دائمی خوبصورتی۔۔شاکرہ نندنی

میرا بچپن سے یہ نظریہ رہا تھا کہ تعمیرِ زندگی کی بنیاد، باطنی خوبصورتی کی بجائے جسمانی نمود پر ہو۔

میں شاکرہ نندنی اپنی دنیا میں مگن آسمانوں کی سیر کرتی بادلوں پر قدم رکھتی آج اپنی بپتا لکھ رہی ہوں، نہ جانے کب اَجل کا بلاوا آئے اور میری داستان میرے ساتھ راکھ ہو کر کسی دریا میں بہہ جائے۔

یورپی فیشن رسالوں کے صفِ اول پر ہونا میرے لئے اب محض ایک خواب نہیں بلکہ حقیقت تھی۔ میں اِس پر بمشکل یقین کر سکتی تھی۔ میں تو بس رسالوں میں ہونا ، ڈھیروں پیسے کمانا اور یورپی دُنیا گھومنا چاہتی تھی۔ دو وقت کی روٹی کمانے کیلئے جدوجہد بالآخر ختم ہو گئی ۔ اب مَیں پیرس، اپنے نئے گھر میں کھانا کھا سکتی، ناچ سکتی اور قسمت اور شہرت سے لطف اندوز ہو سکتی تھی۔ بالآخر   کیا زندگی یہی سب کچھ نہیں ہے؟

جب 19سال کی عمر میں مَیں نے سنگاپور میں اپنے دور کا آغاز کیا تو خوبصورتی کے بارے میں میرا یہ خیال تھا کہ لو گ میرے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔ اگر لوگ میری تصدیق کر دیتے اور مجھے ماڈلنگ کی نوکری کیلئے رکھنا چاہتے تو پھر مجھے نتیجے کے طور پر خوبصورت ہونا چاہیے تھا۔ میرا نظریہ یہ تھا کہ اگر میں کامیاب ہو گئی اور کام کرنے لگی تو پھر مجھے لازماً خوبصورت ہونا تھا۔ یہ طرزِ فکر خطرناک تھا کیونکہ میں اپنی عزتِ نفس دوسروں کے ہاتھوں میں دے رہی تھی یعنی وہ میرے متعلق کیا سوچتے ہیں۔

میں نے شراکت سے بھی خوبصورتی کا تعین کیا۔ میں دنیا کی چند خوبصورت ترین خواتین کے ساتھ کام کر رہی تھی جو کہ مشہور ترین رسالوں میں نظر آتی تھیں۔ جیسا کہ وہ میرے ساتھ کام کرنے والی میری سہیلیاں تھیں، میں نے سوچا کہ یقیناًمیں بھی اُن کی طرح خوبصورت تھی۔

میں جن مردوں کو متاثر کرتی اُن کی مدد سے میں نے خود کو یقین دلانے کا ایک اور طریقہ استعمال کیا۔ چونکہ بہت سے خوب رو، ذہین اور کامیاب مرد میرے تعاقب میں تھے میں نے سوچا کہ میں خوبصورت تھی۔ میں نامور تھی اور میرے بہت سے دوست بھی تھے۔ جب میں مزید مشہور ہو گئی تو لوگوں نے مجھے جان لیا اور میرے لئے ہر قسم کی دعوت حاصل کرنا اور اپنی پسند کی کسی بھی جگہ جانا مشکل نہ تھا۔ پس اگر مجھے ان سب احباب کا ساتھ اور اپنی پسند کی ہر جگہ گھومنا تھا تو مجھے خوبصورت ہونا چاہیے تھا۔ آخر کار میں خود غرضی کی زندگی بسر کرنے والی  خودغرض اور خودپسند شخصیت بن گئی۔ ’میں ‘،’’ میرے‘‘ اور’’مجھے‘‘ میرے پسندیدہ الفاظ تھے۔ میری پوری زندگی کا نقطہ نظر جسمانی نمود پر تھا۔ یعنی میرا وزن ، میرے بال، میرا پہناوا اور میری ساری دلکشی۔

میں ایک دفعہ چیک ری پبلک میں دو سال کیلئے ماڈلنگ کی ملازمت پر تھی۔ ہر روز ملازم میرے سارے کام کرنے کیلئے آتے ،حتیٰ کہ میرے جوتوں کے تسمے باندھنے بھی ۔ جب مجھے کپڑے تبدیل کرنے ہوتے تو کوئی شخص میرے کپڑے اور کوٹ پکڑے کھڑا ہوتا۔ ایک شخص کی ملازمت کی جگہ پر تین تین لوگ رکھے گئے  تھے۔ ان سب باتوں سے میری خودپسندی اور خودغرضی کی بھوک مٹ گئی۔ مجھے کام کرنے کا بھی نشہ ہو گیا تھا۔ میں ہفتے  میں سات دن تک کام کرتی کیونکہ میں جانتی تھی کہ کوئی چیز قابل بھروسہ نہیں۔ مجھے کسی بھی دن ملازمت سے فارغ کیا جا سکتا تھا۔ میری دلکشی کسی وقت بھی ختم ہو سکتی تھی اس لئے مجھے ہر کام کرنا پڑتا۔ میں سارا دن جرمنی میں کام کرنے کے بعد شام کے وقت ہوائی سفر کے ذریعے پیرس میں کام کرنے چلی جاتی اور اگلی صبح پھر واپس جرمنی میں آ جاتی۔ مجھے یہ سب کچھ کھو دینے کا ڈر تھا اس لئے اِسے ہر قیمت پر تھامے رکھنا تھا۔ پس میں نے ہر وہ کام کیا جس کی میں استطاعت رکھتی تھی۔

نتیجہ یہ ہوا کہ میں تھک کر بیمار ہو گئی۔ ایک دن شوٹنگ کے دوران مجھے چکر آیا اور میں نے گِر کر اپنا گھٹنا زخمی کر لیا۔ اپنے دور میں مَیں پہلی دفعہ بیمار ہو کر بستر پر پڑی تھی۔ کام کرنے کے قابل نہ ہونا میری زندگی کا ایک خوفناک تجربہ تھا کیونکہ اگر یہ صرف دو ہفتوں کیلئے بھی ہوتا تو اس کا مطلب تھا کہ میں ان سارے فیشن شوز کو کھو دیتی جو میں اپنی تندرستی کے دوران کر سکتی تھی۔ مجھے چودہ شوز ختم کرنے پڑے۔ میں تو برباد ہو گئی ، لیکن ایک دن جب میں بستر پر پڑی ہوئی کام کرنے کے قابل نہ تھی، میں نے اپنی زندگی پر غور کیا، خوبصورتی کے بارے میں اپنی قدروں اور خیالات پر سوال اُٹھایا اوریہ سوچا کہ میں اندر سے کیسا شخص بن گئی تھی۔ میں نے خیال کیا کہ خوبصورتی کے بارے میں میرے خیالات نامناسب تھے۔

مثلاً میں نے جان لیا کہ میرے خدوخال تبدیل ہو جائیں گے ۔ میری تصویریں (جو میں نے مختلف رسالوں میں سے پھاڑی تھیں) بہت جلد پرانی ہو گئی تھیں۔ میں نے اپنی تصویروں کو ان رسالوں تک پہنچانے کیلئے بڑی محنت کی تھی اور میری ایجنسی یہ چاہتی تھی کہ اُن کو چھ ماہ کے اندر میرے پورٹ فولیو میں سے نکال دے کیونکہ وہ سب کچھ پرانی طرز کا تھا۔ میں مسلسل نئے دور کے مطابق چلنے کی کوشش کر رہی تھی۔

میں نے یہ بھی دریافت کیا کہ جواں عمری میں اتنی زیادہ دولت حاصل کرنا بھی ایک بہت بڑی بات تھی لیکن میں نے یہ بھی سیکھا کہ اِس کو منتظم کرنے کی ذمہ داری حد سے زیادہ بڑھ رہی تھی۔ میرے اندر یہ سوال بھی پیدا ہوا کہ لوگ مجھ سے کیوں متاثر تھے۔ اگر میں مختلف نظر آتی یا کوئی اور کام کر رہی ہوتی یا میرے پاس اتنی دولت نہ ہوتی تو کیا میرا دوست پھر بھی مجھ سے محبت کرتا؟ ابھی میں اپنے دور کی انتہا پر ہی تھی کہ سوالات اور شک و شبہات مجھے تنگ کرنے لگے۔ میں نے سب چیزوں کے کھوکھلے پن اور اپنے اندر کے خلا کو محسوس کرنا شروع کیا۔ سب چیزوں کے حصول کے بعد جنہیں میں چاہتی تھی، میں نے سوچا کہ ابھی کسی چیز کی کمی تھی۔ یہ ساری کامیابی اور توجہ جو میں نے حاصل کی تھی میرے اندر محسوس ہونے والے خلا کو پُر نہ کر سکی۔ کیا ہو گیا تھا؟ میری ترجیحات کہاں تھیں؟ میں کس شخص یا چیز کیلئے زندگی بسر کر رہی تھی۔

مجھ پر یہ عیاں ہو گیا کہ جن چیزوں پر میں اپنی زندگی تعمیر کر رہی تھی وہ غیرمحفوظ تھیں۔

یہ معاشرتی فکر، میرے دوست کی سوچ، میری کمائی ہوئی دولت کی مقدار یا میری شہرت پر تعمیر کی گئی تھی۔ مجھے خیال آیا کہ میں اپنی زندگی کی بنیاد ریت پر رکھ رہی تھی۔ میں نے اُس وقت پر غور کیا جب میں لاہور میں پلی بڑھی تھی، میرا ایمان تھا کہ میری زندگی میں خُدا کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ حالت کیا تھی؟ میرے والدین کے بیچ طلاق ہوچُکی تھی۔ اُن کا ایمان اُنکی مدد نہیں کر رہا تھا۔

مزید یہ تھا کہ میں اپنی خوبصورتی کا دوسری عورتوں کے ساتھ موازنہ کرتی۔ حسد بھی ایک مسئلہ تھا جس پر میں نے کام کرنا تھا۔ میں نے یہ سیکھنا تھا کہ خُدا نے مجھے جیسا بھی بنایا اور میں جیسی بھی ہوں مجھے اِس بات کو جان کر مطمئن رہنا تھا کہ میں چاہے کچھ بھی کروں اور کیسی بھی نظر آؤں وہ مجھ سے محبت کرتا ہے۔ غیرمطمئن رہنا اچھا نہیں۔ یہ حالت کسی کا دوست بننے یا کسی کو دوست بنانے میں مشکلات پیدا کرتی ہے۔ اور آپ دوسروں سے بہت زیادہ توقعات رکھتے ہیں کہ وہ آپ کی تعریف کریں اور آپ کو مطمئن کریں۔

خُدا نے سب سے پہلے غرور کے خطرے کو مجھ پر ظاہر کیا۔ اس کی وجہ سے مجھے بڑی دیر تک مشکل کا سامنا تھا۔ یورپ میں کاسمیٹک پر سالانہ 20 ارب اور کاسمیٹک سرجری پر 3 ارب یورو اور متوازن صحت کی مصنوعات پر 30 ارب اور 3 کروڑ خرچ ہوتے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم اپنی ظاہری صورت پر کتنا زیادہ پیسہ خرچ کرتے ہیں۔ غرور خوبصورت نہیں ہے۔

خوبصورتی کیا ہے؟ یہ جسمانی صورت نہیں ہے۔یہ تو ہمارے اندر دل میں پائی جاتی ہے۔ عاجزی خوبصورتی ہے اگرچہ یہ میرے کاروبار میں قابلِ قدر نہیں ہے۔ عزتِ نفس اور اطمینان خوبصورت ہیں۔ خُدا کا عرفان خوبصورتی لاتا ہے کیونکہ اِس بات کو جاننے سے کہ وہ ہم سے محبت کرتا اور ہمیں قبول کرتا ہے ہماری زندگیوں میں اطمینان اور عزتِ نفس پیدا ہوتے ہیں۔ اِس کے نتیجہ میں ہم آزادی سے اپنی خامیوں کو قبول کرتے اور خود سے محبت کرتے ہیں۔

خُدا کی معافی کے بغیر گناہ ہمارے باطن کو بدصورت بنا دیتا ہے۔ ہم اطمینان میں نہیں رہتے۔ دُنیا میں ڈھانپنے کے جتنے بھی علاج ہیں وہ ہمیں تبدیل نہیں کر سکتے۔ خُدا اُنہیں دیکھے گا جیسا کہ دوسرے لوگ دیکھتے ہیں۔ صرف ہمارا اخلاق ہی ہمیں خُدا کی نظر میں خوبصورت بنا سکتا ہے۔ حقیقی باطنی خوبصورتی ہماری زندگی کے مرکز سے خُدا کے ساتھ شروع ہو کر باہر کی جانب پھیلتی ہے۔

خُدا! مجھے تیری ضرورت ہے ۔ میرے گناہوں کے لئے تیرے قدموں پر جان دینے کا شکریہ!

میں اپنی زندگی کا دروازہ کھول کر تجھے اپنا نجات دہندہ اور خُدا قبول کرتی ہوں۔ مجھے ابدی زندگی دینے اور میرے گناہوں کو معاف کرنے کا شکریہ!

میری زندگی کو اپنے اختیار میں کر لے اور مجھے وہ شخص بنا دے جو تو بنانا چاہتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اگر یہ دُعا آپ کی دلی خواہش کی عکاسی کرتی ہے تو آ پ ابھی یہ دُعا مانگ سکتے ہیں اور خُدا اپنے وعدے کے مطابق آپکی زندگی میں آ جائے گا۔

Facebook Comments

ڈاکٹر شاکرہ نندنی
ڈاکٹر شاکرہ نندنی لاہور میں پیدا ہوئی تھیں اِن کے والد کا تعلق جیسور بنگلہ دیش (سابق مشرقی پاکستان) سے تھا اور والدہ بنگلور انڈیا سے ہجرت کرکے پاکستان آئیں تھیں اور پیشے سے نرس تھیں شوہر کے انتقال کے بعد وہ شاکرہ کو ساتھ لے کر وہ روس چلی گئیں تھیں۔شاکرہ نے تعلیم روس اور فلپائین میں حاصل کی۔ سنہ 2007 میں پرتگال سے اپنے کیرئیر کا آغاز بطور استاد کیا، اس کے بعد چیک ری پبلک میں ماڈلنگ کے ایک ادارے سے بطور انسٹرکٹر وابستہ رہیں۔ حال ہی میں انہوں نے سویڈن سے ڈانس اور موسیقی میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے۔ اور اب ایک ماڈل ایجنسی، پُرتگال میں ڈپٹی ڈائیریکٹر کے عہدے پر فائز ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply