لوٹا تو میرے پاس آیا۔۔۔محمد افضل حیدر

اس نے گھر سے نکلتے وقت ہمیشہ کی طرح دروازہ زور سے بند کیا اور پتہ نہیں کہاں چلا گیا۔ یہ سب اب اس کا معمول بنتا جا رہا تھا۔۔ وہ گھر میں موجود ہوتا تو خاموش رہتا یا پھر مریم کو نظرانداز کرکے باہر چلا جاتا۔

مریم   ایثار و قربانی  کا پیکر بنی ہمیشہ کی طرح اس کی ہر تلخی و ترشی کو برداشت کرتی۔جاوید کا رویہ شروع دن سے ہی اس کے ساتھ سرد تھا۔ اس نے ہر ممکن کوشش کی کہ جاوید کسی طرح اس کی زلفوں کا اسیر بن جائے مگر ایسا ممکن نہیں ہو سکا۔ جاوید کے من میں کیا ہے اور وہ اس شادی سے خوش کیوں نہیں ہے وہ یہ کبھی جان نہیں پائی ۔شام ہوتے ہی جب وہ کام سے گھر آتا تو مریم اس پہ نچھاور ہونے کی ہرممکن کوشش کرتی۔ اس کو مشروب پیش کرتی رات سوتے وقت اس کے پاؤں دباتی مگر وہ ہمیشہ کی طرح اس کے ساتھ بے اعتنائی  ہی برتتا۔اس سے منہ موڑ کر سوتا اور سرد مہری برتنے کی کوشش کرتا۔وہ کوئی  بات کرتی تو اس کا جواب محض ہوں ہاں میں ہی دیتا، کبھی کُھل کر اور مناسب لہجے میں اس سے بات نہ  کرتا۔ شادی کو محض چھ ماہ ہی تو ہوئے تھے اوپر سے جاوید کا یہ کھچا کھچا سا رویہ اس کی جان نکالتا تھا۔

بن ماں باپ کی یہ بیٹی کیا اتنی بے وقعت اور بے آسرا ہے کہ اس کے ساتھ نکاح جیسے مقدس بندھن میں بندھنے والا اس کا اپنا شوہر اس سے یوں منہ موڑ لے گا ،اس نے کبھی نہیں سوچا تھا۔ وہ ہر وقت سوچوں کے بھنور میں غوطہ زن رہتی۔ہر وقت یہ خیال اس کے دامن گیر رہتا کہ جاوید اس کے ساتھ ایسا کیوں کررہا ہے۔اگر اس نے ایسا کرنا تھا تو اس کے ساتھ شادی کے لئے ہاں ہی کیوں کی۔ مریم شکل و صورت میں بھی  معمولی نہیں تھی۔قد کاٹھ،اچھے  چہرے مہرے کی قابلِ  قبول لڑکی تھی ،پھر بھی جاوید کا ایسا بے مروت رویہ,وہ سمجھنے سے قاصر تھی۔اس نے متعدد بار جاوید سے پوچھنے کی کوشش کی ،مگر اس سے کبھی بھی کوئی  جواب بن نہیں پاتا۔

یہ احساس اسے اندر ہی اندر کھائے جا رہا تھا کہ جاوید نے اس کے ساتھ ایسا دھوکا کیوں کیا۔

وہ سوچتی ،کیا اس سے شادی کرکے جاوید نے اس پہ کوئی  احسان تو نہیں کیا۔ وہ جاوید کے محسن کی بیٹی تھی، کہیں اس نے اپنے محسن کے احترام میں مجبور ہو کر اس سے شادی تو نہیں کی ؟ کیا کہیں جاوید نے بسترِ  مرگ پر پڑے اپنے کمزور و نحیف مالک مکان کی آخری خواہش کی تکمیل میں مجھ جیسی لاوارث پر ترس کھا کر شادی تو نہیں کی۔ کیا وہ اتنی ارزاں   تھی کہ کوئی  بھی اس پر ترس کھا کر شادی کر لیتا۔

کیا وہ کوئی  مالِ  غنیمت یا خیرات میں بانٹنے والی بے وقعت چیز تھی جس کو کسی کی بھی جھولی میں پھینک دیا جاتا۔ اگر شادی دو لوگوں کے درمیان محض ترس اور لطف و کرم کا ایک معاملہ تھا تو پھر جاوید ہی کیوں اس کے مقدر میں لکھ دیا گیا تھا، جو کہ شادی کے بعد سے اس کی طرف نظر اٹھا کر دیکھنے کا روادار نہیں تھا۔ شادی تو فطرت کا ایک حسین و رنگین باب تھا مگر اس کے مقدر پہ لکھا یہ باب جذبات و احساسات کے تمام تر فطری تقاضوں سے عاری و مبرا اور یکسر  بے پروا ہ تھا۔ ایک کورے کاغذ کی طرح صاف اور خالی خالی سا۔۔

دن کا چڑھتا سورج اور شام کے ڈھلتے سائے اس کے لئے خود فریبی کے نئے دن کا آغاز و اختتام ثابت ہوتے۔ ہر آنے والا نیا دن اس کے لئے اذیت اور محرومی کے نئے خیالی سلسلے کو فروغ دینے کا باعث بنتا۔ اس کا دل چاہتا وہ اس نام نہاد رشتے کا سارا خودساختہ بھرم توڑ ڈالے اور سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر کہیں بھاگ جائے مگر تنگیء داماں کا احساس اسے کان سے پکڑ کر جھنجھوڑ ڈالتا۔ دنوں کے گزرنے کا بوجھ وہ چارو نا چار اٹھاتی رہی اور اندر ہی اندر گھلتی رہی۔

جنوری کی ایک سرد شام جاوید کام سے گھر آیا تو اب کی بار کسی بے تُکی اور لا یعنی سی بات سے بگڑ کر واپس باہر نہیں گیا۔مریم کھانا لیکر آئی  تو اس نے انگلی کے اشارے سے منع کر دیا، وہ کسی گہرے صدمے میں تھا۔ پہلے ڈرائنگ روم میں پڑے صوفے پر کسی بت کی مانند بے حس و حرکت بیٹھا رہا، پھر سامنے دیوار کے ساتھ لٹکی ایل ای ڈی کو چلا  کر  شیشے کی میز پر ٹانگیں ٹکا کر چینل پہ چینل بدلتا رہا۔آخر تنگ آکر باہر لان میں چلا گیا اور لمبے لمبے سانس لینے لگا۔ اس کا چہرہ سرخ اور اترا ہوا تھا۔ اس نے جیب سے سگریٹ کا پیکٹ نکالا اور سگریٹ سلگا لی۔۔ اب اسے لان میں آرام کرسی پر بیٹھے ایک گھنٹے  سے زیادہ  ہو چکا تھا، باہر شدید سردی اور سخت کہرا تھا۔ شدید  دُھند میں سگریٹ کا دھواں چھپنے کے لئے جگہ تلاش کرتا پھر رہا تھا۔ہلکی ہلکی روشنی گھر کے دالان سے باہر جھانک رہی تھی۔ وہ ایک کے بعد ایک سگریٹ سلگا رہا تھا ،سامنے میز پر پڑی ایش ٹرے میں مکمل اور نیم بجھے سگریٹ کے ٹکڑے اوپر تلے لاشوں کی طرح پڑے تھے۔ اتنی شدید سردی میں گھر کے لان کی  بھیگی کرسی پر بیٹھ کر اس کا یوں سگریٹ پہ سگریٹ سلگانا مریم کے لئے حیران کُن تھا، اس نے ایک دو بار اُس کے پاس جانے کی کوشش کی ،مگر  ڈر کے مارے  اِس کے قدم رُک سے گئے۔ شب کے نو بجے وہ کمرے سے باہر لان میں آئی  اور اُس کے پاس پڑی چھوٹی سی بنچ پر جا کر بیٹھ گئی۔

“کیا بات ہے جاوید آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی “؟اس نے ڈرتے ڈرتے اس سے پوچھا۔۔
اس نے سگریٹ کا ایک طویل کش لیا اور بدستور خاموش رہا۔۔
“جاوید میں آپ سے پوچھ رہی ہوں۔۔ خدا کے لئے مجھے بتائیے کہ کیا بات ہے؟ سخت سردی ہے آپ اندر آجائیں۔۔”
اس نے پھر کوئی  جواب نہیں دیا اور پہلے کی طرح خاموش رہا۔۔
اس نے آگے بڑھ کر اس کے منہ سے آدھا پیا ہوا سگریٹ نکالا اور اسے کندھے سے پکڑ کر اندر کمرے میں لے گئ۔ کچھ دیر بعد وہ اسے کمرے میں چھوڑ کر کچن میں گئ اور وہاں سے ایک گرم دودھ کا گلاس لاکر اس کو زبردستی پلا دیا۔ اس کے کاندھوں پر گرم چادر ڈالی اور سر کو اونی ٹوپی سے ڈھانپا اور خود اس کے قدموں کی جانب بیٹھ کر اس کی ٹانگیں دبانے لگی۔
“اب آپ کی طبیعت کیسی ہے؟”
“طبیعت کو کچھ نہیں ہے مریم۔۔ دل افسردہ ہے۔”
“مریم۔۔۔۔ ”
اسے خوشگوار حیرت ہوئی،  جاوید کے منہ سے اپنے  نام کو سننے کے لیے اس کے کان ترس گئے تھے اور اس نے لمحہ بھر کی اتنی سی توجہ کے لئے پورا ایک سال انتظار کیا تھا۔
وہ اسی سرشاری میں وہاں سے اٹھی اور اس کے ساتھ جا کر لیٹ گئی ۔ سر سے اونی ٹوپی ہٹا کر ایک ہاتھ سے اس کے بالوں کو سہلایا اور دوسرے ہاتھ سے اس کا ہاتھ تھام کر انگلیوں میں دبا لیا۔ اس کا ہاتھ گرم اور جاوید کا شدید سرد تھا۔
“میں آپ کی شریک حیات ہوں۔۔جو بھی بات ہے مجھے بتائیں۔۔ دل کیوں اداس ہے۔۔ کسی کو بتانے سے بھی دکھ ہلکا ہو جاتا ہے۔۔ ”
اس نے ایک طویل سرد آہ بھری اور کچھ ثانیے مریم کے چہرے کی طرف ٹکٹکی سی باندھ کر دیکھنے لگا۔ آج کتنے دنوں بعد اس نے اپنی بیوی کے چہرے کی طرف یوں نظریں ٹکا کر دیکھا تھا۔
اس کا گول مٹول سرخ و سفید چہرہ اور ان پر دھری دو موٹی موٹی زندگی کی چمک سے لبریز آنکھیں اس کو کتنی بھلی لگ رہی تھیں۔۔
اس نے مریم کے کاندھے سے سر ٹکایا اور اس کے گلے سے ایک سسکاری سی بر آمد ہوئی ۔۔ کسی چھوٹے سے بچے کی طرح وہ بلک بلک  کر رودیا۔۔ روتے روتے گویا ہوا۔
“اس کا نام زرقا تھا ،ہم اکٹھے ایک ہی یونیورسٹی میں پڑھتے تھے۔ چند ملاقاتوں میں ہی مجھے اس کے ساتھ محبت ہوگئی  تھی, وہ بھی محبت کا دم بھرتی تھی مگر۔۔
میں اس کے ساتھ شادی کرنا چاہتا تھا مگر دونوں خاندانوں کی طرف سے رکاوٹ تھی۔ میں نے اس کے لئے اپنے گھر والوں کو چھوڑ دیا۔ گاؤں چھوڑ کر شہر آگیا۔ میں وقت سے بہت آگے چلنے کی کوشش کر رہا تھا مگر وقت نے مجھے گرایا ،میرے اوپر پاؤں رکھے اور چھلانگیں لگاتا مجھ سے آگے نکل گیا۔وقت نے مجھے تم لوگوں کے گھر میں لاکر ٹھہرایا۔مولوی صاحب کی محبت اور شفقت نے ماں باپ کی یاد کو دھندلا کر دیا۔وہ مرتے وقت تمہارا ہاتھ میرے ہاتھ میں نہیں مجھے بہت ساری خوش فہمیوں سے نجات دے گئے ۔تم سے شادی شاید میرے مقدر میں لکھ دی گئی  تھی، جس کو چاہتا بھی تو رَد نہیں کر سکتا تھا۔میری نا سمجھی کہ میں نے اپنا گھر بچانے کے بجائے اپنی محبت کو بچانے کی کوشش کی۔ میں نے سوچا میں شادی کے بعد بھی زرقا  کو اپنا لوں گا، اس سے دوسری شادی کرکے اسی گھر میں لے آؤں گا مگر یہ میری بھول تھی۔ جسے میں اپنا سمجھتا رہا وہ میری تھی ہی نہیں۔آج اس کی رخصتی نہیں میری اپنی زندگی میں میری واپسی تھی۔ مجھے معاف کردو مریم میں تمہیں نظر انداز کرتا رہا۔ تمہیں دھوکا دیتا رہا۔ کتنا نا سمجھ تھا میں ،جو چیز میری تھی اسے دھتکارتا رہا اور جو میری تھی ہی نہیں اس کے پیچھے بھاگتا رہا۔
آج زرقا  نے مجھے دھوکا نہیں دیا، بلکہ مجھ پر احسان کیا ہے۔ اس نے مجھے میرے گھر واپس لوٹ آنے کا رستہ دکھایا ہے۔
مجھے معاف کردو مریم، خدا کے لیے مجھے معاف کردو۔ ”

Advertisements
julia rana solicitors london

اس کی بات ختم ہونے کے بعد مریم نے   ایک   سرد آہ بھری,آنسوؤں سے تر اور ندامت سے اَٹے اس کے چہرے کو اپنے گرم ہاتھوں کی ہتھیلیوں سے صاف کیا اور اسے اپنے بازوؤں میں بھینچ کر مدہم سی آواز میں کہا ۔۔
“کوئی  بات نہیں جاوید۔۔۔کوئی بات نہیں!

Facebook Comments

محمد افضل حیدر
محمد افضل حیدر شعبہء تدریس سے وابستہ ہیں.عرصہ دراز سے کالم , اور افسانہ نگاری میں اپنے قلم کے جوہر دکھا رہے ہیں..معاشرے کی نا ہمواریوں اور ریشہ دوانیوں پر دل گرفتہ ہوتے ہیں.. جب گھٹن کا احساس بڑھ جائے تو پھر لکھتے ہیں..

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply