دنیا کون چلا رہا ہے؟- تحریر: لوئیس قوام/مترجم- مہ ناز رحمان

” گذشتہ دنوں مجھے لوئیس قوام کی کتاب ” دنیا کون چلا رہا ہے”پڑھنے اور مصنفہ سے ملنے کا اتفاق ہوا تو سوچا کہ مکالمہ کے قارئین تک اس کتاب کا مرکزی پیغام پہنچایا جائے۔” ہم سے جب یہ پوچھا جاتا ہے کہ ہم نئی نسل کے لئے کیا چاہتے ہیں تو ہم میں سے اکثر کا یہی جواب ہوتا ہے کہ ہم ان کے لئے ایک بہتر دنیا چاہتے ہیں،لیکن بحرانوں میں مبتلا اس دنیا میں جہاں ایک کے بعد دوسرا بحران آتا رہتا ہے ہم کیسے ایک بہتر دنیا بنا سکتے ہیں۔میں سمجھتی ہوں کہ ہم سب جانتے ہیں کہ کیا غلط ہو رہا ہے یا ہوسکتا ہے لیکن بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ کیا صحیح ہو سکتا ہے۔ ہم سب اپنی زندگی کو با معنی کیسے بنا سکتے ہیں۔ہم اپنے تجربات اور اقدار کو اپنے اور دوسروں کے لئے فائدہ مند کیسے بنا سکتے ہیں اور اتنے سارے چیلنجزکے باوجود ہم اس بات کو کیسے یقینی بنا سکتے ہیں کہ ہم دنیا میں کوئی بڑا کام کر رہے ہیں۔کون درحقیقت اس دنیا کو چلا رہا ہے۔اس عہد کی سب سے اہم پیش رفت یہ ہو سکتی ہے کہ عورتوں کو آگے بڑھایا جائے۔ان کے لئے وسائل مختص کئے جائیں، ان پر سرمایہ کاری کی جائے۔اس بات کو دوسرے لفظوں میں یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ آپ کا مقصد یا جذبہ کچھ بھی ہو ،آپ کسی بھی مخصوص نصب ا لعین کے لئے کام کر رہے ہوں، دنیا بھر کی عورتیں بھی آپ کے نصب ا لعین کا حصہ ہیں۔ اس وقت دنیا میں بہت سی عورتیں ایسی ہیں جو تعلیم یافتہ ہیں انہیں تولیدی صحت کی سہولتیں اور روزگار کے مواقع حاصل ہیں۔ایسی خواتین کو اپنی زندگی کا راستہ  خود بنانے اپنی زندگی میں تبدیلی لانے کے ساتھ اپنے خاندان اور کمیونٹی اور دنیا میں تبدیلی لانے کا موقع ملا۔ لیکن آج بھی عورتوں کو ذاتی اور عالمی سطح پر بہت سے چیلنجز کا دباؤ برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ان چیلنجز کی روشنی میں جب کوئی بھی عورت پوچھتی ہے کہ وہ کیا کر سکتی ہےتو بعض اوقات جواب ملتا ہے کہ وہ ایسا کچھ نہیں کر سکتی جس سے کوئی خاطر خواہ فرق پڑتا ہو۔

میرے خیال میں اس کی وجہ یہ ہےکہ معاملہ کچھ ایک نہیں بلکہ بہت کچھ سدھارنے کا ہے۔اور یہ بہت کچھ ہماری آنکھوں کے سامنے ہے۔اس وقت دنیا کا بہت بڑا ٹیلنٹ گھر میں رہتے ہوئے زندگی کی روزمرہ جدوجہد میں پھنسا ہوا ہے۔ہمیں اس کی مہارتوں، توانائی اور اختراعی قابلیت کو سامنے لانا ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ ہر ایک کو اپنے اور دوسروں کے لئے بھی زندگی میں اپنی بھر پور استعداد کے استعمال کا موقع ملنا چاہیے۔ مقفل دروازوں کو کھول کر عورتوں کی صلاحیتوں، مہارت اور توانائی کو سامنے لا کر عالمی ترقی کے عمل کو تیز کیا جا سکتا ہے۔”بہت کچھ سدھارنے” سے مراد یہی ہے۔

کہتے ہیں کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔میں سمجھتی ہوں موجودہ دور میں اس محاورے کا استعمال یوں ہونا چاہئیے کہ ہمیں ایسی ماؤں کی زیادہ ضرورت ہے جو موجد ہوں یعنی کچھ ایجاد کر سکیں۔ہر جگہ اور ہر سطح پر مقفل دروازے کھولنے کا وقت آ گیا ہے۔میں سمجھتی ہوں کہ اس وقت ہم جو سب سے زیادہ اثر انگیز فیصلہ کر سکتے ہیں ،وہ عورتوں اور بچیوں کی اعانت ہے۔ دنیا بھر میں عورتوں اور بچیوں نے بارہا ثابت کیا ہے کہ انہیں کسی سے کمتر نہ سمجھا جائے۔ہم لیڈر ہیں، ہم مائیں ہیں، ہم ٹیچرز ہیں، ہم صحت اور طب کے شعبے میں کام کرتی ہیں، ہم آرٹسٹ ہیں،سائنسدان ہیں، بیویاں ہیں اپنے گھرانوں کی کفیل ہیں اور گھروں میں کھانا بھی بناتی ہیں۔ہم دنیا کی نصف آبادی ہیں لیکن ہر روز ہم میں سے بہت سی عورتیں غیر ضروری طور پر حاملہ ہونے کے نتیجے میں موت کے گھاٹ اتر جاتی ہیں دیہی علاقوں سے لے کر دنیا کے امیر ترین شہروں تک ہر جگہ عورتوں کو پیچھے رکھا گیا ہے۔عام طور پر عورتوں کو اتنے وسائل  میسر  نہیں ہوتے کہ وہ اپنی صحت کے بارے میں مکمل معلومات کے ساتھ فیصلے کر سکیں۔اور اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ اکثر صورتوں میں عورت کو یہ فیصلہ کر نے کا اختیار ہی نہیں دیا جاتا۔عورت کے جسم اور زندگی کے بارے میں یا تو قانون کے ذریعے یا پھر سماج کے علم برداروں کے ذریعے فیصلے کئے جاتے ہیں۔اگر عورتوں کو فیصلے کرنے کا حق نہیں دیا جائے گا تو پھر یہ دنیا ان کی تو نہ ہوئی۔

Advertisements
julia rana solicitors

لیکن ہمیں سمجھنا چاہیے کہ دنیا میں سب ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ہم ایک ساتھ اُبھریں گے اور ایک ساتھ ڈوبیں گے۔ہمیں سب کے بھلے کےلئے سوچنا ہو گا۔موسمیاتی تبدیلیوں اور دیگر چیلنجز کا مقابلِہ کرنے کےلئے سب کو مل جل کر کام کرنا ہو گا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply