عصمت (افسانہ)۔۔انعام رانا

“میں تم لوگوں سے تنگ آ گیا ہوں اور سب کچھ تیاگ کر پاک پتن جا رہا ہوں، باقی کی عمر بابا فرید کے مزار پہ گزاروں گا۔ اب مجھ سے کوئی رابطہ نہ  رکھا جائے”

جمال کا لکھا نوٹ پڑھ کر عصمت کو یقین تھا کہ وہ یا تو باتھ روم میں ہو گا یا شاید اب تک اس نوٹ کو بھی بھول کر باہر دالان میں سگریٹ پیتے ہوئے  فکرِ  سخن میں مبتلا ہو گا۔ شاعر کے ساتھ گزارے پچھلے چھتیس برس کی بِنا پہ اسے اپنے یقین پہ مکمل اعتماد تھا۔

دونوں بہت نوجوان تھے جب کراچی یونیورسٹی میں جمال کے مصرعوں نے عصمت کے دل کے ساز پہ دھن بنائی تھی اور وہ دونوں ہی اس دھن پہ بے اختیار ناچ اٹھے تھے۔ عمر اک ایسی بھی آتی ہے جب مرد کی گاڑی اور بنگلہ نہیں اسکے آدرش بھلے لگتے ہیں اور مرد، حُسن  گورے رنگ کے بجائے ذہانت بھری گفتگو میں دھونڈتا ہے۔ عورت کا بانکپن کھلتا نہیں بلکہ انگیخت کرتا ہے اور مرد کا لا ابالی پن جھنجھلاہٹ کے بجائے چھاتیوں میں سرسراہٹ پیدا کرتا ہے۔ فریقین ادب کے پرستار ہوں تو محبت کے ابتدائی اُبال کے بیٹھنے کے بعد بھی جڑے رہنے کو کافی کچھ باقی رہتا ہے، بچوں کا سہارا نہیں لینا پڑتا۔ ہاں شو مئی قسمت سے دونوں خود بھی ادیب ہوں تو تمام عمر تنی ہوئی رسی پہ بازی گری کرتے گزرتی ہے۔

مگر عصمت کے اندر کی عورت نے اسکے ادیب کو خوب قابو کر رکھا تھا۔ عورت جسے مرد کو اسکی کجیوں کمزوریوں کے ساتھ اپنانا آتا ہے، جو خود پہ سہہ کر بھی گھونسلہ نہیں ٹوٹنے دیتی۔ جو مرد کی اَنا کو تسکین پہنچاتے ہوئے  اسکی ڈور ڈھیلی بھی چھوڑتی ہے اور کھینچ بھی لیتی ہے۔ اور جمال تو پھر اسکا محبوب بھی تھا اور محبوب شاعر بھی۔ ہاں کرتے ہوئے وہ جانتی تھی کہ شاعر سے نِباہ عام عورت کے بس میں نہیں ہوتا اور یہ بھی کہ وہ عام عورت نہیں۔ تمام عمر وہ جمال کی ڈور کو ذہانت سے تھامے رہی۔ اگر کبھی تناؤ  آیا تو ڈھیل دے دی، ڈھیل زیادہ بڑھی تو کھینچ لیا۔ اس ساتھ نے جمال کی زندگی اچھی گزروا دی اور اسکی شاعری نجی بیٹھکوں سے نکل کر عالمی مشاعروں تک جا پہنچی۔ اسکا ہر نیا شعر اس رشتہ کی کامیابی کا اعلان تھا۔

شاعر کا شعر مگر جس آگ میں تپ کر کندن بنتا ہے وہ آگ شاعر کو اپنی ہڈیوں سے جلانی پڑتی ہے۔ اسکا تخیل کبھی مدار سے یوں باہر نکل جاتا ہے کہ واپسی پہ یہ زمین، یہ زندگی اسے زہر لگتی ہے۔ جمال بھی ایسی ذہنی الجھنوں میں ڈوبتا تھا مگر عصمت بہت پیار سے اور کبھی سختی سے اسے باہر نکال لاتی تھی۔ مداح کب جانتے تھے کہ صاف ستھرا خاموش طبع شاعر جس مصرعے پہ واہ واہ وصول کر رہا ہے اسکا کرب شاعر ہی نہیں اسکی بیوی اور اولاد نے بھی جھیلا تھا۔ مداح کا شاعر دیوتا ہوتا ہے جو کبھی غلط نہیں ہوتا، مگر بیوی کا شوہر اور اولاد کا باپ کن کجیوں کا شکار ہے یہ فقط وہ جانتے ہیں۔

جمال مداحوں کی کمی کا کبھی شکار نہ  رہا اور جیسا کہ شعرا ء کی قسمت ہے تو خواتین مداحوں کا حلقہ مردوں کی نسبت وسیع تھا۔ عصمت نے جمال کی حسن پرستی کو مگر اسکی شاعری کا لازمی مصالحہ سمجھ کر قبول کر لیا تھا۔ ویسے بھی وہ جانتی تھی کہ شاعر کی حدود کیا ہیں۔ ایسے میں جب رباب کا نام گفتگو میں بارہا آنے لگا تو اسے بالکل بھی حیرت نہ  ہوئی بلکہ کہہ کر اسے گھر بلا لیا۔ جمال اکثر رباب سے گفتگو کر کے اپنے ڈپریشن کو کم کر لیتا تھا اور عصمت خوش ہو جاتی کہ تنک مزاجی اور موڈ سونگز میں کمی آ رہی ہے۔ مگر پھر جمال کو عصمت میں کمیاں نظر آنے لگیں۔ اسکا پکایا مزیدار نہ  رہا، اسکا لکھا بے باک لگنے لگا اور بچوں کی ہر غلطی کی وجہ عصمت کی بُری  تربیت  ٹھہری۔ عصمت کو یقین تھا کہ ایک فیز ہے گزر جائے گا مگر ٹھہر گیا تھا۔ اب جو   سُن گُن  لی تو معلوم ہوا کہ مداح نے شاعر کو احساس دلایا تھا کہ وہ کتنا بڑا شاعر ہے، دیوتا ہے اور اسکی بیوی اور بچے اسے فقط انسان سمجھ کر برتاؤ کرتے ہیں۔ دیوتا سنگھاسن پہ بیٹھ گیا تھا۔ عصمت نے ڈور کھینچنا چاہی مگر ہوا اتنی تیز تھی کہ انگلیاں لہولہان ہو گئیں۔

چودہ روز گزر چکے تھے جب عصمت کا چھتیس سالہ رفاقت سے ملا یقین ٹوٹا اور جمال نہ  باتھ روم میں تھا اور نہ  دالان میں۔ وہ جا چکا تھا۔۔

موبائل بند تھا اور جس سے پوچھیے وہ جمال کے حال سے لاعلم۔ بچے اب جوان تھے اور ماں کی مانند باپ کے اس لااُبالی پن کے قدردان نہ  تھے۔ وہ ماں کو گھبرائی بلی کی مانند ہر اس جگہ بھاگتے دیکھتے جہاں جمال بیٹھتا تھا یا بیٹھ سکتا تھا ،تو چڑ جاتے۔ عادل جو بڑا تھا اور کئی برسوں سے ماں کو تنی ہوئی رسی پہ بازیگری کرتے دیکھ رہا تھا چلا اٹھا، اب بس کیجیے، خود گئے ہیں تو خود ہی آ جائیں گے۔ مگر وہ کب جانتا تھا کہ نوجوانی کی جس دھن پہ عصمت نے ناچنا شروع کیا تھا اسکی لے رفاقت نے مزید تیز کر دی تھی۔  خبر  ملی کہ ایک بڑے مداح کو جمال کا معلوم ہے کیونکہ وہی آخری بار کراچی ایئرپورٹ پر جمال کے ساتھ دیکھا گیا تھا۔ سو اسکے گھر جا پہنچی۔ پہلے تو درخواست کی،  آنسو بہائے مگر جب مداح کو ترس نہ  آیا تو پولیس کی دھمکی دی۔ معلوم ہوا مداح نے اپنے اسلام آباد والے  گھر میں دیوتا کو رکھا ہے اور کیونکہ دیوتا نے منع کیا تھا تو مداح کی کیا مجال جو تڑپتی ہوئی بیوی کو بتا دے کہ اسکا شوہر کہاں ہے۔

ادھر دیوتا اسلام آباد کے جس گھر میں تھا، کچھ دن تو سنگھاسن کے نشے نے گھر کو بھلائے رکھا، مگر پھر اسکے موڈ سونگز نے میزبان مداحوں کی نظر میں اسے انسان بنانا شروع کر دیا۔ جمال کو بھی غلطی کا احساس تو ہوا مگر دیوتا غلطی نہیں کرتے۔ جب فون پہ عصمت کی آواز آئی تو سنگھاسن ڈول گیا، دیوتا اوندھے منہ گر پڑا۔ عصمت کی لرزاں آواز نے فقط اتنا کہا “بہت سیر کر لی، چلو اب واپس آ جاؤ ”۔

Advertisements
julia rana solicitors

ایئرپورٹ کے رستے میں عادل نے اک نظر ماں پہ ڈالی تو لگا جیسے کوئی آئل پینٹنگ ہو۔ خوشی اسکے ہونٹوں کے گوشوں سے چھلکتی تھی اور دکھ آنکھوں سے۔ کئی برس سے ماں کو یوں دیکھتے ہوئے  شاید اب وہ تنگ آ گیا تھا۔ کیا اب بھی اس سب کے باوجود بھی معاف کر دیں گی؟ عادل نے ماں کی جانب اچٹتی نظر ڈال کر کہا۔ عصمت اتنی دیر خاموش رہی کہ اسے لگا شاید جواب نہ  دے۔ وہ سامنے اشارے پہ کھڑے فقیر کو دیکھ رہی تھی جو کاسہ لیے گاڑی گاڑی پھر رہا تھا۔ اسی فقیر کو دیکھتے ہوئے وہ آہستہ سے بولی، بیٹا اب وہ میری عادت بن چکا ہے۔

Facebook Comments

انعام رانا
انعام رانا کو خواب دیکھنے کی عادت اور مکالمہ انعام کے خواب کی تعبیر ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply