عاشق رسول ﷺ علامہ محمد اقبال۔۔محمد عمران ملک

شیخ نور محمد تجارت پیشہ گھرانے کے فرد تھے۔ دنیوی تعلیم باقاعدہ حاصل کی، نہ دینی۔ پڑھنے لکھنے کا شوق تھا خود سے سیکھتے سکھاتے آگے بڑھتے رہے۔ قرآن کی تعلیم سے لے کر، اردو ، فارسی تک اپنی محنت سے سیکھتے رہے۔ پھر فارسی کی کتابیں بھی خود لکھتے رہے۔کاروباری طور پر سلائی کا کا م کرتے تھے اور ٹوپیاں بھی سیا کرتے تھے۔ بعد ازاں انہوں نے اس کام کے لیے ملازم بھی رکھے اور کاروبار خوب پھلا پھولا۔ گویا کہ مالی حالت بھی بہتر تھی۔ بہت سی مقبول شخصیات کے بارے میں غلط روایات پھیلا دی جاتی ہیں جو معاشرے میں غلط العام ہو جاتی ہیں۔ ایسی ہی ایک بات کئی بار نظر سے گزری کہ علامہ اقبال کے والد بینک کی نوکری کیا کرتے تھے۔ اور والدہ نے کہا کہ اقبال کو بینک کا رزق نہ کھلانا۔ یا اقبال کی پرورش کے لیے والدہ نے ایک بکری خرید لی کہ بینک کی کمائی اقبال کی جیب میں نہ جائے۔ حالانکہ ایسا کچھ نہیں تھا۔ اقبال کے والد شیخ نور محمد نہ ہی کسی مدرسے کے پڑھے تھے اور نہ ہی کوئی باقاعدہ دنیوی تعلیم لی تھی البتہ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی صاحب کی ایک تحریر میں تذکرہ ملا کہ ” دنیاوی تگ و دو میں انہوں نے ہمیشہ رزق حلال سے تجاوز نہ ہونے پائےروایت ہے کہ کچھ عرصہ وہ ڈپٹی وزیر اعلیٰ کے ہاں ملازم رہے۔اس ملازمت کی آمدن کا کچھ حصہ ایسا بھی تھا جو کسب حلال کے اسلامی تصور میں نہیں آتا تھاچنانچہ شیخ نور محمد نے وہ ملازمت ترک کر دی”۔ یہ جملہ معترضہ اس لیے ذہن میں آ گیا کہ ایسی بے تکی باتوں کو پھیلایا جاتا ہے اور اس کی مثالیں بھی دی جاتی ہیں۔حقیقت میں ا ن کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ خیر اقبال کے والد سے متعلق بات شروع کی تھی۔ ان کے بارے میں مزید عرض ہے کہ وہ ایک با عمل مسلمان تھے برادری میں بھی ان کو عزت احترام دی جاتی تھی۔ خوش اخلاق ہونے کے ساتھ ساتھ باطنی طور پر بھی تصوف میں دل چسپی رکھا کرتے تھے۔ قرآن تو گویا ان کا اوڑھنا بچھونا تھا۔یہی وجہ تھی کہ شیخ نور محمد اپنے لخت جگر کے لیے بھی قرآن کو ہی نمونہ بنانا چاہتے تھے۔ایک واقعہ کا تذکرہ علامہ اقبال نے کیا کہ میں جب سیالکوٹ میں پڑھتا تھا تو نماز فجر کے بعد قرآن مجید کی تلاوت میرا معمول تھا۔ والد صاحب وظائف سے فارغ ہوکے  مسجد سے گھر آتےاور مجھے تلاوت کرتا دیکھ کر کمرے میں چلے جاتے۔ ایک روز نماز فجر کے بعد میں  حسبِ  معمول تلاوت میں مشغول تھا کہ والد صاحب میرے پاس سے گزرے اور فرمایا:”کبھی فرصت ملی تو میں تمہیں ایک بات بتاؤں گا۔” کچھ مدت بعد اسی طرح مسجد سے آ کر میرے پاس بیٹھ گئے۔میں تلاوت کرتے کرتے رک گیا۔وہ فرمانے لگے کہ”تم کیا پڑھ رہے ہو؟” مجھے ان کے اس سوال پر تعجب ہوااور کچھ ملال بھی کیوں کہ انہیں معلوم تھا کہ میں قرآن پاک کی تلاوت کر رہا ہوں۔ بہر حال میں نے بڑے ادب سے جواب دیا: قرآن مجید ۔ کہنے لگے ” تم جو کچھ پڑھتے ہو اسے سمجھتے بھی ہو؟”کہا کیوں نہیں کچھ نہ کچھ سمجھ لیتا ہوں والد صاحب خاموش ہو گئے اور اٹھ کر کمرے میں چلے گئے۔ چند دن بعد ایک روز مجھے مسجد سے واپس آنے کے بعد بلایا اور کہا کہ قرآن کو ایسا پڑھا کرو کہ جیسے قرآن خود تمہارے قلب پر نازل ہو رہا ہے۔ یوں محسوس کرو کہ اللہ خود تم سے مخاطب ہے پھر سمجھ بھی آئے گا اور لذ ت بھی محسوس ہو گی۔اسی پر اقبال نے بعد میں لکھا کہ
تیرے وجود پر جب تک نہ ہو نزول کتاب
گرہ کشا ہے رازی نہ صاحب کشاف
اسی طرح اقبال کی والدہ کی تربیت کا نظام بھی بہت اچھا تھا۔ جس تربیت کے نتیجے میں اقبال سب کچھ بن سکے۔اس کے ساتھ ساتھ علامہ اقبال کے استاد مولوی میر حسن کی تربیت نے اقبال کی شخصیت کو چار چاند لگا دیئے۔اقبال نے نہ صرف میر حسن ؒ سے سیکھا بلکہ پیر مہر علی شاہ، جعفر پھلواری اور دیگر اساتذہ سے بھی سیکھتے رہے۔جہاں خود نہیں جا سکتے تھے وہاں خط و کتابت سے سیکھنے کا عمل جاری رکھتے تھے۔یہی وجہ تھی کہ اقبال اپنے ہم جولیوں میں سے بھی سب سے آگے تھے۔ شاعری ، ہم نصابی کتابیں ، فلسفہ سب اقبال نے نوجوانی میں ہی کھنگال لیا تھا۔استاد کی عظمت سے متعلق سید محمد عبداللہ کہتے ہیں کہ ایک بار کہنے لگے ” عبداللہ جی یورپ کا کوئی ایسا بڑا عالم یا فلسفی نہیں ہے، مستشرق یا مستغرب جس سے میں نہ ملا ہوں یا کسی نہ کسی موضوع پہ بے جھجھک بات نہ کی ہو لیکن نہ جانے کیا بات ہے شاہ جی(میر حسن صاحب) سے بات کرتے ہوئے میری قوت گویائی جواب دے جاتی ہے۔کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ان کے کسی نقطہ نظر سےمجھے اختلاف ہوتا ہے لیکن دل کی یہ بات با آسانی  لا سکتا”یہ اقبال کے ایک شاگرد کی حیثیت سے مقام ہےتو دوسری طرف علامہ اقبال گورنمنٹ کالج لاہور میں استاد بھی رہے۔ پھر تین سال کی بلا معاوضہ رخصت لے کراعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان چلے گئے۔قیام انگلستان کے دوران انہوں نے معلمی کی بجائے وکالت کا پیشہ اپنانے کا فیصلہ کیا اور وہیں سے ملازمت سے استعفیٰ لکھ کربھیج دیا۔بعد ازاں ہائی کورٹ لاہور میں قانونی پریکٹس کے دوران پروفیسر جیمز کی اچانک وفات پر علامہ اقبال سے درخواست کی گئی کہ وہ ایم اے فلسفہ کی کلاسز کو پڑھائیں ۔ گونمنٹ کالج کے پرنسپل کی درخواست پر ہائی کورٹ نے یہ حکم جاری کیا کہ اقبال کلاس لینے کے بعد اپنے کیس عدالت میں شام کو لایا کریں۔ عدالت شام کو ان کو کیس سنا کرے گی۔اقبال اسی طرح بعد دوپہر اپنے کیسز کی پیروی کرتے رہے۔ علامہ اقبال بہت معیاری اور مثالی استاد تھے۔ معلم کے منصب و فرائض سے متعلق خود اقبال نے لکھا کہ:” معلم حقیقت میں قوم کے محافظ ہیں، کیوں کہ آئندہ نسلوں کو سنوارنا اور ان کو ملک کی خدمت کے قابل بنانا انہی کی قدرت میں ہے۔ سب محنتوں سے اعلیٰ درجے کی محنت اور سب کارگزاریوں سے بیش قیمت کار گزاری ملک کے معلموں کی کار گزاری ہے۔ اگرچہ بد قسمتی سے اس ملک میں اس مبارک پیشہ کی وہ قدر نہیں جو ہونی چاہیے۔ معلم کا فرض تمام فرضوں میں سے زیادہ مشکل اور اہم ہے کیوں کہ تمام قسم کی اخلاقی ، تمدنی، اور مذہبی نیکیوں کی کلید اسی کے ہاتھ میں ہے اور تمام قسم کی ملکی ترقی کا سر چشمہ  اسی کی محنت ہے۔ پس تعلیم پیشہ اصحاب کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے پیشے کے تقدس اور بزرگی کے لحاظ سے اپنے طریق تعلیم کو اعلیٰ درجے کے علمی اصولوں پر قائم کریں۔جس کا نتیجہ یقینا یہ ہو گا کہ ان کے دم قدم کی بدولت علم کا ایک سچا عشق پیدا ہو جائے گا۔جس کی گرمی میں وہ تمدنی اور سیاسی سرسبزی مخفی ہے جس سے قومیں معراج کمال تک پہنچ سکتی ہیں۔”
اقبال سے متعلق لوگوں نے بہت بد گمانیاں بھی پھیلائیں کہ وہ صرف اعتقادی مسلمان تھے۔ عمل سے ان کا کوئی تعلق نہ تھا۔حالانکہ اقبال کی عشق رسول ﷺ میں ڈوبی شاعری گواہ ہے کہ اقبال عملی مسلمان تھے۔اسلامی شریعت ا ن کے لیے سیاست کی اسا س تھی اور وہ اس پر کاربند بھی رہتے تھے۔اس میں وہ کس قدر شریعت کے پابند تھے کہ مولانا مودودی ؒ لکھتے ہیں کہ ” ایک بار حکومت ہند نے ان کو جنوبی افریقہ میں اپنا ایجنٹ بنا کر بھیجنا چاہاور یہ عہدہ باقاعدہ ان کے سامنے پیش کیا گیا۔مگر شرط یہ تھی کہ وہ اپنی بیوی کو پردہ نہ کروائیں۔اور سرکاری تقریبات میں لیڈی اقبال کو لے کر شریک ہوا کریں۔اقبال نے اس شرط کے ساتھ یہ عہدہ قبول کرنے سے بالکل انکار کر دیا۔اور خود لارڈ ولنگڈن سے کہا کہ میں بے شک ایک گناہ گار آدمی ہوں احکام شریعت میں بہت کوتاہیاں مجھ سے ہوئی ہیں۔لیکن اتنی ذلت اختیار نہیں کر سکتاکہ محض ایک عہدہ حاصل کرنے کے لیے شریعت کے حکم کو توڑ دوں۔اپنی آخری عمر میں اقبال نے صرف قرآن کے ساتھ لو لگا لی تھی۔ اقبال کی جب بینائی چلی گئی تو رویا کرتے تھے کہ میں اب قرآن نہیں پڑھ سکوں گا۔ اس کے علاوہ مجھے کچھ غم نہیں۔
نبی کریم ﷺ سے محبت تو گویا علامہ اقبال میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔اقبال کے ایک دوست بیان کرتے ہیں کہ اقبال کی شاعری کا خلاصہ ، جوہر اور لب لباب عشق رسول ﷺ اور اطاعت رسولﷺ ہے۔ میں علامہ صاحب کی صحبتوں میں عشق رسول ﷺ کے جو مناظر دیکھے ہیں ،انکا لفظوں میں پوری طرح بیان کرنا بہت مشکل ہے۔ وہ کیفیتیں بس محسوس کرنے کی تھیں، جب یہ مقدس ذکر چھڑ ہی گیا ہے تو جی چاہتا ہے ایک واقعہ بیان کروں : ” ایک دن سیرت نبوی ﷺ پر گفتگو ہو رہی تھی ، علامہ صاحب نے خاص انداز میں ایک واقعہ سنایا۔ فرمانے لگے : ایک معرکہ میں مسلمان سپہ سالار کا گھوڑا زخمی ہو گیا، زخموں کی یہ حالت تھی کہ گھوڑے کا میدان کارزار میں کھڑا رہنا دشوار تھا۔وہ بیٹھنا چاہتا تھادوسری طرف کافر یلغار کرتے ہوئے چلے آ رہے تھے۔ اس عالم میں امیر عساکر نے گھوڑے کو مخاطب کر کے کہا کہ: ” اگر تم نے اس نازک وقت میں میرا ساتھ چھوڑ دیا، تو اس جہان فانی سے رخصت ہونے کے بعد رسول اللہ ﷺ سے تمہاری شکایت کروں گا” یہ واقعہ سنانے کے بعد علامہ اقبال زارو قطار رونے لگے۔ اور ان کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی۔ آپ ﷺ کے دیدار کے بارے میں کسی نے پوچھا تو علامہ اقبال نے کہا کہ” اسوہ حسنہ پر عمل کرو زندگی اس میں ڈھال لو پھر خود کو دیکھو یہی ان کا دیدار ہے”
اقبال نے اپنے بیٹے کو بھی ایسی ہی وصیت سے نوازا کہ:
دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ ، نیا صبح و شام پیدا کر
مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ ، غریبی میں نام پیدا کر

Facebook Comments

پروفیسر محمد عمران ملک
پروفیسر محمد عمران ملک وزیٹنگ فیکلٹی ممبر پنجاب یونیورسٹی لاہور پی ایچ ڈی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply