افغانستان، پشتونستان اور وزیرستان۔۔۔ ہارون وزیر/قسط1

اگر آپ جاننا چاہتے ہیں کہ
رنجیت سنگھ کا طعنہ دینے والوں کا اپنا کردار کیا تھا؟
افغانستان کی حکومت نے انگریز کو وزیرستانیوں کے خلاف آپریشن کرنے کیلئے اپنی زمین استعمال کرنے کی اجازت کیسے دی؟
ڈیورنڈ لائن کے معاہدے پر دستخط کے بعد امیر عبدالرحمن نے کیا شکر ادا کیا؟
تیسری اینگلو افغان کے نتیجے میں افغانستان کو ملنے والی خود مختاری میں قبائلیوں کا کیا کردار تھا؟
داوڑ قبیلے کا ایک حصہ جب ہجرت کر کے افغانستان پہنچا تو ان کے ساتھ افغانستان حکومت نے کیا رویہ اختیار کیا؟
اور اگر آپ جاننا چاہتے ہیں کہ افغانستان کا کنگ میکر کون ہے تو یہ پوری تحریر پڑھیں۔

شمال مغربی سرحد یعنی سابقہ فاٹا کے حوالے سے برٹش ملٹری آفیشل ہسٹری (1920ـ1935) شائع ہوئی تھی جس کے دیباچہ میں ایک نصیحت کی گئی تھی۔ کہ جدید طاقتوں کے درمیان جنگیں آتی ہیں اور چلی جاتی ہیں۔ جنگ کی شدت اور نوعیت کے مطابق فوجیں اور جنگ کے میدان تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن شمال مغربی سرحد کے قبائل ہمیشہ ایک مسئلہ رہیں گے۔ جیسا کہ اب تک وہ ہیں۔ مستقبل کی انڈین آرمی کو بھی مہمندوں، آفریدیوں، وزیروں اور محسودوں سے نبٹنا پڑے گا۔

آج میں آپ کو ایسی جگہ کے باسیوں کے بارے میں بتاؤں گا جنہیں صرف انگریز ہی نہیں بلکہ معلوم انسانی تاریخ میں کوئی بھی قوت مطیع نہیں بنا سکی۔ اپنے ادوار کی عظیم ترین طاقتیں جیسا کہ محمود غزنوی، شہاب الدین محمد غوری، چنگیز خان، تیمور، بابر اور اس کے تمام مغل جانشین، درانی، سکھ اور انگریز سمیت کوئی بھی نہ تو انہیں غیر مسلح یا زیر انتظام لا سکے اور نہ ہی کوئی قوت ان سے ٹیکس لے سکی ہے۔ میں جس علاقے کی بات کر رہا ہوں اسے وزیرستان کہتے ہیں۔
( میں جب بھی وزیرستانی کہوں گا تو اس سے میری مراد وزیر، محسود اور داوڑ قبائل ہوں گے)
یوں تو تمام پشتون قبائل نے خراسان ـ افغانستان کی سلطنتوں کی ہمیشہ مدد کی ہے۔ لیکن چونکہ پشتونستان کا پہلا ہیڈ کوارٹر وزیرستان میں تھوڑے سے عرصے کیلئے بنا تھا۔ اس لئے میں خاص طور پر وزیرستان اور افغانستان کے بیچ تعلق پر بات کروں گا۔

سلطنت غزنویہ کے عظیم بادشاہ سلطان محمود غزنوی نے ہندوستان پر سترہ حملے کئے۔ ان میں سے کئی مرتبہ وہ ٹوچی (وزیرستان) کے راستے ہندوستان پر حملہ ہوا۔ سر اولف کیرو کے بقول ان حملوں میں وزیرستانی قبائل نے بھی حصہ لیا۔
شہاب الدین غوری بھی کئی مرتبہ وزیرستان کے راستے ہندوستان پر حملہ آور ہوا۔ وزیرستانی جوانوں نے ان معرکوں میں زبردست داد شجاعت دی۔

اسی طرح مورخین لکھتے ہیں کہ پانی پت کے مقام پر جب بابر کی چھوٹی فوج ابراہیم لودھی کے لشکر جرار کے ہاتھوں شکست کے بالکل قریب پہنچ گئی تھی۔ تب پشتونوں اپنی پگڑیاں پھینکیں۔ داڑھیاں موڑ کر دانتوں میں پکڑ لیں اور وہ ہلہ بول دیا کہ ہاری ہوئی بازی جیت میں بدل دی۔ یہی لڑائی ہندوستان پر مغل سلطنت کی بنیاد بنی۔
احمد شاہ ابدالی نے پنجاب سے لے کر دہلی تک جو حملے کئے اس میں بھی وزیرستان کے بہادر سپوت موجود تھے۔

اس کے بعد سکھوں کا دور شروع ہوتا ہے۔
احمد شاہ ابدالی کے نالائق جانشینوں نے بنوں اور وزیرستان کا سودا سکھوں کے ساتھ کیا تھا۔ جی ہاں۔۔۔۔ رنجیت سنگھ کے ساتھ۔ اس رنجیت سنگھ کے ساتھ جس کا طعنہ افغانی آج پاکستانیوں کو دیتے ہیں۔ جو آج ہمارے سگے بننے کا ڈرامہ کرتے ہیں ان کے اجداد نے ہمارا سودا رنجیت سنگھ کے ساتھ کیا تھا۔ یاد رہے کہ وزیرستان اس وقت بھی سدوزئی حکمرانوں کے ماتحت نہیں تھا۔ افغان دل ہی دل میں اپنے آپ کو وزیرستان کے مالک خیال کر رہے تھے۔ جب سکھوں نے بزور بازو وزیرستان پر قبضہ کرنا چاہا اور ایک بڑے لشکر کے ساتھ ان پر حملہ کر دیا تو تاریخ نے ایک مرتبہ پھر خود کو دہرایا۔ سکھ شکست کی ذلت کے ساتھ پسپا ہوئے۔ اچھا اس دوران سدوزئی حکمران بجائے مدد کرنے کے تماشہ دیکھتے رہے۔ بعد میں خود سدوزئیوں نے بھی وزیرستان پر حملہ کیا۔ سخت جنگیں لڑیں لیکن قبضہ نہیں کر سکے۔

اس کے بعد انگریزوں کا دور شروع ہوتا ہے۔
انگریز نے پہلی اور دوسری اینگلو افغان جنگ میں بے حد آسانی کے ساتھ افغانستان پر قبضہ کیا۔ انگریز کو کوئی مشکل پیش نہیں آئی۔
سن 1893 می امیر عبدالرحمن اور انگریز کے درمیان ڈی مارکیشن کا معاہدہ ہوا۔ جسے ڈیورنڈ لائن کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ سر مارٹیمر ڈیورنڈ جب اس سودے کیلئے کابل پہنچا تو افغان حکومت نے ان کو اکیس توپوں کی سلامی دی۔ (گویا وہ بارات لے کر پہنچا تھا) جب معاہدہ لکھا گیا۔ دستخط ہو گئے تو امیر عبدالرحمن اپنی سوانح حیات میں لکھتے ہیں کہ  ان کا (انگریزوں کا) قیام بہت خوشگوار تھا اس معاہدے کی وجہ سے وہ تمام غلط فہمیاں اور تنازعے جو ان علاقوں کے باعث جنم لیتے تھے۔ ختم ہوئے۔ اس معاہدے کے نتیجے میں اطمینان اور سکوت کی فضاء قائم ہوئی۔ میں (امیر عبدالرحمن) اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ یہ فضا ہمیشگی ایسے ہی رہے۔

افسوس صد افسوس
افغان حکومت کو جب بھی ضرورت پڑی انہوں نے انگریزوں کے خلاف وزیرستانیوں کے جذبات بھڑکانے کیلئے تبلیغ کی۔ وزیرستانی لڑتے رہے۔ مرتے رہے اور وہ خود معاہدے کرکے دوستیاں نبھاتے رہے۔ اور تو اور وزیرستانیوں کے خلاف آپریشن کیلئے افغان حکومت نے انگریزوں کو اپنی سرزمین بھی فراہم کی۔ یہ کس طرح کے سگے تھے؟

تیسری اینگلو افغان جنگ(1919) میں افغانستان نے انگریز سے خود مختاری یعنی مکمل آزادی حاصل کی۔ امان اللہ نے بادشاہ بنتے ہی انگریزوں کے ساتھ جنگ چھیڑ دی۔ جنرل نادر خان نے جب ٹل پر حملے کیا۔ تو جہاں افغان فوجیں سرحد کے باہر سے لڑ رہی تھیں۔ قبائلیوں نے اندر سے انگریز کو دن میں تارے دکھا دئیے۔ انگریزوں نے بہت سے سرحدی قلعے خالی کر دئیے۔ انگریز فوج میں بھرتی قبائلی جوانوں نے بغاوت کرکے انگریزوں کے سینے میں ہی گولیاں داغنی شروع کیں۔ ادھر سے نادرخان ان قبائلیوں کی مدد سے ٹل پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ انگریز نے جب یہاں دیکھا تو ان کے اوسان خطا ہو گئے۔ انہیں پشاور ہاتھوں سے نکلتا   ہوا دکھائی دیا۔ تب انگریز نے افغانستان کو جنگ بندی اور مذاکرات کی پیشکش کردی۔ مذاکرات کے نتیجے میں افغانستان کو مکمل آزادی نصیب ہوئی۔ اگر افغانستان کو ان قبائلیوں کی مدد حاصل نی ہوتی تو وہ کبھی بھی آزادی حاصل نہیں کر سکتے تھے۔ کم سے کم اس موقع پر نہیں۔
امان اللہ جنگ کے بعد خود ان قبائلیوں کا شکری ادا کیا۔ مختلف لوگوں کو تمغے اور نقد انعامات دیئے۔ افغانستان نے تو خود مختاری حاصل کر لی۔ لیکن انگریز قبائل کی بغاوت نہیں بھولا تھا۔ انگریز کی جب سانس میں سانس آئی تو اس نے جنگ میں حصہ لینے والے تمام قبائل کے گاؤں پر بمباری کی۔ گاؤں کے گاؤں ملیا میٹ کر دیئے۔ افغانستان حکومت نے اس وحشیانہ کارروائی پر احتجاج تک نہی کیا۔

سن 1929 میں جب تاجک حبیب اللہ عرف بچہ سقہ نے افغانستان کے تخت پر قبضہ کر لیا۔ اور امان اللہ خان براستہ پاکستان اٹلی چلا گیا۔ تو نادر خان بہ سقہ سے تخت واپس چھیننے کیلئے فرانس سے پاکستان آیا۔ یہاں کے قبائل سے مدد کی درخواست کی۔ اس درخواست کے نتیجے میں وزیر، محسود، داوڑ، بیٹنی اور بنوچیوں کے لشکر خوست پہنچ گئے۔ جرگہ جب بیٹھا تو ملک ڈانڈے مداخیل وزیر نے نادرخان سے کہا۔ کہ جنگ شروع کرنے سے پہلے ہمارا کچھ شرائط اور مطالبات ہیں۔
فتح کے بعد کابل کا تخت امان اللہ خان کو لوٹایا جائے گا۔
ہمیں ایک ایک پستول، ایک ایک بندوق اور ضرورت کا سامان فراہم کیا جائے۔
کامیابی کہ صورت میں خوست میں فی کس ساٹھ جریب زمین دی جائے گی۔
آخر میں ان مطالبات کو لکھ کر نادرخان اس پر اپنے دستخط کرکے ہمیں دے۔
نادر خان نے جب یہ مطالبات سنے تو اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ رندھی آواز میں بولا۔
میں قرآن پاک پر قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جیتنے کی صورت میں تخت پر امان اللہ خان کو بٹھاؤں گا۔ جہاں تک باقی مطالبات کی بات ہے۔ تو آپ دیکھ رہے ہیں کہ اس وقت میں ملنگ ہوں۔ میرے ہاتھوں میں کچھ نہیں ہے اگر ہوتا تو ضرور دیتا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

وزیروں نے یہ سن کر آپس میں مشورہ  کیا۔ اور داوڑ لشکر سے کہا کہ ہم وزیر اپنا اختیار (واک) داوڑوں کو دیتے ہیں۔ آپ جو فیصلہ کریں گے ہم اسے تسلیم کریں گے۔
داوڑ ملک اٹھا۔ اور کہا کہ اے لوگو ہمیں نادر چچا سے کچھ نہیں چاہیے۔ چلیں بسم اللہ کرتے ہیں۔ بچہ سقہ کو ہم دیکھ لیں گے۔
داوڑ ملک نے نادر خان کی طرف کر مڑ کر دیکھا اور کہا کہ نادر چچا اپنے آنسو پونچھ لو۔ ابھی تو می اپنی بیوی کے آنسو نہیں بھولا ہوں جو جنگ کیلئے آتے وقت اس کی آنکھوں میں تھے۔
ڈھول بجے۔ لشکر اٹھا۔ اور پہلے ہی ہلے میں کابل فتح کر لیا۔ اسی لئے سر اولف کیرو نے وزیرستانیوں کو کنگ میکر کہا ہے۔ اس فتح کے بعد نادر خان وزیرستانیوں سے وعدہ خلافی کرکے خود بادشاہ بن گیا۔
1941 میں جب داوڑ قوم کا ایک قبیلہ انگریزوں کی بمباریوں اور حملوں سے ناک تک آ گیا۔ تو اس ایک قبیلے نے افغانستان ہجرت کی۔ لیکن انہیں اس احسان فراموش افغان حکومت نے زبردستی واپس بے یار و مددگار واپس بھیج دیا۔
یہ پاکستان بننے سے پہلے کی افغانستان حکومت کی بے وفائیوں کی داستان تھی۔ قیام پاکستان کے وقت اور بعد میں افغان حکومت کی سازشوں کی کہانی الگ ہے۔ جس پھر کبھی بات کریں گے۔ پشتونستان کا قصہ ابھی رہتا ہے۔
جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply