فیدل کاسترو ،ایک عہد،ایک نظریہ

فیدل کاسترو
ایک عہد تھا جو زندہ رہے گا
کامریڈ رخصت ہوا ،
لیکن دنیا کو سکھا گیا،
کہ ہر خواب کی، اورنظرئیے کی ایک قیمت ہوتی ہے،
دنیا کو بتا گیا کہ نظرئیے کو زندہ رکھنے کے لئے خونُِ جگر سے سینچا جاتا ہے۔
بیسیویں صدی میں پیدا ہونے والا وہ لیڈر جس نے اس صدی پر ایسے انمٹ نشاں چھوڑے جن کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔کاسترو اس مضبوط قلعے کا نام تھا جسے سرمایہ دارانہ نظام کے بڑے بڑےبادشاہ گر فتح نہ کرسکے۔ ایک ترقی پذیر ملک کا باسی ،جس کی طلسماتی شخصیت کا طلسم کیوبا کے ساحلوں سے نکل کر پوری دنیا میں پھیل گیا۔ اور وہ طلسم اس کے دشمن اس کی آخری سانس تک کم نہ کرسکے۔وہ جہاں جاتا اسکےدیوانوں اور اسکے چاہنے والوں کی کمی نہ ہوتی۔ کامریڈ نے ایک سپر پاور کو چیلنج کیا تھا ۔یہ وہ قوت تھی جس کے سرمایہ دارانہ نظام کو اسکے پڑوسی معمولی سے ملک نے مسترد کردیا تھا لیکن یہ سپر پاور ہوتے ہوئے بھی کبھی اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوسکی۔کاسترو دنیا کی وہ واحد شخصیت ہیں جنہیں ان گنت حملوں اور سازشوں کے باوجود مارا نہ جاسکا۔ انکے عملی طور پر سیاست سے الگ ہونے کے بعد ان کی کئی تحریریں سامنے آئیں جس سے پتہ چلا کہ اپنی حفاظت کی غرض سے رکھا گیا ان کا ریوالور ہمیشہ خالی ہوتا انہیں ڈر تھا کہ کبھی کسی اشتعال کے زیرِ اثر وہ کسی بے گناہ کی جان نہ لے لیں۔
1926 میں کیوبا کے مشرقی علاقے بائرن میں پیدا ہونے والے کاسترو کا تعلق ایک جاگیر دار گھرانے سے تھا۔ انہوں نے ہوش سنبھالنے کے بعد ملک میں ایک افراتفری اور ظلم و جبر کا ایک ایسا دور دیکھا جس نے انہیں اپنے لوگوں کے حق میں کھڑے ہونے پر مجبور کردیا۔اپنے سارےعیش وآرام ترک کرنے کے بعد انہوں نے آمر بتیستا کے خلاف ایک مسلح جدوجہد کا آغاز کیا۔ گو ان کی پہلی بغاوت کی کوشش ناکام ثابت ہوئی لیکن اپنے مقدمے کی پیروی خود کرتے ہوئے ان کا یہ جملا تاریخ کا حصہ بن گیا۔
History will absolve me.
دو سال بعد ان کو رہا کردیا گیا اور انہوں نے جلاوطنی اختیار کی۔ اس دوران انہوں نے اپنی جدوجہد کو ترک نہ کیا اور ایک دور ایسا بھی آیا کہ ان کے مرنے کی خبریں بھی سامنے آئیں۔ لیکن یہ مسلح گروہ آخر کار باقاعدہ منصوبہ بندی کے بعد کیوبا کے شہر ہوانا میں داخل ہوا اور فتح جن کا مقدر بنی۔جنوری 1959 کا سورج کیوبا میں ایک نئے سحر کی نوید کے کر طلوع ہوا۔ کیوبا کو بتیستا جیسے آمر سے نجات ملی۔ جسے بالآخر راہ فرار اختیار کرنا پڑی۔ اس پوری جدوجہد میں ارجنٹائن سے تعلق رکھنے والے ارنسٹ جی گیوارا بھی شامل تھے جو بعد میں کاسترو کی حکومت کا حصہ بھی بنے۔ تاریخ میں اس جدوجہد اور مٹھی بھر گوریلا مہم میں فتح یابی جیسی مثال بہت کم نظر آتی ہے۔ کاسترو نے حکومت سنبھالنے کے فورا ًبعد لوگوں کو ان کے حقوق کے تحفظ کا یقین دلایا، اور پورے ملک میں سیاسی، معاشی اور معاشرتی اصلاحات کا آغاز کیا۔
کاسترو اشتراکیت کے نظریات کے رجحان کے حامل اور اس وقت کے سوویت لیڈرز خروشیف اور میکوئن کے نظریات سے بے حد متاثر تھے۔ یورپ میں فیدل کاسترو کے ان نظریات کو بے حد پسند کیا گیا۔ خاص طور پر جین پال سارتر اور سائمن ڈی بیورو نے۔ کاسترو کے ان نظریات نے صرف یورپ ہی میں ان کے پرستاروں میں اضافہ نہ کیا بلکہ اس وقت کی لاطینی امریکہ اور افریقہ میں جاری تحریکیں بھی ان کے نظریات کے زیرِ اثر آئے بنا نہ رہ سکیں۔ اکیسویں صدی میں ہیوگو شاویز وینیزویلا میں اور آیووموریلز بولیویا میں وہ دو ایسے لیڈرز تھے جنہوں نے کاسترو کے نظریات کونئی جلا بخشی۔ ہیوگو شاویز کاسترو کو اپنے نظریاتی باپ کا درجہ دیتے تھے۔ اسی طرح افریقہ میں نیلسن منڈیلا بھی کاسترو کے چاہنے والوں میں سے تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اپنے وقت کے بڑے بڑےبادشاہ گروں کے سامنے سرِ تسلیم خم نہ کیا اور نہ اپنے نظریات پہ کبھی سودہ بازی کی۔
کاسترو کے اقتدار سنبھا لنے کے فوراً بعدامریکہ جیسی سپر پاور نے ان کو اقتدار سے ہٹانے اور قتل کرنے کے لئےاپریل 1961 میں ’’بے آف پگ‘‘; اور اسکے بعد آپریشن مونگوس جیسی سازشوں کا آغاز کیا۔ امریکہ نے باغیوں کو سی آئی اےسے تربیت فراہم کرکے کیوبا میں کاسترو کا تختہ الٹنے کی کوشش کی لیکن کاسترو کی فوج نے نہ صرف یہ کوشش ناکام کی بلکہ بڑی تعداد میں باغیوں کو گرفتار کر لیا گیا- امریکہ جیسے پاور فل اور سرمایہ دارانہ نظام کے علمبردار کے لئے کسی کمیونسٹ نظریات کے حامل ملک یا اس کی حکومت کو جو اس سے صرف نوے میل کے فاصلے پہ تھا برداشت کرنا آسان نہ تھا۔ فیدل کاسترو اس وقت امریکہ کے دشمنوں کی فہرست میں اوّل نمبر پہ شمار کیا جاتا تھا۔
آپریشن بے آف پگ کی ناکامی کے بعد اس وقت کے صدر نے کیوبا سے ہر طرح کے تعلقات ختم کرنے کا اعلان کردیا اور سفارتی تعلقات کے خاتمے کے ساتھ ہی کیوبا پہ تجارتی پابندی عائد کردی گئیں-اس زمانے میں کیوبا اور سویت یونین کے تعلقات بہت تیزی سے استوار ہوئے۔ سویت یونین سے مال بردار جہاز بھر بھر کرکیوبا میں ہوانا کی بندرگاہ پہ پہنچتے تھے۔ روس نے گنے کے کاشت پہ مشتمل ایک بڑا رقبہ نہ صرف خریدا بلکہ وہ کیوبا کی چینی کا سب سے بڑا خریدار بھی بن گیا۔ کیونکہ امریکہ کی طرف سے عائد پابندیوں کی وجہ سے کیوبا اس زمانے میں اشیائے ضرورت کی سخت قلت کا شکار تھا۔ دنیا میں 1962 کا سال ایک ایسا سال ثابت ہوا جب دنیا بھر کی نظریں کیوبا پہ ٹھہر گئیں۔
دو عالمی طاقتیں اپنی اپنی طاقتیں کا مظاہرہ کرنے کیوبا میں موجود تھیں۔ بارہ دن دنیا پہ نیوکلئیر وار کے بادل منڈلاتے رہے۔ روس کے وار ہیڈز کی کیوبا میں موجودگی نے کیوبا میں ماسکو اور واشنگٹن آمنے سامنے لاکھڑا کیا۔ جہاں ایک طرف امریکہ کے بلا کیڈ نے روس کو میزائل ہٹانے پہ مجبور کردیا۔ وہیں امریکہ بھی ترکی سے اپنے میزائل ہٹانے پہ مجبور ہوگیا۔کاسترو کی سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف پالیسی تو روزِ اوّل ہی سے تھی۔ جس کی وجہ انکے اشتراکیت اور کمیونزم کے نظریات سے متاثر ہونا تھا۔ لیکن 1965 میں انہوں نے کیوبا میں کمیونسٹ پارٹی کی باقاعدہ بنیاد رکھی جو کہ مارکسسٹ اور لیننسٹ کے ماڈل پر تھی۔ اس ایک پارٹی سسٹم کے تحت کیوبا کی حکومت کو چلانے کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ کاسترو کا عہد تقریباً; پچاس سال پہ محیط رہا۔ ایک ناقابلِ شکست حکمران، جس نے اپنے نظریات پہ کبھی سمجھوتہ نہ کیا۔ اشتراکیت کے نظام کی بنیاد رکھنے والا۔ مارکسسٹ اور لینن کے نظریات کا داعی۔
سوویت یونین سے اچھے تعلقات کے باوجود کاسترو نے کیوبا کو غیر وابستہ تحریک میں شامل کیا۔ لیکن دوسری جانب چلی،نیکاراگو اور گریناڈا میں جاری سرمایہ دارانہ تحریکوں کو سپورٹ کیا بلکہ بلکہ اپنے فوجی دستے موزمبیق اورانگولا، الجیریا، گنی بساؤ اور کانگو میں مارکسسٹ باغیوں اور گوریلوں کی مدد کی لئیے بھی بھجوائے۔اسّی کی دھائی کیوبا کے لئے مشکل ترین دور کا آغاز تھا جب سوویت یونین کی بگڑتی ہوئی صورتِ حال میں کیوبا کی امداد میں کمی واقع ہوئی اور کیوبا جو کہ امریکہ کی تجارتی پابندیوں کا شکار پہلے ہی بدحالی کا شکار تھا مزید، مشکلات کا شکار ہوتا چلا گیا۔ایک وقت ایسا آیا کہ کیوبا میں کھانے پینے کی اشیاء کی شدید قلت پیدا ہوگئی۔یہ وہ دور تھا جب کاسترو نے اپنی عوام کو کہا کہ اگر وہ ملک چھوڑ کر جانا چاہیں تو جاسکتے ہیں۔ اپریل سے اکتوبر 1976 میں ایک لاکھ بیس ہزار لوگ کیوبا چھوڑ کے امریکہ میں داخل ہوئے۔اس دور میں بھی کاسترو نے امریکہ کی ہر قسم کی امداد جس میں فوڈ، میڈیسن اور کیش تھی لینے سے انکار کردیا۔ ایک سرمایہ دارانہ نظام کی سرپرست سپر پاور کی عائد کردہ پابندیوں کے پیشِ نظر کیوبا کے عوام کو جو مشکلات درپیش رہیں ان کا اندازہ لگانا آسان نہیں۔
چائنا نے 1990 کے بعد سے کیوبا کو سپورٹ کرنے کا آغاز کیا اور آج کیوبا چین کا دوسرا بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔ بعد میں وینزویلا کے ہیوگو شاویز اور بولیویا کے ایوو موریلز کی سپورٹ سے بھی کیوبا کے حالات میں کسی قدر بہتری آئی۔ مشکلات آتی رہیں لیکن فیدل کاسترو نے اپنے نظریات پہ کبھی سمجھوتہ نہ کیا ،البتہ لوگوں کی مشکلات کے پیشِ نظر قانونی پابندیوں کے ساتھ پرائیوٹ سیکٹر کو تھوڑی آزادی دی گئی لیکن یہ کسی بھی طرح سرمایہ دارانہ نظام سے میل کھاتا سسٹم نہیں۔ کاسترو نے ان مشکلات کے دور کے بعد چائنیز، کینیڈین، اسپینش اور فرنچ کمپنیوں کو سیاحت کے شعبے میں سرمایہ کرنے کی دعوت دی اور اسطرح کیوبا میں ان سارے ممالک نے سرمایہ کاری کرکے ہوٹلز، ریزورٹ اور تفریحات کی دیگر چیزوں سے سیاحوں کو کیوبا آنے کی رغبت پیدا کی اور سیاحت کو فروغ ملا۔ او اے ایس (OAS) نے کیوبا پہ عائد تجارت پابندیاں جزوی طور پر بحال کر دی تھیں اور 2009 میں کیوبا کی رکنیت کو بھی مکمل طور پر بحال کردیا گیا لیکن فیدل کاسترو نے جہاں اس فیصلے کو سراہا وہیں کیوبا کی او اے ایس کا حصہ بننے سے انکار کردیا تھا ۔
کئی دہائیوں کے بعد باراک اوبامہ وہ پہلے امریکی صدر تھے جنہوں نے اپنی اسپیشل پاور کا استعمال کرتے ہوئے کیوبا سے تعلقات کو معمول پہ لانے کی کوشش کا اعلان کیا۔ اور بش کے زمانے کی عائد کردہ پابندیوں کے خاتمے کا اعلان کیا۔
کینیڈا اور پاپ فرانسس کے تعاون سے سترہ دسمبر 2014 کو دونوں ممالک میں جاری کئی دہائیوں کی سرد جنگ کا بالآخر خاتمہ ہوا، اور دونوں ملکوں نے اپنے اپنے قیدیوں کا تبادلہ بھی کیا۔ دونوں ملکوں نے اپریل 2015 میں اپنے اپنے سفارت خانے کھولنے کا اعلان کیا اور اس طرح دونوں ملکوں کے سفارتی تعلقات بھی بحال ہوگئے۔لیکن کاسترو نے امریکہ کے حوالے سے اپنا موقف آخری سانس تک تبدیل نہ کیا۔ اپنی آخری سالگرہ کے موقع پہ جاری کئے گئے پیغام میں بھی انہوں نے واضح طور پہ لکھا کہ
’’ہمیں کسی ریاست کی امداد کی کوئی ضرورت نہیں‘‘ کیوبا میں صحت اور تعلیم کی سہولت ہر شہری کو مفت حاصل ہے۔ ایسا نہیں کہ فیدل کاسترو یا کسی اور حکومتی رکن کو علاج معالجے کے لیے بیرون ملک جانے کی سہولت حاصل تھی۔ جس وقت کاسترو زندگی کے آخری اور سخت لمحات سے دوچار تھے تب بھی ان کا علاج بیرونِ ملک نہیں ہورہا تھا بلکہ وہی مقامی معالج اسے وہی مقامی ادویات دے رہے ہیں جو عام شہری کو میسر ہیں۔ لیکن جو صحت کی اور تعلیم کی سہولیات موجود ہیں وہ سب کے لئے یکساں ہیں، اور یہی وہ نظریہ تھا جسے فیدل کاسترو نے ابھی تک زندہ رکھا ہوا تھا۔
فیدل کاسترو کیا تھا ؟ایک ایسا شخص جو جب تک اقتدار میں تھا دنیا کی سب سے بڑی سپر پاور کی آنکھ کا ایسا شہتیر تھا جس کو وہ کبھی نکال نہ سکا۔ کیوبا کے عوام کے سخت ترین اور اذیت سے پُر دنوں نے بھی کاسترو کے نظریے کو مرنے نہ دیا۔کامریڈ امریکہ کی ناک کے نیچے اشتراکیت کےنظرئیے کو زندہ رکھنے کے لئے آخر دم تک لڑا۔ ایک جنگجو جس نے مارکسسٹ اور لیننسٹ ہونے کی ایسی قیمتیں بھی چکائیں جو واجب نہیں تھیں ۔ لیکن نظریے کے لیے لڑنے والے ایسے ہی ہوا کرتے ہیں۔ مخالف سمت سے آتیں موجِ بلا خیز ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں اورآخر کار اُن کے سامنے سجدہ ریز ہو جاتیں ہیں۔ایک جنگ جُو، ایک فاتح، ایک نظریہ اور ایک عہد،جو نوے برس کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہوگیا
دنیا کا کونسا ملک ہے جہاں فیدل کاسترو کے چاہنے والے نہیں ؟سوشلزم اور کمیونزم باقی رہے یا نہ رہے لیکن فیدل کاسترو مارکسسٹ اور لیننسٹ کے پرستاروں کے لئے ایک ایسا باب رقم کرگیا ہے جو رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔جب تک مارکسسٹ اور لیننسٹ کا ایک بھی ماننے والا زندہ ہے فیدل کاسترو بھی زندہ رہے گا۔

Facebook Comments

ثمینہ رشید
ہم کہاں کہ یکتا تھے، کس ہنر میں دانا تھے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply