کرتارپور یا کشمیر؟۔۔۔ ایم۔اے۔صبور ملک

کررتار پور راہدری کھولنے کے معاہدے پر دستخط ہو گئے،لیکن مقبوضہ کشمیر نہ کُھل سکا،پاک بھارت سرحد سے محض تین کلو میٹر دور کا فاصلہ طے ہونے میں 72سال لگ گئے،نجانے لائن آف کنڑول کو ختم ہونے میں کتنے عشرے لگیں گے،ابھی تو سن 1947کے ان تمام شہدا کے خون کی سرخی اسی سرحد ،اسی کرتارپور کی راہوں میں جا بجا نظر آرہی ہے،ابھی تو ہماری ان تمام ماؤں،بہنوں،بیٹیوں کے آنچل چیخ چیخ کر ہم سے یہ پوچھ رہے ہیں کہ ہم تو پاکستان کے نام پر بنا پاکستان دیکھے بنا پاک سرزمین کو چھوئے ،اپنی عزت وناموس بچانے کے لئے قربان ہو گئیں،ہم نے تو اپنی عزت کی لاج رکھنے کے لئے کنوؤں میں چھلانگ لگا دی۔کئی والدین ،کئی ماؤں، کئی بھائیوں نے اس پاکستان کی جانب رختِ  سفر باندھنے سے پہلے اپنی جوان بیٹیوں،اپنی ماؤں،اپنی سہاگنوں کو اپنے ہاتھوں تہ تیغ کرد یا، تاکہ وہ ہندوؤں اور سکھوں کے ہا تھ نہ آسکیں،ہاں یہ وہ سرحد ہے جس پر سفر پاکستان والوں کا لہو گرا تھا۔

یہ کون سی مذہبی رواداری ہے ،یہ کو ن سی دوستی ہے، یہ کون سا امن کا پرچار ہے؟۔۔بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ بھارت ایک ہے یا دو؟کیا،مقبوضہ کشمیر کا بھارت،کیا گجرات سمیت پورے ہندوستا ن میں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے والا ہندؤ بنیا،کرتاپور آکر بدل گیا؟یا یہ کوئی اور بھارت ہے؟ مقبوضہ کشمیر میں کرفیو کو نا فذ ہوئے سنچری ہونے کو ہے،بے بس،مہقور،لاچار،مظلوم کشمیری ہر روز ایک نئی آس لئے پاکستان کی جانب دیکھتے ہیں،لیکن وہاں تو بھارت سے جذبہ خیر سگالی کے تحت کرتارپور راہدری کھولنے کا معاہد ہ ہو رہا ہے،ایک لحاظ سے یہ اچھا ہی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں کرفیو کے باعث انٹرنیٹ سروس بند ہے وگرنہ اگر آج وہاں صرف انٹر نیٹ ہی کھلا ہو تا اور جب کشمیر پاکستان کو کرتاپور راہداری کھولنے کے لئے بھارت سے معاہد ہ کرتے دیکھتے تو ان کے دلوں پر کون سا قہر بیت جاتا ،اس کا اندازوہی لگا سکتا ہے، جس کو مظلوم کی مجبور آواز راتوں کو چین نہیں لینے دیتی،کشمیریوں کی آس اور اُمید کا دامن ٹوٹ جاتا،ان کابھرم باقی نہ رہتا،اللہ کا واسطہ ہے ڈرو اس وقت سے جب قدرت کا قانونِ  مکافات حرکت میں آجائے،قوم کے ساتھ،کشمیر یوں کے ساتھ اس سے بڑا اور بھیانک ترین مذاق اور کیا ہو گا،کہ بھارت ایل او سی پر سول آبادی اور ہمارے فوجیوں کو نشانہ بنا کر شہید کر رہا ہے.

1947 کے بعد پہلی بار دونوں ملکوں کے درمیان ڈاک سروس بھی بند ہو چکی ہے،سفارتی تعلقات برائے نام رہ گئے ہیں،ایسے میں کون سی افتاد آن پڑی تھی کہ کرتار پور کھولنا لازم ہو گیا تھا؟کاش کرتار پور راہداری کھولنے سے پہلے بھارت پر دباؤ ڈالا جاتا کہ وہ اور نہیں تو کم ازکم پہلے مقبوضہ کشمیر سے کرفیو اُٹھائے،مقبوضہ وادی کی خصوصی حیثیت کو دوبارہ بحال کرے،بھارت جیلوں میں قید بے گناہ پاکستانیوں کو رہا کرے،کوئی ایک مطالبہ ہی منوا کر اگر کرتارپور کھولا جاتا تو پھر بھی ہم کسی حد تک شرمندگی سے بچ سکتے تھے،عالمی برادری میں جب ہم کرتارپور کھولنے کے بعد کشمیر کا مسئلہ لے کر جائیں گے تو کون سنے گا ہماری؟..عالمی دنیا کوئی پاکستانی عوام تھوڑی ہے جسے بے وقوف بنایا جاسکے۔ایک طرف رسمی سفارتی تعلقات،ایک طرف ڈاک سروس بند،سمجھوتہ ایکسپریس۔کھوکھرا پار مونا باؤ ریل بند،سری نگر چکوٹھی بس سروس،لاہور دہلی بس سروس،دوطرفہ تجارت بند،اور سب سے بڑھ کر شہ رگ پاکستان مقبوضہ کشمیر میں سنچری کے قریب پہنچا کرفیو،ایل او سی پر گولہ باری،فائرنگ،سول آبادی اور فوجی شہید،اور دوسری طرف اُسی دشمن بھارت کے ساتھ کرتارپور میں محبت کی پینگیں،یا للعجب۔بقول شاعر

تم قتل کرو ہو یا کرامات کرو ہو،

قاتل سے بھی ہمدردی، مقتول سے بھی یاری

Advertisements
julia rana solicitors

ایک طرف ہر جمعہ کو یو م یکجہتی کشمیر اور دوسری طرف کرتارپور،میرا مقصد نہ تو کرتارپورراہداری پر تنقید کرنا ہے اور نہ ہی کسی قسم کی مذہبی انتہا پسندی یا سکھ مذہب کے ساتھ کوئی خار یا دشمنی،دنیا جانتی ہے کہ اقلیتوں کے حوا لے بھارت کے مقابلے میں پاکستان کی صورتحال کافی بہتر ہے،گو اسے مکمل تسلی بخش یا قابل رشک نہیں قرار دیا جاسکتا لیکن پھر بھی اگر اس کا موازنہ بھارت کے ساتھ کیا جائے تو کافی بہتر سکور ہے ہمارا،کرتارپور راہداری بھی پاکستان کی اسی پالیسی کا ایک حصہ ہے،جو یقینا ًایک احسن اقدام ہے،لیکن جن حالات میں یہ قدم اُٹھایا گیا ہے وہ اس بات کے متقاضی نہیں کہ اتنی جلدی دکھائی جاتی،اس وقت کشمیر کا مسئلہ پوری دنیا کے سامنے فلیش پوائنٹ بن چکا ہے،پاکستان کو ساری توجہ اس جانب دینی چاہیے،خاص طور پر پاکستان کے ان تمام دوست ممالک جن کے بھارت کے ساتھ تجارتی مفاد ات وابستہ ہیں،وہاں موثر لابنگ کر کے بھارت کو تجارتی سطح پر تنہا کیا جاتا تو اس سے ہندؤ بنیا جو کہ کاروباری جوڑ توڑ اور پیسے کا پجاری ہے اسکو جب مالی نقصان ہوتا تو وہ ساری اکڑ فوں بھول جاتا،لیکن ہمارے سیانوں پر تو ہر دم بھارت سے دوستی کا بھوت سوار رہتا ہے،چاہے بھارت مقبوضہ کشمیر کے مظلوم کشمیریوں کے ساتھ کوئی بھی ظلم رواء رکھے،ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں،اللہ ہمیں ہدایت دے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply