میجر براؤن اور جنگِ آزادی کے حقیقی ہیروز ۔۔۔رینچن لوبزانگ

ایک گروپ میں گلگت بلتستان کی آزادی بارے ایک متنازعہ پوسٹ شائع ہوئی جس میں گلگت بلتستان کے  پاکستان کے زیرِ  انتظام آنے کا کریڈٹ میجر براؤن کو دینے کی کوشش کی گئی تھی ۔ریکارڈ کی درستگی کے لیے وضاحت ضروری سمجھتا ہوں ۔گلگت بلتستان کوئی پلاٹ نہیں تھا جس کو میجر براؤن اور میتھیسن نے پاکستان کو الاٹ کردیا ہو۔بلکہ یہ پینتیس ہزار مربع میل پر محیط(سات ہزار مربع میل 62، 71 اور 84 میں چھن گیا ہے جس میں شقسکم (چین) تورتک ،تھنگ ،ٹیاقشی ،چھولنکھا،سیاچن گلیشیر کا بڑا حصہ (انڈیا) دنیا کی بلند ترین پہاڑی چوٹیوں اور قطبین کے بعد سب سے بڑے گلیشیئرز کی سرزمین ہے جس کے چپے چپے پر اس وقت ڈوگرہ فوج تعینات تھی ۔ اکثر لوگ گوگل کرکے یا صرف میجر براؤن کی کتاب The Gilgit Rebellion پڑھ کر آخری فیصلوں پر پہنچ جاتے ہیں جو کہ تضادات سے بھرپور کتاب ہے ۔یہ شخص گلگت سکاؤٹس کا آخری کمانڈنٹ تھا جس کے دیگر تمام افسر و جوان مقامی یعنی گلگت بلتستان سے تھے جو مہاراجہ ہری سنگھ کی جانب سے جموں و کشمیر گلگت بلتستان لداخ کی بھارت سے الحاق کی صورت میں بغاوت کا منصوبہ پہلے سے ہی تیار کیے بیٹھے تھے ۔ان کے روح رواں سکستھ جموں و کشمیر انفنٹری کے کرنل حسن خان ،میجر محمد دین ،میجر محمد افضل ،گلگت سکاؤٹ کے کیپٹن حیدر ،صوبیدار میجر بابر خان ،لیفٹننٹ شاہ خان وغیرہ تھے ۔گلگت سکاؤٹس نے انگریز کمانڈنٹ میجر براؤن پر پہلے دن ہی حلف کے وقت واضح کردیا تھا کہ وہ مہاراجہ کے وفادار نہیں ہیں اور اس کی جانب سے انڈیا سے الحاق کی صورت میں جنگ آزادی شروع ہوجائے گی۔

یہی وجہ تھی کہ جب چھبیس اکتوبر 1947 کو وہ مرحلہ آیا اور مہاراجہ نے انڈیا کو الحاقی خط لکھا تو میجر براؤن کو چار و ناچار وہی کرنا پڑا جو اسکی سکاؤٹ کے جوانوں،افسروں اور پورے خطّے کے عوام کی دلی خواہش تھی۔گلگت سکاؤٹ نے مہاراجہ جموں و کشمیر کے گورنر شمالی صوبہ گلگت و لداخ بریگیڈئیر گھنسارا سنگھ کو یکم نومبر 1947 کو گرفتار کرلیا اور اسکے ساتھ ہی جنگ آزادی شروع ہوگئی جو یکم جنوری 1949 کی اقوام متحدہ کے تحت سیز فائر تک جاری رہی جس کے دوران مجاہدین نے موجودہ گلگت بلتستان کے دس اضلاع کے علاوہ کارگل ،لداخ ،زنسکار زوجیلا دراس تک فتح کرلیا تھا یہاں تک کہ سری نگر کے قریب وولر جھیل تک مجاہدین پہنچ گئے تھے کہ سیز فائر ہوگیا ۔یعنی کہ جنگ آزادی گلگت بلتستان کوئی ایک دو دن یا ماہ نہیں بلکہ چودہ ماہ تک جاری رہا تھا جس کے دوران تقریباً اکیاسی ہزار مربع میل علاقہ آزاد کرایا گیا تھا جس میں میجر براؤن کا کوئی کردار نہیں تھا ۔وہ تو محض گلگت میں انگریزوں کے آخری جاسوس کا کردار نبھا رہے تھے اور جنگ آزادی شروع ہونے کے ایک ماہ کے اندر ہی گلگت سے چلے گئے تھے ۔اگر انگریزوں کو گلگت بلتستان پاکستان کو دینے کی اتنی ہی خواہش ہوتی تو وہ گلگت ایجنسی کو واپس مہاراجہ کے حوالے ہی نہ کرتے اور یوں مسلم اکثریت کی بنا پر خود بخود پاکستان میں شامل ہوجاتا ۔

 

حقیقت یہ ہے کہ میجر براؤن کو میڈل تاج برطانیہ نے گلگت بلتستان پاکستان کے حوالے کرنے کے عیوض نہیں بلکہ مسئلہ جموں و کشمیر کو برصغیر کے سینے میں سلگتا ہوا چھوڑنے اور چین و روس کے خلاف انگریزوں کے مفادات کے تحفظ میں کردار ادا کرنے پر دیا گیا تھا ۔جبکہ پاکستان کی جانب سے بھی اس کو سرکاری اعزاز سے نوازنا “غیروں پہ کرم اپنوں پہ ستم” کی عملی مثال ہے جس میں میجر براؤن کی جانب سے گلگت میں بدلے ہوئے حالات دیکھتے ہوئے  کریڈٹ لینے کی خاطر پاکستان کو اپنی جانب سے ٹیلیگرام بھیجنے، کرنل حسن خان اور دیگر مجاہد افسروں کی پاکستانی پولیٹیکل ایجنٹ کے سامنے کردار کشی کا بھی بڑا ہاتھ ہے ۔اس مکار شخص نے یہ الزام بھی لگایا تھا کہ حسن خان اور انقلابی کونسل گلگت کو شیعہ ریاست بنانا چاہتے ہیں ۔جس کی اس وقت کے اہل سنت علما نے خود پُرزور تردید کی ہے جبکہ ڈوگرہ گورنر گھنسارا سنگھ نے خود اپنی سوانح میں کرنل حسن خان کی پاکستان سے وفاداری کی تصدیق کی ہے ۔مگر پاکستانی حکمرانوں کو منافق اور سازشی انگریز میجر براؤن پر تو اعتبار ہے مگر کھرے اور سچے مجاہد کمانڈرز کی قربانیاں ان کی نظر میں درخور اعتنا ٹھہری ہیں ۔

میں سمجھتا ہوں کہ اگر میجر براؤن کو آپ بھلے تمغے دے دیتے مگر اس کے ساتھ اگر چودہ ماہ تک میدان جنگ میں لڑنے والے کرنل حسن خان ،کرنل احسان علی اور گورنر ہاؤس پر پاکستانی جھنڈا لہرانے والے صوبیدار میجر بابر خان کو بھی انکا حق ملتا تو انصاف اور دوست شناسی ہوتی ۔

Advertisements
julia rana solicitors

میری نظر میں جنگ آزادی کے حقیقی ہیروز کو نظر انداز کرکے میجر براؤن کو سارا کریڈٹ دینا گلگت بلتستان کی آزادی کے حقیقی ہیروز ،مجاہدین اور حریت پسند عوام کی توہین ہے ۔

 

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply