• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • خیبر پختونخوا حکومت کا ایک انتہائی غلط اقدام۔۔۔پروفیسر محمد مشتاق

خیبر پختونخوا حکومت کا ایک انتہائی غلط اقدام۔۔۔پروفیسر محمد مشتاق

پچھلے سال دستور میں پچیسویں ترمیم کے ذریعے فاٹا اور پاٹا کے علاقوں کا صوبہ خیبر پختونخوا کے ساتھ باقاعدہ انضمام ہوا۔ اس انضمام کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اب ان علاقوں پر ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کو اختیارِ سماعت حاصل ہوگیا ہے۔ چنانچہ اب ان علاقوں میں موجود قوانین کو اس بنیاد پر عدالت میں چیلنج کیا جاسکتا ہے کہ یہ دستور میں مذکور بنیادی حقوق سے متصادم ہیں۔
انضمام کے بعد فاٹا میں رائج قوانین میں دستوری لحاظ سے کیا مسئلہ ہے ، اس پر الگ سے گفتگو کریں گے، ان شاء اللہ۔ اس وقت سابقہ پاٹا (سوات، دیر، چترال، بونیر، کوہستان) کے اضلاع میں رائج قوانین کے متعلق ایک سنجیدہ مسئلے کی طرف توجہ دلانا ہے۔،
انضمام سے قبل ان علاقوں میں “شرعی نظامِ عدل ریگولیشنز” اور “ایکشن ان ایڈ آف سول پاور ریگولیشنز” نافذ تھے۔ اول الذکر میں اگرچہ نام شریعت کا لیا گیا ہے لیکن ان ریگولیشنز کا تفصیلی تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ذریعے انتظامیہ کو عدالتی اختیارات دے کر بیوروکریسی کی حکومت قائم کی گئی ہے۔ دوسری طرف “ایکشن ان ایڈ آف سول پاور ریگولیشنز”کے ذریعے فوجی کمانڈرز کو وہ اختیارات دیے گئے ہیں جن کا تصور بھی دستور ی اور قانونی نظام میں نہیں کیا جاسکتا۔ ،مثال کے طور پر ان میں قرار دیا گیا ہے کہ جب کسی ملزم کے خلاف فوجی افسر نے بیانِ حلفی دیا تو اسے اس ملزم کے خلاف کافی ثبوت مانا جائے گا۔ اسی طرح دہشت گردی کے ملزموں کو جن قید خانوں (انٹرنمنٹ سنٹرز) میں رکھا جاتا ہے وہاں ان کے خلاف قید خانے کے افسر نے جن چیزوں کی برآمدگی دکھائی انھیں ان ملزموں کے خلاف ثبوت کے طور پر مانا جائے گا۔ مزید یہ کہ “سول پاور” کی “مدد” کےلیے فوج جب کارروائی کرتی ہے تو جس شخص کو وہ کارروائی میں رکاوٹ کا مرتکب قرار دے، خواہ وہ پاٹا سے باہر ہو، اس کے خلاف کارروائی کی جاسکتی ہے۔ وغیرہ، وغیرہ۔
جب پچیسویں دستوری ترمیم کے ذریعے ان علاقوں پر ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کو اختیارِ سماعت حاصل ہوا تو امید پیدا ہوگئی کہ اب “سول و فوجی بیوروکریسی کی حکومت “کے بجائے “دستور و قانون کی حکومت” ہوگی ۔ تاہم اس کےلیے بڑے پیمانے پر قانونی تبدیلیوں کی ضرورت تھی۔ حکومت نے ، بجائے اس کے کہ ان علاقوں میں ملک کے دیگر علاقوں کی طرح دستور و قانون کی حکمرانی یقینی بناتی، الٹا انہی ریگولیشنز کے “تسلسل” کےلیے قانون بنایا جو 3 ستمبر 2018ء سے نافذ ہوا۔ اس کا دوسرا ورژن 2019ء میں بھی لایا گیا۔۔
ان قوانین کو پشاور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا کہ یہ دستور سے متصادم ہیں اور درخواست گزار کی جانب سے دیگر امور کے علاوہ ایک بات یہ کہی گئی کہ یہ قانون امتیازی ہے کیونکہ اس کا اطلاق پورے صوبے پر نہیں بلکہ صوبے کے چند علاقوں پر ہوتا ہے ۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ اس کے جواب میں حکومت نے کیا کیا؟ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جیسے اس قانون کا اطلاق صوبے کے دیگر علاقوں میں نہیں ہوتا، ایسے ہی سوات ودیر وغیرہ میں بھی اس کا اطلاق ختم کردیا جاتا لیکن اس نے وہ کیا جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا! جی ہاں، حکومت نے 18 ستمبر 2019ء کو ہائی کورٹ کو بتایا کہ پچھلے مہینے 5 اگست 2019ء کو وہ ایک نیا آرڈی نینس لائی ہے ، “ایکشن ان ایڈ آف سول پاور آرڈی نینس”، اور اس آرڈی نینس کا اطلاق اب پورے صوبے پر ہوتا ہے! امتیازی قوانین کے خاتمے کا یہ طریقہ پہلی دفعہ سمجھ میں آیا کہ چند لوگوں کے ساتھ زیادتی ہونے کے بجائے سب کے ساتھ زیادتی ہو۔۔
یہ سوال بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ ایسے ظالمانہ اور فرسودہ قوانین کےلیے ہمیشہ “ریگولیشنز” یا “آرڈی نینس” کا راستہ کیوں چنا جاتا ہے ؟ صوبائی اسمبلی کے ذریعے باقاعدہ قانون سازی کیوں نہیں کی جاتی؟ جب تک یہ علاقے دستور کی مکمل عمل داری سے باہر تھے، تب تک اس طرح کے کھیل آسانی سے کھیلے جاسکتے تھے۔ مزید یہ چیز نہیں چل سکتی۔ قانون اور انصاف کےلیے فکر مند لوگوں پر لازم ہے کہ اس اقدام کے خلاف آواز اٹھائیں اور دستور و قانون کی بالادستی یقینی بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply