• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • مولانا فضل الرحمن کیجانب سے عمران خان کو 2 دن میں مستعفی ہونے کی مہلت کیوں؟۔۔۔ غیور شاہ ترمذی

مولانا فضل الرحمن کیجانب سے عمران خان کو 2 دن میں مستعفی ہونے کی مہلت کیوں؟۔۔۔ غیور شاہ ترمذی

مولانا فضل الرحمن نے آزادی مارچ میں یکم نومبر جمعہ والے دن اپنی افتتاحی تقریر میں وزیراعظم عمران خان کو صرف 2 دن کی مہلت دی ہے کہ وہ مستعفی ہو جائیں ورنہ آزادی مارچ کے شرکاء خود وزیر اعظم ہاؤس میں گھس کر انہیں گرفتار کر لیں گے- عمران خان  کو ہٹانے کےمطالبہ پر متحدہ اپوزیشن کی رہبر کمیٹی اجلاس میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری, سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف, مسلم لیگ نون کے احسن اقبال, پختونخوا  ملی عوامی پارٹی کے محمود خان  اچکزئی, عوامی نیشنل پارٹی کے میاں افتخار حسین اور زاہد خان , جمعیت علمائے اسلام کے اکرم درانی اور دوسرے راہنماؤں کی موجودگی میں بھی اسی پر مکمل اتفاق کیا گیا- مولانا 25 جولائی 2018ء کے انتخابات کو جعلی اور ڈرامہ قرار دیتے ہیں اور اسی ضمن میں انہوں نے اپنی افتتاحی تقریر میں کہا کہ ہم پاکستان کے اداروں کا استحکام چاہتے ہیں اور وہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ ادارے صرف اپنا کام کریں- جمہوریت, سیاست و حکومت میں مداخلت کرنا چھوڑ دیں- انہوں نے کہا کہ ہم اداروں سے پیار کرتے ہیں اور ان کا احترام کرتے ہیں مگر ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ سیاسی و حکومتی معاملات میں ادارے غیر جانبدار رہیں-

آزادی مارچ میں شرکاء کی تعداد کو لے کر بہت متضاد اطلاعات ہیں- حکومتی ذرائع انہیں اگر چند ہزار قرار دیتے ہیں تو جمعیت علمائے اسلام کے عہدے داران 4 سے 5 لاکھ تک ہونے کا دعوی کرتے ہیں- غیر جانبدار مبصرین کے مطابق دن کے وقت شرکاء کی تعداد 50 سے 70 ہزار کے درمیان تھی مگر رات کو جلسہ کے وقت یہ تعداد 2 لاکھ تک پہنچ چکی تھی- شاید یہ شرکاء وہ تھے جو جلسہ میں شرکت کرنے کے لئے آئے تھے اور اس کے بعد اپنے گھروں یا عزیز, رشتے داروں کے ہاں  واپس چلے گئے- صورت حال یہ ہے کہ رائے ونڈ میں سالانہ تبلیغی اجتماع چل رہا ہے اور اس کا اختتام بھی اتوار تک متوقع ہے- جمعیت علمائے اسلام بلوچستان کے ایک راہنما مختار اچکزئی کا کہنا ہے کہ جیسے ہی سالانہ اجتماع ختم ہوگا ویسے ہی آزادی مارچ کے شرکاء کی تعداد ملین کی حد عبور کر جائے گی- شاید  مولانا فضل الرحمن نے عمران خان کو 2 دن میں مستعفی ہونے کا بیان اسی تناظر میں دیا ہے-

پاکستان کی سیاسی تاریخ کی روشنی میں ممتاز ماہر قانون اور سیاسی راہنما ساجد رضا تھیم ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ “لانگ مارچ  اور دھرنوں سے نہ کبھی حکومتیں گئی ہیں اور نہ جاتی ہیں اور نہ ہی جانی چاہیئں- یہ ایک سیاسی عمل ہے جو رائے عامہ کو بیدار اور منظم کرنے کے لئے کیا جاتا ہے- سطحی ذہن لانگ مارچ کی کامیابی یا ناکامی کو حکومت کے گرنے یا نہ گرنے جیسے پیمانوں سے مشروط کریں گے مگر میری نظر میں یہ مارچ ایک صحتمند سیاسی سرگرمی ہے جو اپنی تکمیل اور اختتام سے قبل بھی ہر لحاظ سے کامیاب رہی ہے- اس نے تبدیلی سرکار کے نئے پاکستان عرف ریاستِ مدینہ میں سیاسی و جمہوری آزادیاں، آزادیءاظہار رائے، میڈیا کی آزادی اور لوگوں کے جلسہ جلوس اور احتجاج جیسے بنیادی انسانی اور آئینی حقوق پر انہیں مکمل ایکسپوز کر دیا ہے- اپنی پہلی تقریر میں اپوزیشن کو دھرنے کے لئے کنٹینر اور کھانا آفر کرنے جیسے اشتعال انگیز متکبرانہ کلمات کہنے والوں کی گھگھی یوں بندھی کہ پھر کنٹینرز سے سڑکیں بلاک کرنے کے بعد ٹی وی کوریج روکنے اور نیٹ ورک جام کرنے سے بھی جب افاقہ نہ ہوا تو نوبت سیاسی کارکنوں اور قائدین کی گرفتاریوں اور شہریت منسوخ کرنے جیسی بھونڈی حرکتوں  تک آ پہنچی- اپوزیشن کو ہر وقت این آر او مانگنے کے طعنے دینے والوں کو مذاکراتی کمیٹی بنانے سے افاقہ نہ ہوا تو آزادی مارچ کو مسئلہ کشمیر کے خلاف سازش قرار دینے والے کشمیر کے سب  سے بڑے حامی سعودی عرب کے سفیر کو بھی میدان میں لے آئے اور مارچ کو انڈیا فنڈڈ کہنے والے مارچ کو رکوانے یا شرکت کم کرنے کے لئے آخری حربے کے طور پر پھر انڈین ایجنسی راء کے حملے کے خدشے کا چورن بھی مارکیٹ میں لے آئے مگر مارچ پھر بھی ہو کر رہا اور ابھی تک جاری ہے اور ہر غیر جانبدار اور دیانتدار مبصر اس میں لوگوں کی معقول تعداد میں شرکت کا قائل ہے”- ایڈووکیٹ ساجد تھیم مزید کہتے ہیں کہ “اگر مولانا کا یہ مارچ نہ ہوتا تو عمران خان  نیازی سرکار 2014 ء میں اپنے “اعلیٰ تقریری آدرشوں” کی بنیاد پر جس بلند مورال گراؤنڈ اور پرنسپل سٹینڈ پر کھڑی نظر آتی تھی یوں اس قدر ننگی کبھی نہ ہو پاتی- جس کو یقین نہ ہو وہ اس دور کی عمران خان  نیازی صاحب کی میڈیا سینسر شپ، احتجاج کے قانونی اور جمہوری حق اور آزادیء اظہار رائے پر مفصّل خطابات سن کر عنداللہ ماجور ہو سکتا ہے”-

یکم نومبر رات گئے ڈائریکٹر جنرل شعبہ تعلقات عامہ پاکستان آرمی جنرل آصف غفور نے مولانا فضل الرحمن کی آزادی مارچ میں افتتاحی تقریر کے بعد بیان دیا کہ مولانا فضل الرحمن سینئر سیاستدان ہیں اور وہ جو کہہ رہے ہوتے ہیں, انہیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں اور اس کا کیا مطلب ہے؟- انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان آرمی کسی سیاسی جماعت کی حمایت نہیں کرتی- بطور ادارہ وہ صرف منتحب جمہوری حکومت کی ہی حامی ہوا کرتی ہے- مولانا کو انتخابات کے نتائج پر جو اختلافات اور شکایات ہیں, ان کے تدارک کے لئے مولانا کو چاہیے کہ انہیں سڑکوں پر حل کرنے کی بجائے متعلقہ اداروں سے رجوع کریں- سیاسی تاریخ کا طالب علم ہونے کی وجہ سے راقم کی رائے ہے کہ آرمی سمیت تمام اداروں کو منتخب عوامی اور جمہوری حکومت کا حامی نہیں بلکہ تابعدار ہونا چاہیے کیونکہ یہی ہمارا آئین کہتا ہے اور یہی الفاظ آرمی کے جنرل اپنا حلف اٹھاتے وقت ادا کرتے ہیں- راقم مگر اس بات پر ضرور حیران ہے کہ آرمی کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے منتخب جمہوری حکومت کا حامی ہونے کی وضاحت دینے والا بیان صرف 2019ء کے آزادی مارچ کے دوران ہی دینے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟- آج سے 5 سال پہلے سنہ 2014ء میں بھی تو ایسا ہی ایک دھرنا عمران خان  کی تحریک انصاف نے بھی دیا تھا, تب تو منتخب جمہوری حکومت کی حمایت میں ایسا کوئی بیان نہیں دیا گیا تھا- تب تو دھرنے کے دوران ناچتے گاتے شرکاء کا لہو گرمانےکے لئے موجودہ وزیر اعظم عمران خان  علی الاعلان امپائیر کی انگلی کھڑی ہونے کا ذکر کیا کرتے تھے- اس وقت شدید ضرورت تھی کہ آرمی کے ڈائریکٹر جنرل شعبہ تعلقات عامہ فوراً ایک بیان جاری کرتے کہ سیاستدان اپنے مسائل متعلقہ فورمز پر حل کریں اور آرمی کو ان میں جج یا امپائیر بنانے کی کوششوں سے گریز کریں کیونکہ آرمی آئین اور قانون کے تحت منتخب جمہوری حکومت کے ماتحت ہے- عمران خان کے دھرنے کے دوران قومی اسمبلی اور سینٹ میں موجود تمام جماعتوں پر مشتمل کمیٹی نے تحریک انصاف کو مذاکرات کی دعوت دی تھی کہ وہ آئیں اور انتخابی اصلاحات میں ترامیم کے ذریعہ مستقبل میں ایسی شکایات کا تدارک کریں مگر نامعلوم وجوہات کی بنیاد پر عمران خاں نے پارلیمنٹ کے ذریعہ ان مسائل کو حل کرنے کی بجائے 126 دن تک دھرنا دئیے رکھنے کو ترجیح دی- یوں متنازعہ انتخابی اصلاحات آج تک ویسے کی ویسی ہی ہیں بلکہ ایک سال پہلے ان ہی متنازعہ انتخابی اصلاحات کی مدد سے آر ٹی ایس سسٹم ڈاؤن کرکے، پری پول دھاندلی کے مختلف حربے اختیار کرکے پی ٹی آئی کو حکومت دی گئی- یعنی یوں کہہ لیں کہ یہ حکومت ‘منتخب’ ہوکر نہیں آئی تھی بلکہ مسلط کی گئی تھی اور اسے مسلط کرنے والے ‘ادارے’ کے وقار کو مجروح کرنے کے ذمہ دار بھی ہیں جیسے جنرل ایوب سے لے کر جنرل مشرف تک نے اس ادارے کی عزت پامال کی-

سیاسیات کی تمام تعریفوں اور دنیا بھر میں رائج جمہوری نظاموں کے حوالے  سے یہ طے ہے کہ سیاست پر بولنا خاکی ترجمان کا کام نہیں ہے- مولانا فضل الرحمن کو اپنے افتتاحی خطاب کے بعد اب یہ بتانے کی ضرورت نہیں رہی کہ وہ کس ‘ادارے’ کی بات کررہے تھے کیونکہ بدقسمتی سے اُس ادارے کا ترجمان خود ہی بُول اٹھا کہ مولانا کے مخاطب وہ خود ہیں- آئی ایس پی آر کے ترجمان کو یہ بتانے کی ضرورت کیوں پیش آئی کہ سیاسی جماعتوں کو اپنے مطالبات کس فورم پر رکھنے ہیں؟- پاکستان میں رائج آئین کے مطابق مُلک میں امن و امان قائم رکھنے کی ذمہ دار سویلین ایڈمنسٹریشن ہے اور ایمرجنسی کی صورت میں اپنی مدد کے لئے رینجرز، ایف سی اور فوج بُلائی جاسکتی ہے – لیکن پاکستان میں پُرامن سیاسی احتجاج اور تحریک چلانے سے اور جلسے جلوس کرنے سے امن کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوتا- اگر پُرامن سیاسی تحریک کو کوئی ناعاقبت اندیش حاکم ریاستی مشینری کے ساتھ کچلنے کی کوشش کرتا ہے تو پھر اُسے اُس کے نتائج بھگتنے کے لئے تیار رہنا ہو گا- موجودہ دور میں میڈیا کو کنٹرول کرنے کے احکامات پیمرا کے ذریعے سے موصول ہوتے ہیں اور ویب میڈیا کو پی ٹی اے کنٹرول کرتا ہے- یہ دونوں ادارے حکومت کے ماتحت ہیں- مولانا کا مخاطب بھی یہی ادارے اور حکومت ہوسکتی تھی لیکن آئی ایس پی آر کے ترجمان کے بیان نے سب کچھ الٹ دیا- کیا وہ بیک ڈور باتیں ٹھیک ہیں کہ پیمرا کی جانب سے میڈیا کو ہدایات جاری کرنے کے پیچھے کوئی اور لوگ ہیں؟- کیونکہ دھواں وہیں سے اٹھتا ہے جہاں آگ لگتی ہے- پاکستان کی اپوزیشن جماعتیں اس ملک کی تمام صوبوں کی نمائندہ جماعتیں ہیں- اسلام آباد کا آزادی مارچ اب صرف مولانا فضل الرحمان کا مارچ نہیں رہا اور نہ ہی حکومت سے مستعفی ہونے اور آزاد و شفاف انتخابات کے انعقاد کا مطالبہ صرف مولانا کا ہے- یہ 9 اپوزیشن جماعتوں اور اس کے ملک بھر میں موجود حامیوں کا احتجاج بن چکا ہے- اس لئے اس آزادی مارچ دھرنے کو طاقت کے ذریعے کچلنے جیسی کسی بھی طرح کی مہم جوئی کا خیال ترک کردینے میں ہی اس مُلک کی بھلائی اور بہتری ہے-

رائے ونڈ تبلیغی اجتماع کے خاتمہ کے بعد اس کے شرکاء کا رخ اسلام آباد میں آزادی مارچ دھرنا کی طرف ہو جانے کے خدشہ کے پیش نظر, مزید برآں مولانا فضل الرحمٰن کی طرف سےحکومت کے مستعفیٰ ہونے کے حوالے سے 2 روز کی مہلت کے بارے میں حکومتی ایوانوں میں اعلیٰ سطح پر غور کیا گیا ہے اور ہر قسم کی صورتحال سے نمٹنے کے لئے اہم فیصلے کیے گئے- حکومت اس بات کا انتظار کرے گی کہ 2 دن بعد مولانا فضل الرحمٰن کس لائحہ عمل کا اعلان کرتے ہیں- یہ تو واضح ہے کہ ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لئے اب تک حکومت نے تمام سکیورٹی اداروں بشمول پولیس، رینجرز اور ایف سی کو الرٹ کر دیا ہو گا جبکہ انتہائی اشد ضرورت میں امن و امان قائم رکھنے کے لئے فوج کو بھی طلب کیا جاسکتا ہے- یہ حقیقت ہے کہ عمران خان حکومت عوام کے روٹی روزگار, غربت, مہنگائی کے گھمبیر مسائل اور عوامی فلاح و  بہبود سے متعلق ترقیاتی کاموں کے معاملہ میں خود سے وابستہ توقعات پر پوری نہیں اُترسکی- نئے ٹیکسوں کے نفاذ, ایک سال میں دو منی بجٹ لانے, ڈالر اور پٹرولیم مصنوعات کے نرخ مسلسل بڑھنے, حکومت کے پہلے قومی بجٹ میں متعدد نئے ٹیکس لگنے اور مروجہ ٹیکسوں میں اضافہ ہونے اور پھر نئے قرضوں کے لئے آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کے حکومتی فیصلوں کے نتیجہ میں عوام کے غربت, مہنگائی, بے روزگاری سمیت روزمرہ کے مسائل کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ گئے ہیں بلکہ الٹا ان میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے- اسی لئے تحریک انصاف اور وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ عوام کے رومانٹسزم میں بھی تیزی سے کمی آ چکی ہے- تحریک انصاف کی یہ سوچ غلط ہے کہ دونوں بڑی اپوزیشن جماعتوں کی قیادت کو جیل میں ڈال کر وہ سیاہ و سفید کا مالک بن چکی ہے، اسے مکمل آزادی حاصل ہے، یا وہ جو چاہے کرے، اسے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے- اس آزادی مارچ دھرنے کی وجہ سے لیکن اب صورتحال بدل چکی ہے- اب جب تک عمران خان  حکومت رہے گی, اسے مولانا فضل الرحمن کی شکل میں ایک ننگی تلوار اپنے سر پر لٹکتی نظر آتی رہے گی- اسے اب عوام کے سامنے جوابدہ بھی ہونا پڑے گا- اس احتجاج کا نتیجہ کچھ بھی ہو، اس میں عام عوام اور مولانا کے لئے بہتری اور بھلائی ہے جبکہ عمران خاں حکومت کے لئے یہ احتجاج ایک ڈراؤنا خواب بن کر مستقل طور پر اس کی نیندیں حرام کرتا رہے گا-

راقم کے دوست عامر ہزاروی آزادی مارچ دھرنے  کے حوالہ سے کہتے ہیں کہ “ابھی یہ طے ہونا باقی ہے کہ آزادی مارچ اسلام آباد H/9 پارک میں ہونا چاہیے  تھا یا اس کا رُخ راولپنڈی کی طرف موڑنا چاہیے؟- مولانا فضل الرحمن نے اپنی ایک گفتگو میں کہا تھا کچھ لوگ ہمیں نصیحت کرتے ہیں کہ طاقتور سے ٹکر لینا عقلمندی نہیں, میں ان کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ طاقتور سے ٹکر لینا ہی تو بہادری ہے- بہادر لوگ طاقت وروں سے ٹکر لیتے ہیں اور خوف زدہ نہیں ہوتے- مولانا نے یہ بھی کہا کہ ہم نے ایک سال اسی لئے صبر کیا کہ بزدل لوگ ہم سے الگ ہو جائیں, ہمارے ساتھ وہی رہیں جو بہادر اور آزادی منش ہیں- مولانا بہادر ہیں اور آزادی منش بھی- مجھے ان کی دلیری پر کوئی کلام نہیں- سوال یہ ہے کہ دھاندلی کون کرواتا ہے؟- کیا دھاندلی عمران خان نے کروائی تھی؟- اگر دھاندلی عمران خان نے نہیں کروائی تو پھر مارچ عمران خان کے خلاف کیوں؟- اس بار روایت بدلنی چاہیے- کوئی مولوی اگر اسٹیبلشمنٹ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کا فیصلہ کر چکا ہے تو پھر مارچ اسلام آباد کی طرف نہیں بلکہ اس کا رخ پنڈی کی طرف موڑ دینا چاہیے- جڑ کو چھوڑ کر شاخ کو پکڑنا بہادری نہیں- عمران خان بھی تو کمزور آدمی ہے- کمزوروں سے ٹکرانا بہادروں کا شیوہ نہیں- اگر مولانا سچ مچ میں طاقت وروں کے خلاف ہو چکے ہیں تو پھر آزادی مارچ بھی پنڈی کی طرف موڑ دینا چاہیے تاکہ دنیا کو پتا چلے کہ مولانا مالکوں کے خلاف نکل پڑے ہیں- اس سسٹم کو ناکارہ بنانے والوں کے خلاف کلمہ حق بلند کر چکے ہیں- وہ یہ فیصلہ کر چکے ہیں کہ ملکی سیاست میں غیر جمہوری قوتوں کا راستہ بند ہونا چاہیے”-

سوال مگر یہ ہے کہ کیا واقعی مولانا فضل الرحمن ایسا کرسکیں گے؟- ہم دیکھ چکے ہیں کہ طاقتور کو للکارنے کے جرم میں نواز شریف کی سیاست کو نقصان پہنچایا جا چکا ہے- انہیں نا اہل کیا گیا, ان سے وزارت عظمی چھینی گئی, انہیں اور ان کی بیٹی کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈالا گیا لیکن ان سب کے باوجود بھی نواز شریف نے کبھی عمران خان کا نام نہیں لیا- وہ کہتے رہتے ہیں کہ عمران خان کی کوئی حیثیت نہیں وہ کٹھ پتلی ہے, اصل فریق خلائی مخلوق ہے- حلانکہ نواز شریف کی نا اہلی کا براہ راست فائدہ عمران خان کو ہوا مگر اس کے باوجود انہوں نے عمران کو مخاطب کرنا مناسب نہیں سمجھا- زیادہ سے زیادہ انہوں نے اپنی عیادت کو آئے ہوئے مولانا طارق جمیل سے یہی کہا کہ دعا کریں کہ کسی کو دشمن بھی کم ظرف نہ ملے- دوسری طرف پیپلز پارٹی کے شریک چیئرپرسن آصف زارداری کا بھی کہنا ہے کہ وہ سول سپریمیسی کی جدوجہد میں کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے- اگر اسٹیبلشمنٹ یہ چاہتی ہے کہ بین الاقوامی دباؤ کی وجہ سے حکومت سیاستدانوں کے سپرد کر دی جائے تو اسے سول سپریمیسی کا معاہدہ کرنا ہو گا- نیز یہ بھی تحریری معاہدہ ہو گا کہ آئندہ منتخب جمہوری حکومت اور سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کبھی مداخلت نہیں کرے گی-

Advertisements
julia rana solicitors

حرف آخر کے طور پر عرض یہ ہے کہ آزادی مارچ دھرنے کے نتیجہ میں عمران خان کا اس ظاہری اقتدار میں رہنا یا نہ رہنا بے معنی بات ہے- اصل تبدیلی تو آصف زرداری کے سول سپریمیسی معاہدہ کرنے پر اصرار اور میاں نواز شریف کی شدید بیماری کے باوجود بھی استقامت سے ووٹ کو عزت دو کے مؤقف پر ڈٹے رہنے کی وجہ سے سول ملٹری تعلقات کے توازن میں پیدا ہوئی ہے اور یہ بات طے ہے کہ اب کھیل کے نئے اصول وضع کرنا پڑیں گے جو اہل سیاست کے لئے بہرحال اتنے یکطرفہ اور ظالمانہ نہیں ہوں گے- بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز شریف بھی کہہ چکی ہیں کہ اس بار “رولز آف گیم” تبدیل کیے بغیر اس کھیل میں انہیں اور ان کی پپارٹی کو اقتدار میں کسی بھی طرح سے حصہ نہیں لینا- اسٹیبلشمنٹ نے ہمیشہ “تقسیم کرو اور حکومت کرو” کے اصول پر کامیابی حاصل کی ہے- اس کا کامیابی سے مقابلہ کرنے کے لئے تمام جماعتوں کی سیاسی قیادت ایک دوسرے کی غلطیاں معاف کر کے آگے بڑھے گی تو ہی سویلین بالادستی کے خواب کو تعبیر مل سکتی ہے وگرنہ اسٹیبلشمنٹ کی چھتر چھایہ میں جس طرح یہ ملک پچھلے 70 سال سے چل رہا ہے, ویسے ہی چلتا رہے گا- یہ درست ہے کہ رائے ونڈ تبلیغی اجتماع کے اختتام پر آزادی مارچ کے شرکاء کی پہلے سے موجود بڑی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہو جائے گا جس کے بعد ہی حکومتی نابغوں کو سمجھ آئے گی کہ مولانا نے وزیر اعظم عمران خاں کو 2 دن میں مستعفی ہونے کی مہلت کیوں دی ہے- مگر اس حقیقت کے باوجود بھی اصل بات عمران خان  حکومت کا خاتمہ نہیں بلکہ سول سپریمیسی کا قیام اور مستقبل میں سیاست, جمہوریت, حکومت اور عدلیہ کو اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت سے ہمیشہ کے لئے ختم کرنے کا نظام بنانا ہے- اس کے لئے احتجاجی شرکاء کی تعداد میں مذہبی طاقتوں کے علاوہ تاجروں, ڈاکٹروں, وکیلوں, خواتین, طالب علموں اور مزدور تنظیموں کی شمولیت اشد ضروری ہے تاکہ یہ احتجاج سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ زندگی کے ہر شعبہ جات کی نمائندگی کر سکے-

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply