ماں کا نعم البدل خدا بھی نہیں ۔۔۔۔مجاہد خٹک

میو ہسپتال کے باہر ایک ریڑھی کے ساتھ کھڑا جوس پی رہا تھا کہ والد صاحب اور بڑے بھائی میرے پاس آئے، دونوں کے چہرے پتھرائے ہوئے تھے۔ انہوں نے خاموشی سے میرا ہاتھ پکڑا، ریڑھی والے کو اس کا گلاس واپس کیا اور ہسپتال کی طرف چل پڑے۔

دواؤں کی بکھری بدبو کو کئی دہائیوں سے سونگھتی سیڑھیاں بھی ہماری طرح چپ تھیں، ان کے لیے یہ نظارہ نیا نہیں تھا، ان کے میل زدہ کنارے کئی دہائیوں سے ہم جیسے لاچار جسموں کو سہارا دے کر وارڈ تک پہنچاتے رہے تھے، چند منٹ  پر محیط اس سفر کے دوران وجدان نے ماتم شروع کر دیا تھا جبکہ عقل اسے گلے لگا کر امیدوں کے دلاسے دیتی رہی۔

جب اس کمرے کے باہر پہنچے جہاں میری ماں کئی دنوں سے زیر ِعلاج تھیں تو چند لمحوں کے لیے تینوں کے قدم رُک گئے، میرے بھائی نے دوبارہ میرا ہاتھ تھام لیا، بظاہر وہ مجھے حوصلہ دے رہا تھا لیکن شاید اسے خود زندگی کی حرارت سے بھرپور سہارے کی ضرورت تھی۔

کمرے میں داخل ہوتے ہی دیکھا کہ ماں جی نے سفید چادر اوڑھی ہوئی ہے جس سے باہر نکلے ان کے پاؤں کے انگوٹھے سفید پٹی سے بندھے ہوئے تھے۔ بڑے بھائی نے دونوں پاؤں تھام کر انہیں اپنی آنکھوں سے لگایا اور سسکیاں بھرنا شروع کر دیں۔ خود پر ضبط کرنے کی کوشش میں والد صاحب کے چہرے کے ایک ایک مسام سے غم ٹپکنے لگا اور میں سب کچھ جاننے کے باوجود اس کمرے کی دیواریں تکتا رہا۔

مجھے زندگی میں جب بھی کوئی بڑا دکھ ملتا ہے تو ایک بار تمام جذبے اور حسیات تھم جاتی ہیں۔۔۔ جیسے زندگی کی شاخ سے جڑا ہر عنصر یکایک اپنے تمام رنگ کھو کر زرد پڑ جائے۔ اندر کی دنیا ایک دم سے خاموش اور تاریک ہو جاتی ہے۔ اپنے زندہ ہونے کا یقین حاصل کرنے کے لیے زور زور سے رونے اور چلانے کی کوشش کرتا ہوں لیکن نہ آنسو نکلتے ہیں، نہ کوئی ماتم شروع ہوتا ہے اور نہ ہی ہونٹوں سے کوئی آواز نکلتی ہے۔ بس پورا بدن دکھوں سے بھری ویران آنکھ کا روپ دھار لیتا ہے۔

اس وقت بھی یہی کیفیت طاری ہوئی۔ مجھے یاد نہیں کہ کیسے سب بہن بھائی لاہور سے ڈی جی خان پہنچے۔ بس اتنا یاد ہے اس طویل سفر کے دوران ہر سو مکمل سناٹا طاری رہا، گھر پہنچ کر نہایا، صاف ستھرے کپڑے پہنے، کنگھا کیا اور اس کمرے میں پہنچ گیا جہاں ایک بے جان بدن مٹی کا رزق بننے کے لیے تیار تھا۔ اس چارپائی کے اردگرد سب ماتم کر رہے تھے۔ کوئی میری بہن کو سنبھال رہا تھا تو کسی نے بھائی کو گلے سے لگایا ہوا تھا، سب کی آنکھیں برس رہی تھیں اور تمام لوگ ایک دوسرے کو دلاسے دے رہے تھے۔ میں بس خاموشی سے یہ سب کچھ دیکھتا رہا۔

اس لمحے والد صاحب نے قریب آ کر میرے کان میں کہا کہ ایسے موقع پر کنگھا نہیں کرتے اور نہ ہی صاف ستھرے کپڑے پہنتے ہیں۔ انہوں نے نرمی سے ہاتھ پھیر کر میرے بال بکھیر دیے۔ میرے وجود کو شاید ایسے ہی کسی لمحے کا انتظار تھا، ان کے ہاتھ کا لمس محسوس ہوتے ہی سارا جمود ٹوٹ گیا۔ ذات پر چھائی خاموشی ایک چیخ مار کر ٹوٹی، دل پر جمی سخت برف تڑاخ سے بکھری اور روح کے ایک ایک مسام سے غم کی صورت بہنے لگی۔ وہ لمحہ آگہی کا لمحہ ثابت ہوا اور میں چارپائی سے لپٹ کر زور زور سے رونے لگا۔ اس لمحے میرے وجود نے تسلیم کر لیا کہ اب زندگی اس شفیق ہستی کے بغیر گزارنی پڑے گی۔

اس جدائی کو ایک طویل عرصہ گزر چکا ہے، زندگی نے کئی بار دکھوں کی تیزابی بارشیں برسائی ہیں لیکن ماں جی کی جدائی کا غم ان سب پر بھاری ثابت ہوا ہے۔ ہر دکھ، ہر اذیت وقت کے بھاری پتھر تلے دب کر مٹ جاتی ہے لیکن یہ اذیت کسی سدا بہار پودے کی طرح وجود کی مٹی سے جڑی ہوئی ہے۔

خاموش پڑی ماں کے سفید چادر سے نکلے قدم اس لمحے نصیب کا حصہ بن گئے اور آج تک میری ذات کا جوہر بن کر کہیں نہیں ٹکنے دیتے۔ اس سیماب صفت زندگی میں بس ایک لمحہ کسی تبدیلی، کسی تغیر کے بغیر دل پر جما ہوا ہے۔ وہ لمحہ جب والد صاحب نے بال بکھیرے تھے اور میری روح پر چھایا جمود ٹوٹ کر غم کی نوکیلی کرچیوں کی صورت اختیار کر گیا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

جب بھی کہیں کسی کی ماں کے دنیا سے رخصت ہونے کی خبر سنتا ہوں یہ کرچیاں اچانک نمودار ہوتی ہیں اور دل کے ہر گوشے سے خون رسنا شروع ہو جاتا ہے۔ یہ ایسی ساتھی ہیں جو زندگی کے آخری سانس تک میرے ساتھ رہیں گی۔ اسی لیے مجھے بہت عزیز ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”ماں کا نعم البدل خدا بھی نہیں ۔۔۔۔مجاہد خٹک

  1. اللہ سوہنا آپکی اور تمام احباب جنکے والدین اس دنیا سے جا چکے ہیں ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ ترین مقام عطا فرمائے اور جن کے والدینحیات ہیں ان کو صحت والی زندگی عطا فرمائے اور اولدا کو والدین کیخدمتکرنے کی توفیق عطا فرمائے

  2. اسلام وعلیکم
    آپ کی تحریر پڑھ کر ایسا لگا جیسے میرے دل کی باتیں ایک صفحہ پر رقم کر دی گئی ہو

Leave a Reply