سائنس اور پرویز ہودبھائی۔۔۔محمد علی شہباز

سوشل میڈیا عوامی رائے میں اک اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ یہ اک قسم کی چوپال ہے کہ جہاں ہر طرح کا انسان ہر قسم کی سوچ اور نظریات لے کر آتا ہے۔اس کی مدد سے دنیا میں سماجی و سیاسی شعور کے ساتھ ساتھ علمی مباحث بھی منظر عام پر آنےلگے ہیں۔اور آئے روز نت نئے ٹرینڈ یا رجحانات چند لمحوں میں دور دراز تک پہنچ جاتے ہیں۔ فیس بک ایسا ہی آن لائن وسیلہ ہے جو معاشرتی زندگی میں اہم تبدیلیاں لا رہا ہے۔ پچھلے کچھ عرصے سے فیس بک پر ایک نیا رجحان دیکھنے میں آیا ہے کہ جس میں چند دیسی قسم کے دانشور اپنی منتشر سوچ کے ساتھ سائنس پر گفتگو فرما رہے ہیں۔ان میں سے اکثریت تو باقاعدہ تحریکی مقاصدکی شکل میں  فیس بک پر اپنی سائنسی قابلیت کا لوہا منوانا چاہتے ہیں۔یہ لوگ  زیادہ تر کسی نہ کسی خاص نظریے سے وابستہ ہیں یا پھر اپنے من گھڑت فلسفے سے عام لوگوں کے ذہنوں میں سائنس کے متعلق الجھنیں پیدا کرتے ہیں۔اسی طرح دنیا بھر میں مشہور و مقبول مقامی سائنسدانوں پر غیر علمی اور جذباتی جملے کستے ہیں تاکہ ان کی تضحیک سے اپنے ذاتی ایجنڈے کو پھیلایا جاسکے۔

پاکستان میں سائنسی تحقیق دنیا بھر کے مقابلے میں کچھ قابل ذکر نہیں ہے۔لیکن یہاں مذہبی جذباتیت اور شخصیت پرستی کے رجحانات کی بہتات کی وجہ سے اکثر اوقات سائنسی شعور اور حقیقی سائنسدانوں کو بلاوجہ تنقید و تذلیل کا نشانہ بنایا جا تا ہے۔ہمارا تعلیمی بجٹ نہ ہونے کے برابر ہے۔ہماری جامعات میں ہونے والی تحقیق  مجموعی طور پرکسی طرح بھی اصلی یا اعلیٰ پائے کی نہیں ہے۔اگرچہ گزشتہ دہائی سے ہم نے پی ایچ ڈی کے حامل افراد کی تعداد میں اضافہ کر لیا ہے لیکن معیاری تحقیق میں ہونے والا زوال اس سے بہت درجے زیادہ ہے۔تیسری دنیا کے ممالک ترقی یافتہ ممالک کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہیں ۔ ہماری بڑی بڑی  برگزیدہ ہستیاں اپنے بچوں کی بہتر تعلیم کے لئے انہی ترقی یافتہ ممالک کا رخ کرتی ہیں۔اس پر مزید یہ کہ جن سائنسدانوں پر ہمیں فخر ہونا چاہیے انکی سائنسی حیثیت کو جانے بغیر ہم ان پر بے جا تنقید کرنے لگتے ہیں۔کبھی انہیں مذہبی نشتر سے ذبح کرنا چاہتے ہیں تو کبھی ملک دشمنی کی آڑ میں ان کی آواز دبانا چاہتے ہیں۔قطع نظر اس کے کہ  مذہب اور سائنس کا باہمی تعلق کیا ہے، ہمارا مدعا یہ ہے کہ ایسی کوششوں سے سائنس کی ایک عام فہم تعبیر کی جاتی ہے جو کہ بعد ازاں مذہب کے ساتھ  گڈ مڈ کرتے ہوئےایک الجھنوں کا شکار معاشرہ جنم دیتی ہے۔

ہمارے یہ دیسی فلسفی مشہور سائنسی جریدوں سے نابلد ہوتے ہیں اور ان کا سائنسی علم پاپولر سائنس جسے ہم “پارلر فلاسفی” کے نام سے یاد کرتے ہیں ، سے مستعار لیا گیا ہوتا ہے۔اگر ان دیسی فلسفیوں کی اپنی علمی حیثیت کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ ناصرف سائنس سے ناواقف ہیں بلکہ اپنے مضمون میں بھی کوئی قابل قدر مقالہ یا پرچہ نہیں لکھا ہوتا۔یا کوئی ایسی تازہ فکر جو دنیا کے لئے نئی ہو ان دیسی فلسفیوں کی طرف سے سامنے نہیں آئی ہوتی۔لیکن اس کے باوجود یہ دعوے کر رہے ہوتے ہیں کہ سائنس اپنی بنیادوں میں کھوکھلی ہے۔سائنس الجھنوں کا شکار ہے۔ سائنس اپنے نظریات بدلتی رہی ہے ۔ سائنس عقل کی اعلٰی ترین شکل یعنی کشف اور روحانی واردات کے بارے میں نہیں جان سکتی۔سائنسی دریافتیں پہلے سے مذہبی کتاب میں موجود ہیں وغیرہ وغیرہ۔اور ان میں سے کچھ تو اس قدر تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہیں کہ سائنس کے بڑے نظریات کی تفہیم کے ساتھ ساتھ ہدایت کا کام بھی نبٹا دینا چاہتے ہیں۔آپ سوشل میڈیا پر موجود ایسے دیسی فلسفیوں کی پہچان کر سکتے ہیں جو آئے روز کسی نہ کسی بڑی سائنسی ایجاد یا نظریہ کو یوں پیش کر رہے ہوتے ہیں جیسے یہ نظریہ انہی کے کشف کی ایک جھلک ہے اور اصلی سائنسدان بیچارہ اس تک پہنچ تو گیا لیکن مکمل طور پر سمجھنے سے قاصر ہے۔آئیے ہم ایسے دیسی  دانشوروں کو پہچاننے کے لئے ذیل میں چند نقاط پیش کرتے ہیں ۔

سب سے پہلے یہ جان لیں کہ سائنس کیا ہے؟ سائنس ایک ایسا منظم طریقہ کار ہے جس میں کائناتی مظاہر کو ریاضیاتی اصولوں کی مدد سے تھیوری  کی شکل دی جاتی ہے اور ان اصولوں کی بنیاد پر کچھ تجربات  تجویز ہوتے ہیں جنہیں تجربہ گاہ میں آلات کی مدد سے ترتیب دیا جاتا ہے۔سر آئزک نیوٹن کی کتاب “Mathematical Principles of Natural Philosophy” کے مطابق:

For since the qualities of bodies are only known to us by experiments, we are to hold for universal for all such as universally agree with experiments; and such as are not liable to  diminution can never be taken away. We are certainly not to relinquish the evidence of experiments for the sake of dreams and vain fictions of our own devising…”

(sir Isaac Newton, Principal Mathematica Naturalis Philosphia,Book three,Page 398,University of California Press)

اگر کسی بھی تھیوری کی پیش گوئی تجربے سے ثابت ہوجائے تو اسے سائنسی سند حاصل ہوجاتی ہے۔سائنسی زبان میں پیدا شدہ علم کو عوام کے لئے قابل تفہیم بنانے کے لئے سماج میں رائج زبان کا سہارا لیا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اکثر لوگ عام زبان کے لفظ جب سائنسی نظریے کے لئے استعمال کرتے ہیں تو اکثر وہ اسکی گہرائی اور اصل معانی تک نہیں پہنچ پاتے۔بالخصوص اگر سائنسدان نے کوئی سائنسی اصطلاح اپنی مقامی زبان و ادب سے اخذ کی ہے تو اس کا ترجمہ ہماری زبان میں کرنا مشکل ہوتا ہے۔جیسے کہ Superposition  کی اصطلاح کا مطلب بالائی مقام نہیں ہے یا String Theory کا مطلب دھاگے کا نظریہ نہیں ہے۔ایسے ہی Entanglement, Wave function, Stem Cell وغیرہ ۔اس مسئلے کی ٹھیک نشاندہی کوانٹم فزکس کے بانی ورنر ہائیزنبرگ نے اپنی کتاب  میں کر دی تھی۔ ایک جگہ وہ عام زبان کا سائنسی زبان سے تقابلی جائزہ پیش کرتے ہوئے ریاضی کی اہمیت پر  لکھتے ہیں:

It is obvious that the concepts of ordinary language, inaccurate and only vaguely defined as they are, could never allow such derivations. When a chain of conclusions follows from given premises, the number of possible links in the chain depends on the precision of the premises. Therefore, the concepts of the general laws must in natural science be defined with complete precision, and this can be achieved only by means of mathematical abstraction.

(Werner Heisenberg, Physics and Philosophy, Page 117)

اب آپ ان دیسی فلسفیوں کے اقتباسات کا جائزہ لیں  تو معلوم ہوگا کہ وہ اکثر سائنسی اصطلاح کا جو معنی استعمال کر رہے ہیں وہ خالص ریاضیاتی شکل میں ایک او ر ہی شے کا نام ہے۔آپ ان کی سائنسی چہ مگوئیاں دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ وہ جس شے کو سائنس بنا کر پیش کر رہے تھے وہ نہ تو سائنسی تھیوری کے معیار پر پورا اترتی ہے اور نہ اس کے لئے کوئی تجربہ یا مشاہدہ پیش کیا گیا ہے۔ اکثر اوقات کچھ سائنسدان بھی ایسے بیانات جاری کرتے ہیں جن کے لئے ان کے پاس بھی کوئی کافی مواد یا سائنسی شہادت موجود نہیں ہوتی۔اکثر یہ کام فلسفہ زدہ سائنسدان کرتے ہیں۔یا پھر دیگر فلسفی جو سائنس کے بارے تجزیہ کرتے ہیں جیسے کارل پوپر، ہلری پٹنم، تھامس کوہن وغیرہ۔ اسی لیے ایسے لوگوں کے بیانات دیسی فلسفیوں کے لئے اچھا  ہتھیار ہوتے ہیں۔

سائنسدان جب سائنسی تحقیق کر رہا ہوتا ہے تو وہ اسی انداز فکر اور اصولوں کو استعمال کرتا ہے جو ساری دنیا میں رائج ہیں۔ وہ اگر اپنا کوئی نیا نظریہ پیش کرتا ہے تو اس کے لئے ریاضیاتی اصولوں کا ایک نظام بھی پیش کرتا ہے جیسے کہ آئن سٹائن  نے نظریہ اضافیت پیش کرتے وقت Lorentz Transformations اور بعد ازاں Riemannian Algebra کو استعمال میں لاکر اپنے خیال کو ایک سائنسی شکل میں پیش کیا جسے  تجربے سے ثابت کیا گیا۔اب جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ قرآن میں سائنس موجود ہے تو وہ اس سائنس کو ریاضیاتی مساواتوں کی شکل میں دریافت کریں اور مغربی سائنس کو منہ توڑ جواب دیں۔ لیکن گزشتہ کئی صدیوں سے ایسا نہیں ممکن ہوا۔ حالانکہ دنیا میں اس وقت ڈیڑھ ارب مسلمان ہیں اور ستاون کے قریب مسلم ممالک ہیں۔ اسی طرح ان ممالک میں بے شمار جامعات ہیں۔ علماء کی تعداد تو بے بہا ہے۔بہت سے سائنسدان مسلم ہیں۔ پاکستان میں بھی بہت سے انتہائی قابل مسلم سائنسدان ہیں۔ لیکن آج تک کسی نے قرآن میں سے کوئی نیا سائنسی نظریہ یا ایجاد پیش نہیں کی۔ ہمارے دیسی فلسفی جو کہ سائنسی مہارت کے دعوے دار ہیں وہ بھی آج تک کسی ایک سائنسی نظریہ کا جواب سائنسی انداز میں نہیں دے پائے لیکن وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ تو ہمارے اسلاف نے پہلے ہی سے دریافت کر لیا تھا۔ اسلاف کا زمانہ جو کہ اب صدیوں پرانا ہوچکا ہے وہ تھا جب سائنس بھی ابھی اس قدر ترقی نہیں کر پائی تھی۔ اگر نیوٹن یونانی فلسفے اور مسلم مفکرین کے فائدے اٹھا کر کیلکولس ایجاد کر سکتا تھا تو یہی کام آج ہمارے بڑے بڑے ذہین مسلم مفکرین کاپنے مذہبی استدلال سے سائنسدان  کیوں نہیں کر پاتے؟ اس کا جواب سادہ سا ہے کہ سائنس کو قرآن میں نہ ڈھونڈا جائے اور سائنسی نظریات کو مذہبی تعبیرات سے الگ رکھا جائے۔سائنس کا ذریعہ حواس ہیں اور ریاضی انہی حواس سے حاصل شدہ مواد کو سمجھنے کا ذہنی عمل ہے۔اور دیسی فلسفیوں کے برعکس حقیقی سائنسدان جو کہ اگرچہ مسلم بھی ہوں وہ جانتے ہیں کہ سائنس کا طریقہ کار اور میدان کار کیا ہے۔یہاں مجھے کانٹ کا یہ جملہ یاد آرہا ہے:

“The enlargement of insight in mathematics and the possibility of newinventions extends to infinity; equally the discovery of new properties ofnature, new forces and laws, by continued experience and unification ofit by reason. But none the less we must not fail to see limits here, formathematics only bears on appearances, and what cannot be an objectof sensible intuition, such as the concepts of metaphysics and morals,lies quite outside its sphere.”

 

(Kant, Prolegomena to any Future Metaphysics that will be Able to Present Itself as a Science)

 

مشہور برطانوی فلسفی برٹرینڈ رسل اس معاملے میں زیادہ شدت سے زور دیتے تھے کہ سائنسی تحقیق کی ترقی میں مذہبی یا اخلاقی  قضیات کو برتری دینے   سے نقصان ہوتا ہے۔حتٰی کہ وہ تو فلسفے کو بھی ثانوی حیثیت دیتے تھے۔  اپنے ایک مضمون میں وہ لکھتے ہیں:

It is my belief that the ethical and religious motives in spite of thesplendidly imaginative systems to which they have given rise, have beenon the whole a hindrance to the progress of philosophy, and ought nowto be consciously thrust aside by those who wish to discover philosophicaltruth. Science, originally, was entangled in similar motives, and wasthereby hindered in its advances. It is, I maintain, from science, ratherthan from ethics and religion, that philosophy should draw itsinspiration۔”

(Mysticism and Logic, Chapter 6, Page 74)

دوسرا اہم مسئلہ یہ ہے کہ دیسی فلسفی  یہ غلط فہمی پیدا کرتے ہیں کہ سائنس تو ناقابل اعتماد علم ہے کیونکہ سائنس تو خود اپنی بنیادیں گراتی رہتی ہے اور ہر نیا آنے والا نظریہ پچھلے والوں کو غلط ثابت کر دیتا ہے۔یہ ایک انتہائی سادہ لوح تعبیر ہے جس کا سائنسی طریقہ کار سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ سائنس نے کبھی اپنے مسلمہ نظریات کو غلط نہیں کہا۔ سائنس ہمیشہ ترقی پذیر رہتی ہے۔ لیکن چونکہ سائنس کا تعلق مشاہدے سے ہے جو کہ ہر نئے دور میں آلات کی بہتری کی وجہ سے بہتر ہوتے  رہتے ہیں لہذا سائنسی نظریات میں ارتقاء کا عمل جاری رہتا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہ لیا جائے کہ پرانا نظریہ اب منسوخ ہوچکا ہے۔ مثال کے طور پر نیوٹن کے قوانین حرکت آج بھی قابل عمل ہیں۔ انجینئر آج بھی انہی قوانین کی بنیاد پر عمارتیں تعمیر کرتے ہیں، گاڑیاں انہی قوانین پر چلتی ہیں، خلاباز انہی قوانین کی مدد سے خلا میں سفر کرتے ہیں وغیرہ۔ لیکن چونکہ نیوٹن کے بعد آلات مشاہدہ نے ترقی کی اور ہم مادے کی تقسیم سے ایٹموں پر تجربات کے قابل ہوئے تو معلوم ہوا کہ نیوٹن کے قوانین کی ایک حد ہے اور اب نئے قوانین دریافت ہونے چاہیئں جنہیں کوانٹم فزکس نے دریافت کر لیا۔لیکن کوانٹم کے نظریات سے نیوٹن کے کلاسیکی نظریات  یکسر منسوخ نہیں ہوئے بلکہ ان میں بہتری آئی۔ یہ دیکھیے کہ کوانٹم فزکس کی درستگی ابھی بھی نیوٹن کی کلاسیکل میکانیات کی محتاج ہے۔اسی طرح نظریہ ارتقاء میں بھی ڈارون کے بعد جو بہتری آئی اس سے ڈارون کو یکسر مسنوخ نہیں کیا جاسکتا۔ دراصل سائنس درجہ  بدرجہ ترقی کرتی ہے اور کسی بھی لمحے مکمل یا مطلق علم کا دعوٰی نہیں کرتی۔ یہی وجہ ہے کہ سائنس عقل کے لئے نئی راہیں تلاش کرتی ہے اور انسانی علم میں ترقی ہوتی ہے۔اب آپ ان دیسی فلسفیوں کے بیانات کو دیکھیں کہ انہوں نے سائنسی ترقی کو سمجھا اور اس عمل سے واقف ہیں؟

تیسرا ایک مسئلہ یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ دیسی فلسفی کسی بھی شخص کی علمی و سائنسی حیثیت متعین کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ہمیں پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ سائنسدان کسے کہتے ہیں اور کیسے کسی سائنسدان کے کام کو حقیقی یا  قابل تعریف سمجھا جاتا ہے۔ابھی تک جتنی بھی سائنس نے ترقی کی ہے وہ ایک خاص طریقہ کار پر ہوتی ہے جس کا ذکر پہلے کیا گیا ہے۔ یعنی ایک شخص سائنسی نظریات کا مطالعہ کرتے وقت  اس میں پوشیدہ ریاضیاتی اصولوں پر مہارت حاصل کرتا ہے۔ اس کے بعد وہ اپنی نئی فکر کی تشکیل کرتا ہے۔ اس عمل میں وہ اپنا نیا خیال کسی ریاضیاتی قضیے یا مسئلے سے اٹھاتا ہےاور پھر اسے بنیادی ریاضیاتی اصولوں کی روشنی میں  اخذ کرتا ہے۔اگر اس کا نتیجہ کسی بنیادی اصول سے اختلاف کر رہا ہو تو اپنی یہ مشق جاری رکھتا ہے حتیٰ کہ وہ ان نئے قضیے یا مسئلے کا حل تلاش کر لیتا ہے ۔

یاد رہے کہ یہ نیا حل پرانے حل شدہ مسئلوں کی تصدیق کرتا ہو۔ کیونکہ ارتقائی عمل میں ماضی اور حال کا اجتماع ہوتا ہے جس سے مستقبل کے لئے پیش گوئی کی جا سکے۔یہ سارا کام پھر وہ اپنے میدان کے اکابرین کے سامنے لاتا ہے اور ان کے سوالات کا تشفی  بخش جواب دیتا ہے۔ جس کے بعد اس کا یہ نیا کام ایک تحقیقی جریدے میں شائع ہوتا ہے۔ یہ جریدہ دنیا بھر کے سائنسدانوں تک پہنچتا ہے اور وہ اس نئے کام کی تصدیق کرتے ہیں۔ یوں ایک نیا نظریہ سامنے آتا ہے جسے تجربے کی کسوٹی پر پرکھا جاتا ہے۔تجرباتی سائنس میں ریاضیاتی کام مختصر ہوتا ہے لیکن چونکہ اس کام  میں سائنسدان براہ راست مظاہر فطرت سے نبردآزما ہوتا ہے لہذا وہ جلد کسی دریافت تک پہنچ جاتا ہے۔اور پھر انجینئر اس دریافت کو کسی تکنیکی آلے میں ڈھال دیتے ہیں۔یہ سارا عمل ایک ہی شخص انجام نہیں دیتا۔ لہذا ہر مرحلے کو مزید تقسیم کیا جاتا ہے جس سے سائنس کے مختلف شعبے وجود میں آتے ہیں۔ اب کسی سائنسدان کی حیثیت متعین کرتے وقت لازم ہے کہ اس کے اپنے شعبے میں دیکھا جائے کہ وہ کس قدر مہارت رکھتا ہے۔جیسے ایک آنکھوں کا ڈاکٹر دل کے امراض کا آپریشن نہیں کرتا لیکن پھر بھی ہم اسے ڈاکٹر مانتے ہیں۔ایسے ہی ایک سائنسدان کی عظمت یہ نہیں کہ وہ ہر شعبے میں ماہر ہو۔لیکن ہمارے دیسی فلسفی ایسے کسی کٹھن مرحلے سے نہیں گزرتے۔ اور خود اپنے شعبے میں بھی ماہر نہیں ہوتے باوجود اس کے وہ عظیم سائنسدانوں کی سائنسی عظمت کا اندازہ لگا رہے ہوتے ہیں۔اور ساتھ یہ بھی چاہتے ہیں کہ سائنسدان ہر شعبے میں ان ہی کی اپنی روش کے مطابق ٹانگ اڑاتا پھرے۔پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ممالک میں معیاری تحقیق اور سائنسی فکر کا شدید فقدان ہے۔اگرچہ کچھ بڑے نام ملتے ہیں لیکن نایاب ہیں۔ایسے ہی ایک نادر و مثالی سائنسدان پرویز امیر علی ہودبھائی ہیں۔جنہوں نے نہ صرف خود سائنسی میدان میں بڑا نام پیدا کیا بلکہ بہت سے مفاد پرست لوگوں کے برعکس اپنے وطن میں رہ کر کئی نسلوں کی رہنمائی کی اور انہیں سائنسی تحقیق و تعلیم کے رستے پر لگایا۔

پرویز ہودبھائی کی پیدائش 11 جولائی 1950ء کو کراچی کے ایک متوسط گھرانے میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم کراچی گرامر سکول سے حاصل کی ۔ بعد ازاں دنیا کی سب سے مشہور جامعہ ایم آئی ٹی سے 1973 میں دو عدد مضامین یعنی ریاضی اور الیکٹریکل انجینئرنگ   میں بیچلر کیا۔اس کے ساتھ ہی سالڈ سٹیٹ فزکس میں ماسٹر کیا۔ بعد ازاں 1978ء میں ایم آئی ٹی ہی سے نیوکلئیر فزکس میں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔پرویز صاحب دنیا کی مختلف جامعات جیسے واشنگٹن یونیورسٹی، کارنیگی میلن، ایم آئی ٹی، سٹینفورڈ،میری لینڈ ، پرنسٹن یونیورسٹی اور ڈاکٹر عبدالسلام کے قائم کردہ مرکز برائے نظری طبیعات اٹلی سے مختلف حیثیتوں میں منسلک رہے۔37 سال انہوں نے پاکستان کی عظیم جامعہ قائداعظم میں تدریسی فرائض سرانجام دیے۔فزکس کے میدان میں عظیم ترین  سائنسدانوں کی تحقیق جن مجلوں میں شائع ہوتی ہے ان میں بطور ریفری (Referee) بھی کام کرتے ہیں۔وہ  حکومت پاکستان  کے تعلیمی ایڈوائزری بورڈ کے ممبر بھی رہے ہیں۔ 1968ء میں انہیں الیکٹرانکس کا عظیم انعام یعنی بیکر ایوارڈ ملا۔ 1984ء میں ریاضی کے مضمون میں عبدالسلام ایوارڈ ملا۔ انکی سائنسی تحقیق زیادہ تر نیوکلیئر فزکس اور ذراتی طبیعات میں رہی۔ان کے دیے ہوئے فزکس کے لیکچر آج بھی  نئے محققین کے لئے مشعل راہ کا کام کر رہے ہیں۔

انکی تحقیق ایسے عظیم جریدوں میں شائع ہوئی ہے کہ جہاں ہمارے دیسی فلسفی قدم تک نہیں رکھ سکتے۔مثال کے طور پر فزیکل ریویو لیٹرز (Physical Review Letters) جیسے بڑے سائنسی جریدے میں نہ صرف پرویز صاحب کی تحقیق شائع ہوئی بلکہ یہ اس جریدے میں بطور ریفری  بھی کام کرتے ہیں۔ یہ کہنا کہ انکی بڑی ایجاد کیا ہے؟ ایک بھونڈا سوال ہے۔ کیا دنیا میں ہزاروں عظیم سائنسدان ہر وقت نئی ایجاد کر رہے ہیں؟ اب ہر کسی کو آئن سٹائن کے درجے  پر تو فائز نہیں کیا جا سکتا۔ انکے اپنے شعبے میں دیکھیں کہ باقی سائنسدانوں میں ان کا کیا مقام ہے۔ انکے پرچے کس قدر اصلی و حقیقی تحقیق پر مبنی ہیں۔ ایک دیسی فلسفی کو ایک مجلس میں کہتے ہوئے سنا  کہ پرویز ہودبھائی کو چوتھی ڈائیمینشن کا نہیں پتا جو کہ اوسپنسکی نے سمجھائی تھی۔ ایک مشہور ادیب کوانٹم فزکس کا نام  لے کر اپنی فتح کا علم یوں بلند کر رہے تھے جیسے کہ انہوں نے ساری زندگی کوانٹم فزکس کی گتھیاں سلجھا کر سائنس پر احسان عظیم کیا ہو۔یہ سوالات پرویز ہودبھائی سے کرنے کی اہم وجہ یہ ہے کہ ایک شخص جس نے فزکس کا مطالعہ نہیں کیا اور ریاضی سے واقف نہیں ہے وہ ایسے الفاظ سن کر حیران ہوتا ہے اور سمجھتا ہے کہ یہ آئن سٹائن  یا سائنس کا  کوئی ایسا معرکہ ہے جو صرف انہی کو سمجھ آسکتا ہے جو خود کو فلسفی سمجھتے ہیں۔ آئن سٹائن نے اپنی ایک کتاب “اضافیت: خصوصی و عمومی” میں خود بھی یہی خدشہ ظاہر کیا ہے:

“The non-mathematician is seized by a mysterious shuddering when he hears of “four-dimensional” things, by a feeling not unlike that awakened by thoughts of the occult. And yet there is no more common-place statement than that the world in which we live is a four-dimensional space-time continuum.”

(Relativity: Special and General Theory, Chapter 17, Page 52)

سٹیفن ہاکنگ نے چوتھی ڈائمینشن کے حوالے سے اپنی مشہور زمانہ تصنیف “وقت کی مختصر تاریخ” میں  کس قدر احتیاط سے لکھا :

“It is often helpful to think of the four coordinates of an event as specifying its position in a four-dimensional space called space-time. It is impossible to imagine a four dimensional space. I personally find it hard enough to visualize three-dimensional space.”

(Stephen Hawking, A Brief History of Time, Chapter 2)

جو مسئلہ عہد حاضر کے عظیم سائنسداں سٹیفن ہاکنگ  بھی نہ سمجھ سکے، ہمارے دیسی فلسفی اسکا  بھی مکمل  فہم رکھنے کا دعوٰی کرتے ہیں!

پرویز ہود بھائی

اسی لیے جب سٹرنگ تھیوری کا  سوال کیا گیا تو ہود بھائی نے کہا میں اس کے بارے میں زیادہ نہیں جانتا۔  پہلے تو سوال یہ بنتا ہے کہ  ہمارے  فیسبکی موصوف نے خود سٹرنگ تھیوری میں کتنے پرچے لکھے ہیں؟ مجھے یقین ہے پرویز ہودبھائی جیسا عظیم سائنسدان تو بہت بہتر سٹرنگ تھیوری جانتا ہے ۔وہ الگ بات کہ سٹرنگ تھیوری انکا شعبہ نہیں اس لئے وہ اس کے ماہر ہونے کا دعوٰی نہیں کرتے۔لیکن اس کے بنیادی ریاضی سے جو واقفیت ہودبھائی کی ہوسکتی ہے وہ ہمارے دیسی فلسفی سے بہت اوپر کا معاملہ ہوگا۔ہم چاہیں تو اس پر بھی دیسی فلسفیوں سے مکالمہ کر سکتے ہیں لیکن پرویز صاحب ہی کی مانند ہم بھی اس سے قطع نظر ہی کر سکتے ہیں۔

دوسری بات یہ کہ جب ایک ایسا شخص جس کو بنیادی سائنس میں کوئی ڈگری نہیں ملی اور نہ سائنسی جریدوں میں پرچے لکھے ہیں وہ کوانٹم فزکس، آئن سٹائن، اوسپنسکی، رسل اور وائیٹ ہیڈ کا ذکر کرتے ہوئے سائنس پر اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہے تو کیا ایک سائنسدان کو حق نہیں کہ وہ ان سائنسی بیانات پر اپنی رائے پیش کرے؟  سائنسی بیانات پر رائے دینا کیا صرف دیسی فلسفیوں کا کام ہے؟ ایک جینوئن معروف سائنسدان اس پر کچھ نہ کہے؟ اور کیا آپ اس قابل ہیں کہ پرویز ہودبھائی کی سطح کی سائنس کر سکیں اور ان کے ساتھ مکالمہ کر سکیں؟ کیا یہ آپ کا دعوٰی ہے یا کوئی ٹھوس شہادت بھی ہے؟ آپ کی سائنسی حیثیت کے لئے کیا ثبوت ہے ؟ آپ جب چاہیں غیر سائنسی ادیبوں اور شاگردوں میں سائنس کی غلط تفہیم کرتے رہیں؟ اگر آپ یہ حق اپنے لیے محفوظ رکھتے ہیں تو پھر ایک حقیقی سائنسدان کو بھی یہ حق ہے کہ وہ سائنس کا دفاع کرے اور سائنسی بیانات دینے والوں کی گرفت کرے۔اسی ضمن میں  مجھے آئن سٹائن ہی کی ایک اور بات یاد آگئی جس میں وہ یہ بتاتے ہیں کہ کیسے ایک حقیقی سائنس دان کا اندازفکر اسے مختلف موضوعات پر گفتگو کرنے پر اکساتا ہے۔اپنے ایک مضمون میں وہ کہتے ہیں:

The whole of science is nothing more than a refinement of everyday thinking. It is for this reason that the critical thinking of the physicist cannot possibly be restricted to the examination of the subjects of his own specific field. He cannot proceed without considering critically a much more difficult problem, the problem of analyzing the nature of everyday thinking.”

(Physics and Reality, Trans. By Jean Piccard, Page 349)

The whole of science is nothing more than a refinement of

بہرحال ! آخر میں اتنا کہوں گا کہ ہم آئندہ جب بھی کسی سائنسی نظریے یا شخصیت  کے بارے میں رائے قائم کرنا چاہیں تو ایمانداری کا مظاہرہ کریں۔ جس شعبے میں آپ کی مہارت نہیں ہے اس میں خاموشی اختیار کریں جیسا کہ پرویز صاحب نے سٹرنگ تھیوری کے معاملے میں خاموش رہ کر اپنی علمی حیثیت کا مظاہرہ کیا ہے۔اپنی سیاسی وابستگی اور مصنوعی پراپیگنڈوں سے قوم کو محفوظ  رکھیں ۔ اپنے  حقیقی ہیروز کی قدر کریں ۔ سائنس ہر طرح کے مذہب، رنگ، نسل  اور علاقے سے آزاد ہو کر کائنات کو جاننے کا کام کرتی ہے۔ آپ بھی اپنا ظرف بلند کریں۔اپنی کم عقلی اور سائنسی  فہم کی کمی سے پیدا ہونے والے احساس کمتری کو مذہب یا سیاست کی آڑ میں نہ چھپائیں۔سائنس اور مذہب میں جھگڑا نہیں  ہوتا اگر دونوں اپنے اپنے میدان میں رہ کر کام کریں۔جان بوجھ کر سائنسی علم کو لادینیت کا منبع قرار دینے والی سوچ کی عکاسی نہ کریں۔امام الغزالی نے اس رجحان کی نشاندہی صدیوں پہلے کر دی تھی اور میرے خیال میں یہ دیسی فلسفی اپنے اسلاف سے بھی کچھ نہیں سیکھ پاتے۔ امام نے اپنی مشہور زمانہ کتاب “تہا فت الفلاسفہ” دیباچہ دوئم میں واضح طور پر (اس وقت کی )سائنس اور مذہب کو الگ الگ رکھنے کی بات کی ہے۔ انہوں نے لکھا:

“We are not interested in refuting such theories either;for the refutation will serve no purpose. He who thinksthat it is his religious duty to disbelieve such things is reallyunjust to religion, and weakens its cause. For these thingshave been established by astronomical and mathematical

evidence which leaves no room for doubt.”

(Incoherence of the Philosophers, Al-Ghazali, Page 4)

Advertisements
julia rana solicitors

سائنس بذات خود ایک اہمیت کی شے ہے اور اپنے خودکار طریقے پر عمل کرتے ہوئے نت نئی  دریافتیں کرتی ہیں ۔اس کو دیگر سماجی ، سیاسی یا مذہبی عوامل کی بھینٹ چڑھا کر سائنسی زوال درپیش ہوتا ہے۔ابھی ہماری قوم ان بڑے فلسفوں کی متحمل نہیں   ہوسکتی جو عوام میں سائنس کی مقبولیت کو نقصان دیتے ہیں۔خدارا ذہن کو وسعت دیں ۔اگر آپ کی دلچسپی واقعی سائنس سے ہے تو حقیقی سائنسدانوں کی قدر کریں اور ان سے سیکھنے کی کوشش کریں۔ سائنس  کی ترقی میں معاون بنیں تاکہ ہم بھی دنیا میں فخر سے رہ سکیں!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply