پاکستان کیسے دیوالیہ ہوا ؟۔۔اظہر سید

پاناما ڈرامہ اور تبدیلی کے ہدایت کاروں نے پاکستان کو نادہندہ ریاست بنایا ہے ۔اس بات کا تعین تاریخ کرے گی کہ اس سازش کے  ڈرامہ کا مقصد نواز شریف کو ہٹانا تھا یا سی پیک کا راستہ روکا جانا  اصل مقصد تھا۔ پاناما ڈرامہ کے حتمی نتائج سامنے آ چکے ہیں ۔ایک طرف سی پیک پر چینی سرمایہ کاری رک چکی ہے دوسری طرف پاکستان ادائیگیوں کے توازن میں نادہندگی کی وجہ سے ڈیفالٹ کر چکا ہے ۔
تبدیلی کے اس پروگرام میں میڈیا پر پہلے قابو پایا گیا اور عدلیہ کے ساتھ نیب ایسے ریاستی ادارے استعمال ہوئے ۔عدلیہ کے کردار کے متعلق جج ارشد ملک ، جسٹس شوکت صدیقی ،جسٹس عیسیٰ اور سابق جج شمیم کے فیصلے ،اعترافات اور انکشافات سامنے آ چکے ہیں ۔

سابق آرمی چیف اسلم بیگ بھی نواز شریف کی فراغت کے پیچھے عالمی سازش کا بیان دے چکے ہیں ۔جلد ہی تبدیلی کا کوئی کردار سابق فوجی افسر ضمیر کے ہاتھوں مجبور ہو کر جنرل شاہد عزیز کی طرح تبدیلی کا بھانڈہ پھوڑ دے گا ۔

میڈیا اور ففتھ جنریشن وار کے نام پر جو جھوٹ کا بازار گرم کیا گیا سوشل میڈیا کے ابھار سے اسکی حقیقت بھی سامنے آچکی ہے ۔کل کے ننگے منگے عظیم صحافی اور اینکر بن کر جس طرح عام لوگوں کو گمراہ کرتے رہے وہ بھی عوام کے سامنے ننگے کھڑے ہیں یہ اور بات ہے بے شرمی نے ان سے عزت نفس بھی چھین لی ہے ۔

پاکستان ایک دن میں دیوالیہ نہیں ہوا بلکہ ایک منظم اور سوچے سمجھے منصوبے سے اس ملک کو نادہندہ ریاست بنایا گیا ہے ۔پاناما ڈرامہ سے قبل چین کی سی پیک پر تیز رفتار سرمایہ کاری جاری تھی ۔بے شمار ممالک اور ملٹی نیشنل کمپنیاں سی پیک کے ثمرات سے فایدہ اٹھانے کیلئے اپنے وفود پاکستان بھیج رہی تھیں ۔

پاناما ڈرامہ نہ ہوتا تو سی پیک سرمایہ کاری سے معیشت کا حجم بڑھتا جاتا قرضے بھلے دو سو ارب ڈالر ہو جاتے جی ڈی پی کا پھیلاؤ اور معاشی شرح نمو میں اضافہ انہیں جذب کر لیتا ۔پاناما ڈرامہ اور مسلط حکومت سے سب سے بڑا نقصان چینی ناراضگی کی صورت میں سامنے آیا ۔چینیوں نے صرف اپنی سرمایہ کاری نہیں روکی ہزاروں پاکستانی طالبعلموں کے سکالرشپ بھی روک لئے ۔غیر ملکی سرمایہ کار دم دبا کر بھاگ نکلے ۔

چینی امریکیوں کا متبادل تھے اور بھارتیوں کو روکنے کیلئے لداخ میں آپریشن کر چکے تھے لیکن ظالموں نے چینیوں کے تحفظات دور کرنے کی بجائے چینیوں کے خلاف منظم مہم شروع کرا دی ۔  اینکرز آئے روز چین کے خلاف عوامی رائے عامہ ہموار کرنے لگے کہ چینی مرد پاکستانی لڑکیوں سے شادی کر کے انکے اعضا فروخت کر دیتے ہیں ۔
چین کے خلاف اس مہم کے پیچھے کونسے محب وطن تھے اس کا تعین بھی تاریخ کرے گی ۔
پاکستان کو نادہندہ کرنے کی منظم مہم کے پیچھے روپیہ کی قدر میں نئی حکومت کے پہلے دو سال کے دوران بار بار کمی اور شرح سود میں اضافہ کے فیصلے تھے ۔

مہنگے پاکستانی بانڈ مارکیٹ کئے گئے اور بھاری غیر ملکی سرمایہ کاری ممکن بنائی گئی ۔یار لوگ کم مدتی بانڈز میں سرمایہ کاری کر کے بھاری منافع کما کر نکل گئے اور معاشی بوجھ میں اضافہ ہوتا چلا گیا ۔
روپیہ کی قدر میں اضافہ ایک مشہور زمانہ جعل سازی کے نام پر کیا گیا “برآمدات” میں اضافہ ہو گا ۔ برامدات میں اضافہ تو کیا ہونا تھا غیر ملکی قرضوں کے حجم اور قرضوں کی ادائیگیوں میں اضافہ ضرور ہو گیا اور یہ ایک سفاکانہ ،ظالمانہ اور ملک سے غداری ایسا فیصلہ تھا ۔
درآمدات مہنگی ہونے سے کرنٹ اکاؤنٹ کے بوجھ میں اضافہ ہوا اور مسلسل ہوتا چلا گیا جو آج بھی جاری ہے ۔

ایل این جی کی درآمد میں رکاوٹیں ڈال کر فرنس آئل سے مہنگی بجلی بنائی گئی ۔عالمی مارکیٹ میں جب پٹرول کی قیمتیں منفی ہو گئیں مستقبل کے سودے نہیں کئے گئے اور ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا گیا ۔
مہنگی بجلی بنانے سے گردشی قرضوں کے حجم میں اضافہ کیا گیا اور پھر گردشی قرضہ ختم کرنے کے نام پر بجلی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ کی پالیسی بنائی گئی اور عوام کی قوت خرید توڑ کر نہ صرف پیدوار متاثر کی گئی سول وار کے بیج بھی بوئے گئے ۔

دوسرے محاذ پر بلوچستان میں مسائل حل کرنے کی بجائے لاپتہ کرنے اور جبر کی پالیسی جاری رکھی گئی اور بلوچستان میں جامعات اور کالجوں کے عام بلوچ طلبا کو ریاست سے متنفر کیا گیا ۔
قومی یکجہتی برباد کرنے کیلئے تمام اپوزیشن قیادت غدار مشہور کی گئی ۔مولانا فضل الرحمٰن کی را چیف کے ساتھ جعلی تصاویر لے کر پراپیگنڈہ کیا گیا ۔نواز شریف کی ملوں سے را کے ایجنٹ برآمد کر کے مودی کا یار بنایا گیا ۔اصف علی زرداری کو محترمہ بینظیر بھٹو کی طرح سکیورٹی رسک ہی نہیں بنایا گیا کرپشن کنگ کی پرانی مہم کو نئے سرے سے چلایا گیا اور پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت پر عدلیہ کو کھول دیا گیا ۔
اب پاکستان دیوالیہ ہو چکا ہے ۔
برآمدات اور ترسیلات زر کم ہیں قرضوں اور ان پر سود کی ادائیگی اور درآمدات کا بوجھ زیادہ ہے ۔

اندرونی محاز پر بھی قرضوں کی ادائیگی اور دفاعی بجٹ سمیت حکومت اخراجات زیادہ ہیں ٹیکس وصولیاں کم ہیں ۔صاف لفظوں میں اندرونی اور بیرونی سطح پر نادہندہ ہیں ۔
معاشی بحالی کی دور دور تک کوئی امید نہیں ۔سیاسی عدم استحکام اور طاقتور فوج کے خلاف عوامی جذبات کی وجہ سے ریاست کا ڈھانچہ لرز رہا ہے ۔غربت، بھوک اور مہنگائی کی وجہ سے سول نافرمانی کے خدشات بڑھتے جا رہے ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

حالات جس طرف جا رہے ہیں جو رخ اختیار کر رہے ہیں ہنگامے شروع ہو گئے تو بلوچستان سے خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقہ جات ،کراچی ،سندھ اور پنجاب میں جو ردعمل آئے گا کوئی جائے پناہ نہیں ملے گی اور کوئی علاقہ محفوظ نہیں رہے گا اسی سے خوف آرہا ہے ۔
پہلے ہی بہت دیر ہو چکی ہے اب بھی بحالی کی کوشش تو کی ہی جا سکتی ہے لیکن افسوس کوئی کوشش کرتا اور غلطیوں کا اعتراف کرتا بھی نظر نہیں آتا ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply