• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • احمد ندیم قاسمی کی شاعری آگہی کے سیلاب میں ذات کے کھو جانے کا ماتم ہے۔۔اسد مفتی

احمد ندیم قاسمی کی شاعری آگہی کے سیلاب میں ذات کے کھو جانے کا ماتم ہے۔۔اسد مفتی

امجد اسلام امجد چونکہ تخلیقی صلاحیت کے بدستور مالک ہیں،اس لیے کچھ نہ کچھ تازگی اور تبدیلی پیدا کرتے رہتے ہیں،ورنہ تو پچھلے چند برسوں سے لگا تار خود بھی بور ہورہے ہیں،اور اپنے ناظرین،قارئین،اور سامعین کو بھی اکتاہٹ پر مجبور کررہے تھے۔

گزشتہ دنوں جناب احمد ندیم قاسمی پر بننے والی ڈاکو منٹری فلم دیکھنے کا اور سُننے کا اتفاق ہوا۔۔۔سننے کا اس لیے کہ فلم میں کئی مقامات ایسے بھی آتے ہیں،کہ ناظرین یکلخت سامعین بن جاتے ہیں،اور کبھی محض ناظرین۔۔۔۔یہ تکنیک بھی کم از کم فلموں میں پائی گئی ہے۔

یہ فلم امجد اسلام امجد کا کارنامہ ہے۔۔کہ احمد ندیم قاسمی کی طرح وہ بھی جانے پہچانے ستارے ہیں اور انہی کی طرح فلم کے ہر فریم میں بھی موجود ہیں،فلم کا نام “سنہرے لوگ”ہے۔۔۔جیسے اونچے لوگ،غریب لوگ، وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔

یہاں مجھے احمد  ندیم قاسمی کی شخصیت یا فکر و فن سے متعلق کچھ نہیں کہنا کہ وہ تو جاوید شاہین نے اپنی آپ بیتی”میرے ماہ و سال”میں قاسمی صاحب کے بارے میں ایک واقعہ بیان کرکے اُن کی شخصیت کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی ہے۔

یہاں مجھے ڈاکیومنٹری کے حوالے سے چندگزارشات کرنی ہیں،اور یہ کہ ایک بات بہت اہم اور ضروری ہے۔۔کہ فلم میں بہت سی باتیں غیر اہم اور غیر ضروری ہیں۔

امجد اسلام امجد کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں،سٹیج،ریڈیو،فلم،ٹی وی،ادب کے تنقید نگار،انہیں ایک سنجیدہ اور سلجھا ہوا شاعر و ادیب،دانشور قرار دیتے ہیں۔اُنہوں نے مختصر مدت میں بس سے سائیکل،سائیکل سے سکوٹر،سکوٹر سے کارکا سفر طے کیا ہے۔بحیثیت ہدایتکار یہ اُن کی پہلی دستاویزی فلم ہے۔شاید اسی لیے وہ اس ر از سے واقف نہیں ہیں،کہ ہدایتکار اکثر تماشائیوں کے ردِ عمل سے دھوکہ کھا جاتا ہے۔وہ نہیں جانتا کہ تماشائی فلم کے مزاحیہ مکالموں پر ہنسنے کے علاوہ ہدایتکار کی حماقتوں پر بھی ہنستے ہیں۔یا ہنسا کرتے ہیں۔۔

اس ڈاکیومنٹری میں کچھ اور ہو نہ ہو،یہ واضح ہوجاتا ہے کہ قاسمی صاحب کے چاہنے والوں کو امجد نے یہ خبر ضرور دی ہے کہ قاسمی صاحب کے کس فقرے پر سبحان اللہ کہنا ہے،اورکس فقرے پر اللہ اکبر کا نعرہ لگانا ہے۔اور کہاں تالی بجانی ہے،بجے گی تو اس کا آہنگ کیا ہوگا۔۔اور قاسمی صاحب ہیں کہ انہوں نے اپنے ہر جملے کی تان ترقی پسند ہونے پر توڑی ہے ۔۔اس تان کے ٹوٹنے پر ایک چیخ گونجتی ہے،جسے صرف اہلِ دل سُنا کیے۔۔۔

احمد ندیم قاسمی پر بننے والی یہ ڈاکیو منٹری دیکھ کر مجھے انتظار حسین کے چند جملے یاد آگئے۔۔۔
“نامی گرامی ادیبوں کی شخصیت اور فن کے دو حصے ہوتے ہیں،ایک حصہ ان کی ذات و من کا ادبی رسائل میں جلوہ گر ہوتا ہے،دوسرا حصہ ریڈیو،ٹی وی کی نظر ہوجاتا ہے”۔

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے،کہ احمد ندیم قاسمی صاحب کی زندگی کا پہلا حصہ   کہاں رہ گیا؟

میں جانتا   ہوں کہ قاسمی صاحب ہر کس و ناکس کو اپنے بارے میں لکھنے پر اکساتے رہتے تھے۔
میں نہیں سمجھتا کہ اُنہوں نے امجد کو کن صلاحیتوں کی بِنا پر ڈاکیومنٹری بنانے کا موقع دیا ۔۔یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی حکایتوں اور شکایتوں سے اس ڈاکیومنٹری کے تن مردہ میں جان ڈلنے کے لیے اپنی جان ہلکان کرتے رہے،اور امجد تھا کہ یوں انہیں داد دے رہا تھا،جیسے انہیں انکی شاعری پر اکثر ملتی ہے۔
ساقی فاروقی بقول”سبزی خور کی شاعری میں اور کیا ہوسکتا ہے”۔
امجد نے اگر یہ ڈاکیومنٹری بنائی ہے تو وہ فلم کی عام فہم تکنیک سے ضرور واقف ہوگا۔اور یہ کہ وہ ٹی وی پر دکھائی جانے والی غیر ملکی ڈاکیومنٹری فلمیں ضرور دیکھتا ہوگا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس نے ان جدید تکنیک کی حامل فلموں سے کیا حاصل کیا؟۔۔۔
اور اس حاصل شدہ علم کو اس فلم میں کہاں تک کام میں لاسکا۔

یورپین اور امریکی ڈاکیومنٹری فلم کی تکنیک یعنی عام فہم زبان میں،ریسرچ،سکرپٹ،منظر نامہ،سکرین شاٹ،شاٹس ڈویژن،ٹریٹمنٹ،تسلسل،روانی،فریمنگ،کیمرہ ورک،لینز،لائٹس،ساؤنڈ سسٹم،اور آخری چڑیاجس کا نام ایڈیٹنگ ہوتا ہے،پاکستان میں غیر ترقی یافتہ ملک میں جہاں آج تک اچھی تو کیا بُری یا خراب ڈاکیومنٹری فلم بھی نہیں بن سکی کے”نوزائیدہ میڈیا”کے لیے ایک معلم کی حیثیت رکھتی ہے۔مگر امجد کے خیال میں احمد ندیم قاسمی پر ڈاکیومنٹری فلم بنانے کے لیے کسی ریسرچ یاتیاری یا تکنیک سے واقفیت ضروری نہیں۔۔
حالانکہ ضرورت اس امر کی تھی کہ اخبارات و رسائل میں ہزار بارچھپے ہوئے واقعات کی جگہ اچھا سکرپٹ لکھوایا جاتا،

یہی وجہ ہے کہ ڈاکیومنٹری کا ماحول سراسرمصنوعی اور غیر حقیقی ہے۔
یہ فلم “شستہ کامیڈی” اور آنکھیں نمناک کردینے والی ٹریجڈی کا امتزاج ہے۔اگرچہ امجد اسلام امجد نے ہدایتکاری کا بہتر مظاہرہ نہیں کیا،لیکن اس کے باوجود گلزا ر نے بڑی چابکدستی اور مہارت سے امجد کی “کارکردگی “کواپنی بہترین اداکاری سے سہارا دیا ہے۔

اس کے برعکس اشفاق احمد جو کہ اپنی اوور ایکٹنگ اور مکالموں میں گڑبڑ کرنے کی وجہ سے مشہور ہیں۔اور محض کریکٹر ایکٹر بن کر جلوہ گر ہورہے ہیں،فلم میں اپنے موجودہ کردار کے لیے قطعی ناموزوں تھے۔

ان سے بہتر پرفارمنس کا مظاہرہ کرکے مشتاق احمد یوسفی نے سبقت حاصل کرلی ہے۔عطاالحق قاسمی جو کہ اکثر مزاحیہ کردار ادا کرتے ہیں،اور اچھے اور برے کرداروں میں امتیاز ضروری نہیں سمجھتے،کو اس فلم میں سائیڈ رول ملا ہے،اگرچہ یہ ایک چاپلوسانہ کردار ہے،مگر اس کے پرستار چاہے وہ یورپ ہی میں کیوں نہ ہوں،اسے کبھی کبھارشریفانہ رول میں بھی دیکھنے کے آرزو مند ہیں۔

مرحومہ پروین شاکر نے بہن اور منصورہ نے بیٹی کا کردا بڑی خوبی سے ادا کیا ہے۔یہ دونوں منجھی ہوئی اداکارائیں ہیں،سچ پوچھیے تو انہی کرداروں نے “کھیل”میں دلچسپی کے سامان پیدا کیے ہیں۔ورنہ جگتوں کے بغیر امجد کا فلم تو کیا کچھ بھی نہ بنا لینا اتنا ہی حیرتناک ہے جتنا احمد ندیم قاسمی کا فیض احمد فیض کے نا م پر ناک بھوں چڑھانا،فلم کے پہلے چند سین”کامیڈی”سے بھرپور ہیں،ان کا خاتمہ اگرچہ سپاٹ مکالموں پر ہوتا ہے،لیکن غالباً یہاں بھی گلزار نے اپنی انفرادیت قائم کرنے کی سعی کی ہے۔لیکن وہ ناکا م رہا کہ عام طور پر کامیڈی سین کا خاتمہ ہنگامہ آرائی پر کیا جاتا ہے۔جو کہ گلزکے بس کاروگ نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

فلم کا آخری حصہ احمد ندیم قاسمی کے آخری دور کی شاعری کی طرح بے حد مایوس کُن ہے۔
ہدایتکار نے اپنے تمام ڈرامائی لوازمات فلم کے پہلے حصے میں برت دیے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ عام تماشائی فلم کے آخری حصے میں لوٹنگ کرنے لگتے ہیں،
آخری بات،مجھے یہ عرض کرنی ہے،سات سال میں مکمل ہونے والی یہ اچھوتی فلم کا نام کسی اعتبار سے بھی پلاٹ،کردار،کہانی یا اُسکی جزوی ہیت سے مناسبت نہیں رکھتا۔اس سے بہتر تھا کہ اس کا نام”امجد ندیم قاسمی”رکھا جا تا۔

Facebook Comments

اسد مفتی
اسد مفتی سینیئر صحافی، استاد اور معروف کالم نویس ہیں۔ آپ ہالینڈ میں مقیم ہیں اور روزنامہ جنگ سے وابستہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply