لگ بھگ کتنی ہو گی اور اس کے اختتامی مراحل میں اس کے ساتھ کیا ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ محققین ستاروں کے بننے کے خطوں کا باریکی سے مطالعہ کرتے ہیں جو ‘انٹرسٹیلر میڈئیمز’ کہلائے جاتے ہیں۔ یہ خطے ستاروں کی پیدائش کے لیے ایک طرح سے خام مال اور ماحول دونوں کا کردار ادا کرتے ہیں۔ البتہ ستارے خصوصی طور پر ‘انٹرسٹیلر میڈئیم’ کے کثیف ترین خطوں – ‘مالیکیولر کلاوڈز’ – میں جنم لیتے ہیں۔
انٹرسٹیلر میڈئیم کی سادہ تعریف قدیم ادوار سے “ستاروں کے مابین جگہ” کے طور پر کی جاتی رہی ہے البتہ یہ اس سے کہی زیادہ پیچیدہ ہے۔ گو کہ ستاروں کے بیچ کے خلا کو انٹرسٹیلر میڈئیم کہا جاتا ہے مگر یہ خلا حقیقی طور پر “خالی” نہیں ہوتا۔ یہ خلائی خطے مختلف گیسوں اور بھاری عناصر پر مشتمل ہوتے ہیں۔ انٹرسٹیلر میڈئیم کی 98 فیصد کمیت ہائیڈروجن اور ہیلئیم پر مشتمل ہوتی ہے جبکہ بقیہ 2 فیصد کمیت کاربن، آکسیجن اور بعض دیگر عناصر پر بھی مشتمل ہوتی ہے جنہیں ‘میٹلز’ کہا جاتا ہے۔ ان میں سے اکثر عناصر گیس کی صورت، جبکہ بعض بھاری عناصر “گرد” کی صورت پائے جاتے ہیں۔ گرد کے ذرات کاربن رکھنے والے کچھ مالیکیولز – ‘پولی سائیکلک ایرومیٹک ہائیڈروکاربنز’ – ہوتے ہیں۔ گرد انٹرسٹیلر میڈئیم کا محض 1 فیصد ہی ہوتی ہے البتہ یہ وزیبل لائٹ کو کافی حد تک آسانی سے جذب کر لیتی ہے اور بعض اوقات تو مکمل طور پر بھی۔ یہی وجہ ہے کہ محققین ان گرد کے بادلوں کا ریڈیو و انفراریڈ شعاوں کے ذریعے مطالعہ کرتے ہیں جو ان میں سے قدرے آسانی سے گزر سکتی ہیں۔
ستارے انٹرسٹیلر میڈئیم کے کثیف ترین بادلوں، یعنی مالیکیولر کلاوڈز، میں گروہوں کی صورت جنم لیتے ہیں۔ مالیکیولر کلاوڈز گیس اور گرد کے ایسے عظیم بادل ہیں جو انٹرسٹیلر میڈئیم کے دیگر خطوں کی نسبت زیادہ کثیف اور ٹھنڈے ہوتے ہیں۔ ان میں عام طور پر ‘مالیکیولر ہائیڈروجن گیس’ پائی جاتی ہے، اس کے علاوہ کچھ دیگر مالیکیولز جیسے ‘کاربن مونو آکسائیڈ’ اور ‘میتھینول’ جیسے آرگینک کمپاونڈز بھی پائے جاتے ہیں۔ انٹرسٹیلر میڈئیم میں گرد تقریبا تمام جگہ ہی کسی نہ کسی حد تک موجود ہوتی ہے البتہ مالیکیولر کلاوڈز میں اس کی کثافت سب سے زیادہ ہوتی ہے جس کے باعث مالیکیولر کلاوڈز غیر شفاف کالے دھبوں جیسے دکھائی دیتے ہیں۔ اس مظہر کی وجہ یہی ہے کیونکہ ستاروں کی روشنی گرد کے ان ذرات میں جذب ہو جاتی ہے اور ان سے گزر نہیں پاتی، جس کے باعث یہ خطہ اپنے دیگر پس منظری خطے کی نسبت تاریک دھبے جیسا دکھائی دینے لگتا ہے۔ ان میں سے بعض مالیکیولر کلاوڈز قدرے چھوٹے ہوتے ہیں جو ایک نوری سال کے فاصلے سے بھی کم جگہ گھیرتے ہیں اور بعض انتہائی عظیم بادلوں کی صورت بھی پائے جاتے ہیں جنہیں ‘جائنٹ مالیکیولر کلاوڈز’ کہا جاتا ہے، یہ سو نوری سال کے فاصلے تک بھی پھیلے ہوئے ہوتے ہیں اور ان میں موجود خام مال اتنا ہوتا ہے کہ اس سے متعدد سینکڑوں ہزاروں ستارے وجود میں آ سکیں۔
گیس اور گرد کے یہ مالیکیولر کلاوڈز اپنے طور پر قدرے متوازن حالت میں موجود رہتے ہیں جب تک کہ کوئی اور قوت ان کے توازن میں بگاڑ پیدا نہ کرے۔ ان عظیم بادلوں کی اس متوازن حالت کو سائنسی اصطلاح میں ‘ہائیڈروسٹیٹک ایکوئیلبرئیم’ کہا جاتا ہے؛ جس سے مراد ایسی متوازن حالت ہے، جس میں ان مالیکیولر کلاوڈز کی اندرونی فورسز اپنے اثرات کو آپس میں کینسل کرتے ہوئے گرد و گیس کے بادل کو قدرے سٹیبل کنڈیشن میں برقرار رکھ پاتی ہیں۔ ایسا اس طرح ممکن ہو پاتا ہے کیونکہ گیس و گرد کے مالیکیولز کے بیچ ایک تو کشش ثقل کی قوت پائی جاتی ہے جس کے باعث بادل سکڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے، مگر دوسری جانب گیس کے پارٹیکلز کے باہمی تصادم کے باعث پیدا ہونے والے اندرونی پریشر کی قوت کی وجہ سے، یہ پارٹیکلز باہری سمتوں کی جانب بھی قوت لگا رہے ہوتے ہیں، اور بادل کشش ثقل کے تحت سکڑنے سے بچا بھی رہتا ہے۔ یہ دونوں قوتیں جب برابر ہوتی ہیں تو آپس میں ایک دوسرے کے اثرات کو زائل کرتے ہوئے گیس و گرد کے بادل کو ‘ہائڈروسٹیٹک ایکوئیلبرئیم’ کی حالت میں قائم رکھ پاتی ہیں۔ لیکن بعض اوقات اس میں شدید ہلچل پیدا ہونے کے باعث یہ اپنی کشش ثقل کے تحت سکڑنے لگتے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ایسا عموما کسی قریبی ستارے کی تباہی، مثال کے طور پر ‘نووا’ یا پھر ‘سپرنووا’، کے باعث پیدا ہونے والی ‘شاک ویوز’ کی وجہ سے ہوتا ہے جو اس پر دباو ڈالتی ہیں۔ یا پھر دوسری صورت میں اس خطے میں موجود دیگر قریبی نومولود ستاروں کے باعث پیدا ہونے والی سٹیلر ونڈز بھی اس کے باقی قریبی خطوں پر دباو ڈالنے کا باعث بن سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ، ایک اور سائنسی مفروضہ جو اس مظہر کی وضاحت کرتا ہے اس کے مطابق، ہماری ‘ملکی وے’ جیسی کہکشاوں کا سپائرل آرمز جیسا سٹرکچر بعض ‘سپائرل ڈینسٹی ویوز’ کے باعث ممکن ہے؛ یہ ڈینسٹی ویوز کہکشاں میں زیادہ کثافت رکھنے والے خطوں کا سپائرل آرمز جیسا سٹرکچر تشکیل دینے کا باعث بنتی ہیں۔ لہذا جب گیس و گرد کے بادل کہکشاں کے ایسے کثیف خطوں سے گزرتے ہیں تو ان ڈینسٹی ویوز کے باعث دباو کا شکار ہوتے ہیں اور ان میں شدت سے ہلچل پیدا ہوتی ہے جس کے باعث ان مالیکیولر کلاوڈز میں کشش ثقل کی قوت غالب آ جاتی ہے اور یہ سکڑنے کا باعث بنتے ہیں۔ یوں ہی کئی آوارہ ستارے جو اپنے بائنری سسٹم سے کسی وجہ، جیسا کہ ساتھی ستارے کی تباہی، کے باعث علیحدہ ہو کر بھٹکنے لگتے ہیں ان کی تیز رفتار حرکت بھی ان کے راستے میں موجود کسی گرد و گیس کے بادل پر دباو ڈالتے ہوئے ڈینسٹی ویوو کی صورت اختیار کرتی ہے جو اس میں ہلچل پیدا کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔ بہرحال، ان بادلوں کے سکڑاو کی متعدد وجوہات اور محرکات ہیں البتہ جوں ہی ان میں کسی بھی وجہ سے شدید ہلچل پیدا ہو گی تو وہ ایک ڈینسٹی ویوو جیسی صورت حال ہی اختیار کرے گی جو گیس کے بادل پر دباو ڈالتے ہوئے اس کے سکڑنے کا باعث بنے گی۔
جب مالیکیولر کلاوڈز کسی وجہ سے شدید شاک ویوز کا سامنا کرتے ہیں تو ان میں ہنگامہ خیز ہلچل کی صورت پیدا ہونے والی ڈینسٹی ویوو اس بادل پر قوت ڈالتے ہوئے دباو پیدا کرتی ہے جس سے وہ سکڑتے ہیں اور متعدد ستاروں کی پیدائش کا عمل شروع ہوتا ہے۔ گرد و گیس کے بادل پر پڑنے والے دباو کے نتیجے میں اس کے بعض خطے دیگر خطوں سے قدرے زیادہ کثیف ہو جاتے ہیں۔ لہذا جب ایسی صورت حال پیدا ہوتی ہے تو زیادہ کثیف خطے چونکہ زیادہ کشش ثقل رکھنے کا باعث بن رہے ہوتے ہیں لہذا ان کی بڑھتی کشش ثقل کے باعث وہ اپنے ارد گرد سے مزید قریبی گیس و گرد کے مالیکیولز بھی اپنی جانب کھینچنے لگتے ہیں اور یوں مالیکیولر کلاوڈ کے بعض خطے دیگر خطوں کی نسبت زیادہ کثیف گرد و گیس کی ‘پاکٹس’ کی صورت اختیار کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ ایک نہ رکنے والے پراسیس کی صورت اختیار کرتا ہے، جس کے باعث مالیکیولر کلاوڈز میں ایک ہی وقت میں متعدد ستاروں کے پیدائشی مراحل شروع ہوتے ہیں اور وقت کے ساتھ ستاروں کا جھرمٹ تشکیل پاتا ہے۔
مالیکیولر کلاوڈز میں بننے والی ان پاکٹس کے مرکزوں میں گیس اکٹھی ہوتے ہوئے اس کی ‘کور’ تشکیل دیتی ہے جو وقت کے ساتھ ستارے کی صورت اختیار کر جاتی ہے۔ البتہ بعض اوقات یہ کوور دو یا دو سے زائد حصوں میں بھی بٹ جاتی ہے؛ یہی وجہ ہے کہ اکثر ستارے بائنری سسٹمز کی صورت بھی پائے جاتے ہیں۔ ان پاکٹس کے مرکز میں موجود کور اور اس کے ارد گرد بقیہ گرد و گیس جو مسلسل اپنے مرکز کی جانب کھنچی چلی جا رہی ہوتی ہے یہ دائروی گردش میں بھی ہوتی ہے؛ یہ اس پر منحصر ہے کہ شروعاتی مراحل میں گرد و گیس کے مالیکیولز کی حرکت کس سمت میں تھی۔ اس گردش کے باعث اس کا خاص اینگولر مومینٹم ہوتا ہے۔ نیز مرکزی کثیف ‘کور’ کے اردگرد کی گیس اور دھول دائروی گردش کے باعث قدرے فلیٹ ڈسک کی صورت بھی اختیار کرنے لگتی ہے جو عموماً وقت کے ساتھ مختلف سیاروں کی تشکیل کا باعث بنتی ہے اور کچھ گرد کی صورت ہی ستارے کے اردگرد ‘انٹرپلینٹری میڈئیم’ میں بچی رہ جاتی ہے۔ اس ڈسک کے اندرونی حصے سے گیس کا کور میں گرنے کا عمل جاری رہتا ہے۔ اور بیرونی گرد اس کوور کو مکمل طور پر پوشیدہ رکھتی ہے اور ایک طرح سے گرد کے گھیرے میں قید رکھتی ہے۔ کوور میں اکٹھی ہوتی گیس کی بڑھتی کثافت و کشش ثقل کے نتیجے میں دباو کے باعث اس کا درجہ حرارت بڑھنے لگتا ہے۔ کور کی کمیت اور کشش ثقل کے بڑھنے کے باعث اس میں موجود عناصر کے ایٹمز کے مابین فاصلہ بھی وقت کے ساتھ کم ہوتا ہے۔ یہ کور، اپنے اردگرد موجود بیرونی گرد و گیس کی ڈسک کی نسبت زیادہ تیزی سے سکڑتی ہے اور اپنے اینگولر مومینٹم کے برقرار رکھے جانے کے لیے بادل مزید تیزی سے دائروی گردش کرتا ہے۔ جب مرکزی کوور کا درجہ حرارت قریب دو ہزار ڈگری کیلون تک پہنچتا ہے تو کوور میں موجود ہائیڈروجن گیس کے مالیکیولز ٹوٹ کر ہائیڈروجن ایٹمز میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ بالآخر کوور کا درجہ حرارت دس ہزار ڈگری کیلون تک بڑھنے پر وہ ستارے جیسا دکھنے لگتا ہے کیونکہ تب تھرمونیوکلئیر فیوژن ری ایکشن شروع ہو چکا ہوتا ہے، جس میں ہائڈروجن کے ایٹمز فیوژن ری ایکشن کے ذریعے ہیلئیم میں تبدیل ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ البتہ کور کا سکڑاو اور گیس و گرد کا کوور میں گرنا تب بھی جاری رہتا ہے مگر کوور کے سکڑاو کی رفتار آہستہ ہو جاتی ہے۔ اس موقع پر ہم اسے نومولود ستارہ یا پروٹوسٹار بھی کہتے ہیں۔ جب کوور کا درجہ حرارت اور دباو اس قدر بڑھ جائے کہ نیوکلئیر فیوژن ری ایکشن کو مزید جاری رکھ پائے تو شدید درجہ حرارت میں فیوژن عمل کے باعث گیس کا اندرونی پریشر کوور کی مخالف سمتوں میں قوت لگاتے ہوئے کشش ثقل کے تحت ہونے والے مزید سکڑاو کو روکتا ہے اور ہائیڈروسٹیٹک ایکوئلیبرئیم کی کنڈیشن میں اسے برقرار رکھتا ہے۔ اس مرحلے پر عموماً یہ کوور ہمارے سورج کے قریب حجم رکھنے لگتی ہے۔ بقیہ گرد کا بادل جو ستارے کو گھیرے ہوئے ہوتا ہے اس کا درجہ حرارت بھی بڑھ چکا ہوتا ہے اور اسے انفراریڈ شعاوں کے ذریعے چمکتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ البتہ اس موقع پر بھی وزیبل لائٹ سپیکٹرم میں دیکھنا ممکن نہیں ہو پاتا کیونکہ وہ گرد کے گھیرے میں ہوتا ہے۔ بالآخر ستارے کے ریڈئیشن پریشر کی قوت کے باعث گرد کا گھیرا بھی چھٹ جاتا ہے اور ستارہ اپنی زندگی کے ارتقائی مرحلے، ‘پری مین سیکوئینس فیز’، پر گامزن ہوتا ہے۔ اس موقع پر اس میں قید رہ جانے والی گیس کی کمیت اس ستارے کی خصوصیات متعین کرنے کا باعث بنتی ہے اور وقت کے ساتھ ستارہ اپنے مین سیکوئینس فیز میں داخل ہوتے ہوئے چمکتا رہتا ہے۔ ہمارا سورج اس وقت اپنے مین سیکوئینس فیز کے درمیانی مراحل میں موجود ہے۔
ستاروں کے ابتدائی پیدائشی مراحل کے بعض موقعوں کا مشاہدہ محققین عموماً انفراریڈ دوربینوں کے ذریعے کرتے ہیں۔ ایسے ہی ایک نومولود ستارے کا مشاہدہ محققین نے جیمز ویب خلائی دوربین کے ذریعے ایک مرتبہ پھر کیا جو فی الحال اپنے پیدائشی مرحلے – پروٹوسٹیلر فیز – میں موجود ہے۔

جیمز ویب خلائی دوربین کی تصویر ایک اہم پیش رفت:
۲۴ اگست ۲۰۲۳ء کو ناسا، یورپین اسپیس ایجنسی اور کنیڈین اسپیس ایجنسی کے مشترکہ مشن جیمز ویب خلائی دوربین کی ایک تصویر کے متعلق سائنسی جریدے نیچر نے ایک اہم پیش رفت پر مبنی تحقیق شائع کی۔ یہ تصویر ایک نومولود ستارے کی ہے جس میں ہمارے سورج کی خصوصیات سے مماثلت رکھنے والے ستارے کے پروٹوسٹیلر پیدائشی مرحلے کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اس میں اس کے پولز سے تیزی سے گیس خارج ہوتی نظر آ رہی ہے جو جیٹس کی صورت اختیار کر رہی ہے۔ ان بائی پولر جیٹس کو سائنسی اصطلاح میں ‘ہربِگ ہیرو آبجیکٹس’ کہا جاتا ہے۔ اس مخصوص نومولود ستارے سے خارج ہوتے ان جیٹس کو ماہرین نے ‘ہربِگ-ہیرو 211’ کا نام دیا ہے۔
پروٹوسٹیلر فیز میں ستارے کی کور کی جانب محض گیس کے گرنے کا عمل ہی نہیں جاری رہتا بلکہ ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب دائروی گردش کرتا پروٹوسٹار اپنے اینگولر مومینٹم کو برقرار رکھنے کے لیے اضافی گیس خارج بھی کر رہا ہوتا ہے ایسا اس لیے ہے کہ اگر ایسا نہ ہو تو اس کی بڑھتی اینگولر ولاسٹی کے باعث وہ بالآخر پھٹ جائے گا۔ لہٰذا اضافی گیس، کوور کے اردگرد گردش کرتی گرد کی ڈسک کے باعث، اس کے پولز سے خارج ہونے کا راستہ بناتے ہوئے بائی پولر جیٹس کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ یہ گیسی جیٹس آواز کی لہروں کی رفتار سے بھی زیادہ تیز رفتاری سے خارج ہوتے ہیں جس کے باعث ان کو ‘سپرسونک جیٹس’ بھی کہا جاتا ہے۔
ہربِگ ہیرو آبجیکٹس دراصل تب پیدا ہوتے ہیں جب سٹیلر ونڈز یا پروٹوسٹار سے تیز رفتاری سے جیٹس کی صورت خارج ہوتی گیس شاک ویوز پیدا کرتے ہوئے بیرونی انٹرسٹیلر میڈئیم میں موجود گیس و گرد کے ساتھ ٹکراتی ہے۔ اس ہنگامہ خیزی کے دوران گیس کے مالیکیولز متحرک ہونے کے باعث انفراریڈ شعائیں خارج کر رہے ہوتے ہیں۔ اس تصویر میں بھی ان انفراریڈ شعاوں کو جیمز ویب دوربین کے نئیر-انفراریڈ کیمرہ کے ذریعے ڈیٹیکٹ کیا گیا۔ ان کے متحرک ہونے کے باعث پیدا ہونے والی چمک کا انفراریڈ سپیکٹرم کے زریعے مطالعہ کیا جاتا ہے اور یوں ہربگ ہیرو آبجیکٹس کی ساخت کا نقشہ بناتے ہوئے تصویر کی صورت دکھایا جاتا ہے۔
یہ نومولود ستارہ ہماری زمین سے تقریبا ایک ہزار نوری سال کے فاصلے پر موجود ستاروں کے جھرمٹ، ‘پرسئیس’، میں واقع ہے، جسے سب سے پہلے ۱۹۹۴ء میں دریافت کیا گیا۔ یہ زمین کے قریب ترین اور نوخیز ترین ستاروں میں سے ایک ہے۔ اس سے خارج ہونے والے بائی پولر جیٹس کے حجم سے ماہرین نے اندازہ لگایا کہ یہ فی الحال ہمارے سورج کی موجودہ کمیت کی نسبت صرف آٹھ فیصد کمیت رکھتا ہے، البتہ چند لاکھ سال میں اس کی کمیت بڑھ کر سورج کے قریب ہو جائے گی۔
تقریباً بیس سال پہلے بھی سپٹزر خلائی دوربین نے اس سے خارج ہوتے ہربگ ہیرو آبجیکٹس کا مشاہدہ کیا تھا اور سبزی مائل دھندلے حصے کو ڈیٹیکٹ کیا گیا اور مطالعہ کیا گیا کہ اس کا ماخذ کس نوعیت کے عناصر ہیں۔ البتہ جیمز ویب دوربین کے حالیہ مشاہدات کے مطابق، یہ قدرے سست رفتاری سے حرکت کرتے ہوئے پھیل رہے ہیں اور زیادہ تر مالیکیولز پر مشتمل ہیں۔ تیز رفتار حرکت ممکنہ طور پر مالیکیولز کو ان کے انفرادی ایٹموں یا آئنز کی صورت میں توڑ دیتی ہے۔ البتہ محققین فی الحال لاعلم ہیں کہ ان ہربِگ ہیرو آبجیکٹس کی رفتار باقی ہربگ ہیرو آبجیکٹس کی نسبت سست کیوں ہے۔ لہٰذا محققین کے لیے یہ ایک حیران کن مشاہدہ تھا کہ یہ گیسی عناصر مالیکیولر نوعیت کے ہیں، جبکہ اس سے قبل خیال کیا جا رہا تھا کہ وہ زیادہ تر ایٹمز یا آئنز کی صورت ہوں گے۔ ان کا ابتدائی خطہ ایک طرح سے ان ہربگ ہیرو آبجیکٹس کی ریڑھ کی ہڈی جیسی حیثیت رکھتا ہے جس کے متعلق ماہرین نے مشاہدہ کیا کہ یہ گیسی خطہ ہائیڈروجن، کاربن مونو آکسائیڈ اور سلیکون مونو آکسائیڈ کے وافر مقدار میں موجود مالیکیولز ہیں۔ لہٰذا یہ ایک اہم پیش رفت ثابت ہوئی۔
اس تصویر کے مرکز میں ہربِگ ہیرو آبجیکٹس کے بیچ ستارے کے دونوں جانب سے خارج ہوتا ایک اور کافی باریک سرخ و گلابی رنگ کا جیٹ بھی دیکھا جا سکتا ہے جس کے متعلق ماہرین کا خیال ہے کہ یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ کوور میں موجود پروٹوسٹار، بائنری سٹار سسٹم کی صورت تشکیل پانے کے مراحل میں ہو سکتا ہے۔ یعنی یہ جیٹ ممکنہ طور پر اس نومولود ستارے کے دوسرے ساتھی نومولود ستارے سے خارج ہونے والا بائی پولر جیٹ ہو سکتا ہے جب پروٹوسٹار اپنے بائنری سسٹم کے تشکیلی مراحل میں ہو؛ البتہ یہ مفروضہ فی الحال مزید تحقیق طلب ہے۔ تصویر کے درمیان میں موجود ہربِگ ہیرو آبجیکٹس مختلف رنگوں پر مشتمل ہیں۔ ان کے بیچ میں تاریک اور قدرے بھورا خطہ وہ خطہ ہے جہاں پروٹوسٹار موجود ہے۔ جبکہ خارج ہونے والی گیس کے جیٹس پیلے اور مالٹائی رنگ کے ساتھ، جن کے درمیان ایک اور باریک گلابی بائی پولر جیٹ بھی موجود ہے، قدرے سبزی مائل امتزاج کے بعد نومولود ستارے سے دور ہوتے ہوئے ہلکے نیلے رنگ کے خطے پر مشتمل ہیں اور بالآخر بیرونی خطہ گلابی و سرخ رنگت اختیار کیے ہوئے ہے۔ عام طور پر یہ ہربگ ہیرو آبجیکٹس متعدد نوری سالوں کے فاصلے پر محیط ہوتے ہیں۔

سورج کا آغاز:
اس تحقیقی مقالے کے لیڈنگ مصنف ‘ٹام رے’ کہتے ہیں کہ: ستارے مستقل طور پر وجود نہیں رکھتے بلکہ یہ ہماری طرح اپنی “زندگی” کے شروعاتی و اختتامی مراحل سے گزرتے ہیں۔ ان کے پیدائشی مراحل کے مطالعے کے ذریعے اپنی سمجھ میں بہتری لاتے ہوئے اور ایسی اہم پیش رفتوں کے زریعے ہم اپنے سورج اور نظام شمسی کے آغاز کے متعلق بھی اپنے علم میں اضافہ کرتے جا رہے ہیں۔” بلاشبہ جیمز ویب کی یہ خوبصورت تصویر نہ صرف ہمارے ذہن میں سورج کے پیدائشی مراحل کا خاکہ تشکیل دیتی ہے بلکہ یہ تحقیق ہمیں باریکی سے سورج کے مماثل دیگر ستاروں کے ابتدائی مراحل کے متعلق بھی معلومات فراہم کرتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

تحریر و تالیف: ثناء فرزند نقوی۔
تاریخِ اشاعت: ۵ دسمبر، ۲۰۲۳ء۔

Bibliography and Citation:
Ray, T.P., McCaughrean, M.J., Caratti o Garatti, A. et al. Outflows from the Youngest Stars are Mostly Molecular. Nature (2023). https://doi.org/10.1038/s41586-023-06551-1
Image Credit: ESA/Webb, NASA, CSA, T. Ray (Dublin)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply