اگلی صبح میں نے زبیر کے آن لائن ہوتے ہی میسج اور کالیں شروع کر دیں ۔اس نے صرف ایک جملہ لکھا۔
آج میں بہتر ہوں
میں نے سوالات کی بوچھاڑ کر دی ۔
تمہیں ہوا کیا ۔ کوئی درد
کوئی بیماری، جلدی بتاؤ۔
گھنٹوں بعد اسے میسج کرنے کی فرصت ملی۔
اس نے قسم دی کہ پریشان نہ ہوتو بتاتا ہوں ۔
میں نہیں ہوتی، نہیں ہوں گی بس بتاؤ جلدی ، کیا تمہیں کرونا ہے؟
مزید کتنے منٹوں بعد اس کی تصدیقی ہاں نے مجھے ریلیکس کر دیا ۔ کرونا سے مجھے ڈر نہیں لگا ۔وہ صحت مند اور مضبوط اعصاب کا آدمی ہے ۔ایسے ہی مجھے پریشان کیا اس نے۔جان بوجھ کر میسج نہیں کر رہا، مجھے اذیت تو ضرور دے گا۔۔ (میں نے اس کو باعزت بری کرنے کا تو کبھی نہیں سوچا۔)
کوئی بات نہیں، اللہ کرم کرے گا ۔تم پلیز بات کرو، کال سنو میری ۔
میں نے جھنجھلا کر کہا ۔وہ پھر گھنٹے بھر کے لئے غائب ہو گیا ۔ اور جب گھنٹے بعد لکھا تو صرف ایک جملہ
سانس مشکل سے آتی ہے بات نہیں ہوتی ۔
کہاں کی جھنجھلاہٹ اور کیسا غصہ، میری تو سانس رک گئی ۔ دنیا جیسے ساکت ہو گئی ۔ کرونا کوئی مذاق نہیں تھا ۔ میں پاگل ہو گئی ۔ٹینشن سے میرا ایک ایک مسل کھنچ گیا ۔
مت بولو بس سن لو، پلیز فون سن لو ۔میں نہیں پریشان ہو رہی بس بات سن لو ۔ میں اتنی پریشان تھی کہ بیسیوں بار یہ دوہرایا کہ میں پریشان نہیں ہوں ۔
اور اس نے دس دن بعد میری کال سنی تو میں دھاڑیں مار کر رو رہی تھی ۔
تم بیمار تھے تو مجھے بتاتے، میں دعا کرتی، تمہیں تسلی دیتی، میں تمہارا آسرا بنتی زبیر ۔ تم میسج میں ہی جواب دے دیتے یار۔میں تو مر گئی ہوں مجھے کچھ یاد نہیں بس یہ پتہ ہے کہ تم نہیں ہو ۔
اس کی بے ترتیب سانسوں کو سنتے میرا کنٹرول خود سے ختم ہو گیا ۔
م۔۔۔میں ۔۔۔۔ٹ ۔۔۔ٹائ ۔۔۔۔ئپ نہ ۔۔۔نہیں ۔۔کر سکتا ۔ د۔رد ہو۔۔تا
مت کرو مت کرو تم ریسٹ کرو بس میں جب کال کروں مجھے سن لینا میں مر جاؤں گی ورنہ۔
میں نے اس کی منت کے ساتھ فون بند کیا اور کتنی دیر روتی اور اس کی سلامتی کی دعا کرتی رہی ۔
کچھ دیر کے بعد اس کا میسج آیا۔
تمہارا درد کیسا ہے۔
میں ٹھیک ہوں ۔میں بالکل ٹھیک ہوں مجھے کچھ بھی نہیں ۔تم ٹینشن مت لینا سب اوکے ہے بس اپنے آپ کا خیال رکھنا ۔میرے لیے واپس پلٹنا زبیر ۔پلیز میرے لئے جینا ۔
میں جو دن میں دس دس بار اسے اپنی تکلیف کی داستان لکھتی بولتی رہتی تھی، اب بھول گئی کہ مجھے کوئی اور تکلیف بھی کبھی رہی ہو گی۔
اگلے کتنے دن، رات دن میں اسے ایزی کرنے کے چکر میں خود گھبرا جاتی تھی ۔ اس کا نمبر کھولے دیکھتی رہتی جہاں آدھا آدھا گھنٹہ زبیر ٹائپنگ لکھا پڑھتی، اور جب میسج آتا تو دو لفظ ۔ اس کے جسم کا درد اسے لکھنے نہیں دیتا، ٹوٹتی سانس بولنے نہیں دیتی تھی ۔ میں ایک ایک لمحے میں سو سو بار مرتی۔
اگر اسے کچھ ہو گیا تو؟ بس اس سے زیادہ کچھ نہیں سوچا جا سکتا تھا میں دھڑادھڑ اللہ سے دعائیں شروع کر دیتی۔
دو دن میں وقفے وقفے سے ٹکڑوں میں لکھے میسجز سے یہ پتہ چلا کہ اس کا بخار اتر گیا ہے اور جسم درد کے ساتھ سانس لینے میں مشکل باقی ہے ۔آکسیجن لیول کم ہے لیکن ڈاکٹر وینٹی لیٹر کی بجائے اسے اپنے پھیپھڑوں کے استعمال کی ہدایت کر رہے تھے ۔
کوئی بے بسی تھی میں اسے مل نہیں سکتی تھی، جا نہیں سکتی تھی اور خود مجھے سوائے مرنے کے ڈاکٹر نے کسی طرح کی حرکت کی اجازت نہیں دی تھی تناؤ میرے اعصاب توڑ رہا تھا اور کبھی کبھی مجھے لگتا میں زندہ نہیں ہوں۔۔ کبھی جھنجھلا کر اس سے لڑنا چاہتی کہ وہ پاکستان میں کیوں بیمار نہیں ہوا۔ہم نے طے کیا تھا کہ دونوں مل کر کرونا میں مبتلا ہوں گے۔اور اکٹھے رہ کر انجوائے کریں گے ۔کرونا جسے ہم ہنی مون کی طرح منانا چاہتے تھے ایک ڈراؤنا خواب بن گیا ۔ مجھے اس پر غصہ آتا،تم نے وعدہ خلافی کی ۔تم ادھر جا کر اکیلے بیمار ہوئے۔میں کبھی معاف نہیں کروں گی ۔
کبھی خود پر غصہ آتا
کیوں جانے دیا ۔قیامت بھی آ جاتی تب بھی کیوں اسے جانے دیا ۔
پھر خود کو سمجھاتی ۔
ہمارے پاس گھر نہیں تھا اور زندگی مشکل سے مشکل ہو رہی تھی ۔پرائیویسی نہیں تھی، گھر خریدنے کے لئے پیسے چاہیئے تھے۔ زمین اور گھر ہم بیچ نہیں سکتے تھے کہ یہ گاؤں میں ایک سکینڈل ہوتا دوسرا ابا جی اجازت کبھی نہ دیتے۔جوائنٹ فیملی سسٹم میں ذاتی فیصلے جرم تھے۔یہ جوائنٹ نہیں جائنٹ فیملی سسٹم تھا ۔گھر خریدنے کے لئے پیسے چاہیئے تھے۔
پیسے بھیجنے میں اس لیے دیر ہو گئی کہ میرے کارڈ کو کوئی اور ہاتھ نہیں لگا سکتا تھا، سیف نہیں تھا ۔میں بہت شرمندہ ہوں پیسے لیٹ آئے۔
اس کے اپنے ہی سویگ ہیں ۔کہا نا اے ٹی ایم بن کر بہت خوش ہوتا ہے ۔
پیسے تھے میرے پاس زبیر، میں نے بتایا تھا نا پھر سیلری بھی آ گئی تھی ۔اصل مسئلہ تو تم سے بات ہونے کا تھا، پیسے کا تو نہیں ۔
میں پہلے ہی شرمندہ ہوں ساڑھے چار سال میں پہلی بار میں نے ارادتاً تمہیں جانے دیا اور پیسوں کے لئے جانے دیا ۔مانا کہ ہماری مجبوری تھی، حالات تھے
لیکن کوئی جواز مجھے میری نظر میں معتبر نہیں کر رہا تھا ۔میں خود کو گالی پر گالی دیتی۔اگر اسے کچھ ہو گیا تو میں خود کو کیسے معاف کروں گی۔
وہ میری محبت ہے زندگی ہے کوئی مادی ضرورت اس سے زیادہ اہم کیسے ہو گئی ۔
میں نے اللہ سے معافیاں مانگیں کہ اس کی رفاقت کے مقابلے میں میں نے مادی ضرورت کا سوچا ۔
آخر وہ ٹھیک ہو گیا ۔جس دن اس کا ایکسرے کلیئر ہوا مجھے لگا کہ میرے گناہ معاف ہو گئے ۔
پھر میں نے واپسی کی رٹ شروع کر دی ۔۔
گھر آؤ
ہجر کا دکھ، اور تمہیں کھو نے کے ڈر سے گھر لرزتے کانپتے دیکھا ہے میں نے
اور
گھر نے موت کے ڈر کو یہاں پر
ناچتے دیکھا ہے
گھر کی ایک اک دیوار نے، ہر کونے کھدرے میں
جدائی اور تنہائی کا قبضہ دیکھتے کچھ دن گزارے ہیں
سو گھر سہما ہوا ہے
میں بھی کتنے دن سے اور کتنے دنوں تک بس درودیوار کو دیکھا کیے ہوں
ان درودیوار پر کتنی دفعہ اس خوف کی تحریر کو لکھا، مٹایا ہے
تمہیں کھونے کے ڈر نے گھر کو بھی تو مرے جتنا ڈرایا ہے
سو ہم سہمے ہوئے ہیں
موت کی پرچھائیوں کے خوف سے دبکے ہوئے ہیں
تم بس آؤ
آ بھی جاؤ
یہ سایہ خوف کا اب زندگی سے بھاگ جائے
اور
گھر میں زندگی آئے
وہ آیا تو بس یہ دکھانے کہ
دیکھو میں تمہارے لیے پلٹا ہوں ۔تمہاری خاطر خدا نے مجھے بھیجا ۔میں نے بہت دعائیں کیں کہ یا الله مجھے اس کے لئے رکھ، پہلے ہی اپنی بیماری سے ٹوٹی پڑی ہے اگر مجھے کچھ ہو گیا یہ تو مر جائے گی ۔
زبیر واپس آیا تواضطراری طور پر نیند میں بھی اسے اپنے آپ کو دباتے دیکھ کر میں مر مر جاتی ۔
مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ اتنے دن بعد بھی اگر وہ اتنی تکلیف میں ہے تو پھر پہلے کتنی تکلیف میں رہا ہو گا ۔
میں نے شادی کے بعد کے چند سال سسرالی رشتوں کی بے اعتنائی اور بے حسی کی بدولت زبیر کے بیرون ملک قیام کے دوران جتنی تکلیف تنہا کاٹی، یوں ہی کبھی کبھار ایک انتقامی سا جذبہ پیدا ہونے پر یہ سوچا تھا کہ ایک بار زبیر تنہا بیمار پڑے تو اسے احساس ہو کہ اکیلے بندے کو بیماری میں کسی اپنے کی کتنی ضرورت ہوتی ہے ۔
لیکن وہ ایسے اور ایسا بیمار ہو یہ تو میں نے کبھی بھی نہیں چاہا تھا ۔
میں نے تنہائی کی بیماری بھگتائی ہے اور زبیراس تکلیف سے اس طرح گزرا کہ میری جسمانی اور ذہنی حالت دیکھتے ہوئے مجھے مزید تکلیف سے بچانے کیلئے اپنی بیماری چھپاتا بھی رہا ۔ سوچ کر جھرجھری آ جاتی ہے ۔
اس نے مجھے میری بیماری میں پریشانی سے بچانے کیلئے رپورٹ میں دو نمبری کی اور پازیٹو کو نیگٹو دکھایا ۔(اس کی نیت جتنی بھی نیک تھی تب سے میرا اعتبار اس سے اٹھ گیا ہے ۔)
رابطہ نہ کرنے پر وہ جانتا تھا کہ میں غصہ کروں گی اور میرا غصہ تو اس کے لئے قابل قبول تھا، پریشانی نہیں ۔۔سو اس نے مجھے رج کر غصہ دلایا ۔ تا کہ میں غصے میں اپنے آپ کو اس سے الگ کر کے سوچوں ۔ اور میں نے یہی کیا ۔
جاری ہے ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں