ضرورت برائے جنرل مینجر پاکستان۔۔۔علی اختر

اپنے 14سالہ کریئر میں، مَیں نے مینجمنٹ کی تعلیم بھی لی اور تجربہ بھی ، یہ سبجیکٹ پڑھایا بھی اور کئی  لوگوں کو مختلف انداز سے  مینجمنٹ چلاتے دیکھا ۔ اندرون ملک اور ملک سے باہر گھاٹ گھاٹ کا پانی پینے کے بعد میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ  میں نے  زندگی  میں مینجر صرف ایک دیکھا ۔ پنجاب کے دیہی بیک گراونڈ سے تعلق رکھنے والا اور پنجابی لہجے میں اردو بولتا یہ شخص اعجاز منہاس تھا ۔

والد آرمی آفیسر تھے تعلیم بھی آرمی اسکول میں ہوئی  ۔ کیمیکل انجینئرنگ کی ۔ سی ایس ایس پاس کیا۔ اسسٹنٹ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر بنے پھر کسی وجہ سے نوکری سے استعفیٰ دے کر جاپان چلے گئے۔ جہاں سے ماسٹرز کیا۔ باقی زندگی مختلف کمپنیوں میں کام کرتے گزاری۔ مجھے لگ بھگ دو سال کا عرصہ ان کے ساتھ  کام کرنے کا موقع ملا، یہ وہ وقت تھا جب وہ رٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچ چکے تھے یعنی ساٹھ سال سے اوپر عمر کے تھے لیکن چاق و چوبند اور پوری طرح  صحت مند ۔ میں نے انہیں کبھی سخت ڈکٹیٹر کے روپ میں دیکھا ، کبھی تسفیہ کرانے والے منصف کے تو کبھی شفقت سے بات سمجھاتے خاندان کے معمر بزرگ کی مانند۔ فیکٹری میں کام کرتے کئی  سو لوگوں کے اسٹاف میں انہیں تقریباً سبھی کے نام اور کام کا علم رہتا ۔ لوگوں کو کس طرح باندھ کر کام کرایا جاتا ہے ۔ اس کام پر کیسے نظر رکھی جاتی ہے۔ کیسے فیڈ بیک لیا جاتا ہے ۔ ایک معمولی سی ای میل پر کیسے فوری ایکشن اور محاصبہ کیا جاتا ہے ۔ لاپرواہی کی صورت میں کیا ایکشن لیا جاتا ہے ۔ اچھی کارکردگی کی صورت میں کس طرح حوصلہ افزائی کی جاتی ہے میں نے اس انسان سے سیکھنے کی کوشش کی۔ اچھی مینجمنٹ  کی صورت میں کیسے کسی جگہ کا ماحول اور نقشہ تبدیل ہو جاتا ہے اپنی آنکھوں سے دیکھا ۔ یہ سب تمہید لکھنا محض اس لیے ہے کہ  میں انکا سادہ سا فقرہ یہاں نقل کرنا چاہتا ہوں ۔ آپ اس کے تناظر میں کسی بھی نئی   مینجمنٹ  کی کارکردگی ماپ سکتے ہیں ۔ جملہ کچھ یوں ہے ۔

“مینجروہ ہوتا ہے جو اگر کسی راستے سے بھی گزر جائے تو پیچھے آنے والوں کو پتہ  لگ جائے کہ  یہاں سے کوئی  مینجر گزرا ہے ”

اب آپ تبدیلی سرکار کی لگ بھگ سال بھر کی کارکردگی مذکورہ بالا جملے کے تناظر میں دیکھیے۔ ۔ چلیے مانا کہ  معاشی طور پر ہم دیوالیہ تھے، قرضوں میں جکڑے ہوئے تھے سو ہم ابھی معاشی اور صنعتی تباہی کی بات نہیں کرتے ۔ محض ان اداروں کا جائزہ لیا جائے جن کے دفاتر کی عمارات ، اسٹاف ، بجٹ وغیرہ سب موجود ہے ۔ عدلیہ کی کارکردگی دیکھیں ۔ کیا کوئی  مثبت تبدیلی نظر آتی ہے؟ ۔ کیا سستا اور فوری انصاف فراہم ہو رہا ہے ؟ ۔ کیا زیر التوا مقدمات میں کچھ کمی آئی  ہے ؟ پولیس کے محکمے کو دیکھیں ۔۔ کیا اس محکمہ سے رشوت خوری ، تشدد، جعلی مقابلوں کا خاتمہ کیا جا سکا ہے ؟۔ محکمہ تعلیم کی کارکردگی دیکھیں ۔ کیا گھوسٹ اسکول ختم کیے  جا سکے ہیں ؟ ۔ انکی تو عمارات بھی موجود ہیں ۔ ٹیچرز بھی مقرر ہیں ۔ تنخواہیں بھی ملتی ہیں ۔ تو پھر تبدیلی مینجمنٹ کیا کر رہی ہے ؟۔ چلیں وفاق کو چھوڑیں ۔ کیا خیبر پختونخوا جہاں گزشتہ چھ سال سے آپکی حکومت قائم ہے میں مثالی مینجمنٹ  قائم کی جا سکی ہے ؟ پشاور میٹرو بس منصوبے کی تعمیر مکمل ہو سکی ہے ؟ ۔ کیا وہاں مثالی امن و امان قائم کیا جا سکا ہے ؟ ۔ کیا ملک کے بیرونی محاذ یعنی خارجہ پالیسی میں کوئی  مثبت پیش رفت نظر آتی ہے ؟۔۔۔امریکہ اور برادر اسلامی ممالک کے بھارت کی جانب جھکاؤ سے کیا مطلب نکلتا ہے ؟ ۔

Advertisements
julia rana solicitors

مختصراً یہ کہ  باتوں اور تقریروں کے علاوہ عملی میدان میں کوئی  خاطر خواہ تبدیلی نظر آتی ہے ؟ یا اعجاز صاحب کے قول کے تناظر میں دور دور تک بھی کہیں نظر آتا ہے کہ اس راستے سے کو ئی مینجر گزرا ہے ؟ سوچیے  اور ایک اچھے جنرل مینجر  کا انتظار کیجیے۔

Facebook Comments

علی اختر
جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply