یونیورسٹیاں،دانش گاہیں اَور خطرات۔۔۔ جاویدخان

کبھی انسان اپنے وجود سے آگاہ نہیں تھا۔آہستہ آہستہ وہ آگاہ ہوتا گیا۔خودسے،اپنے گھر (سیارہ زمین) سے اور اس میں رہنے والی دوسری حیات سے۔آگاہی کایہ عمل بنا رُکے آج تک جاری ہے۔قبل مسیح میں یونان کے ایک دانشور کے نام پر ”ایکادِموس“ نامی درس گاہ ترقی کرکے اکیڈمی پھر یونی ورسٹی ہوگئی۔ایک ادارے کی ترقی سے مراد انسانیت کی ترقی ہے۔ان اداروں نے ترقی کی تو ایک ایک بالی میں سیروں اناج بھر آیا۔جینیاتی کھوج نے انسان کے سامنے کئی بند دروازے کھول دیے۔پیچیدہ بیماریوں کے خلاف اُس نے توقع سے بڑھ کر کامیابی حاصل کرلی ہے۔مختلف فائیلمز کے درمیان جینیاتی کڑیاں ملانے میں وہ کب کاکامیاب ہو چکا ہے۔ایک چوہے کی پشت پر کان اُگا کر سائنس نے ثابت کیا کہ غیر فطری دنیا آباد کرنا ممکن ہے۔جس ملک کے پاس جتنی اچھی درس گاہ تھی۔ اس نے اتنے ہی اچھے سائنس دان تیار کیے۔ان سائنس دانوں نے اَعلیٰ درجے کا زہر بھی تیار کیا۔اسلحوں کے انبار پھر انھیں بطور تجربہ پرکھنے کے لیے محاذ کھولے گئے۔اسلحوں کے انبار لگتے گئے۔ان کی فروخت کے لیے ملکوں اور ان کے نجی خطوں میں لسانی،مذہبی،اور علاقائی جنگی جذبات کو بھڑکایا گیا۔اور پھر انبار شُدہ اسلحے کی کھیپ برتنے کو وہاں پہنچائی گئی۔

ان درس گاہوں (یونی ورسٹیوں) میں انسان دوست لوگ بھی تیار ہوئے۔انھوں نے انجمنیں بنائیں۔کتابیں لکھیں،سیمنار کروائے اور آگاہی مہم چلائی۔مگر ”روز محبت ہاری اور روز ہی نفرت جیت گئی“۔انسانیت اور محبت کو ہر محاذ پر ناکامی کاسامنا ہے۔یونی ورسٹیوں نے پیداوار اور صنعت کو مزید ترقی دینے کے لیے،مخصوص نصاب اور ڈگریاں متعارف کروائیں۔اس کے تحت تیار ہونے والے ماہرین نے صنعتی پیداوار کو دُگنا اور پھر چوگناکر دکھایا۔لیکن خلا میں گھومتے اس سیارہ زمین سے چمٹے پچھتر فی صد شفاف پانیوں کے ذخیرے (سمندر) میں زہر بھرنے لگا۔زہریلا تیل،فیکٹریوں کاگندہ پانی۔ سمندروں میں انسانی خوراک کاایک بڑا ذخیرہ موجود ہے۔جو بغیر استعمال ہوئے مر رہا ہے۔فیکٹریوں سے خارج ہونے والے زہریلے دھویں سے کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دوسری کئی گیسوں کی مقدار تجاوز کرگئی ہے۔

حیران کُن بات یہ ہے کہ اعلیٰ ترین یا انتہائی معیاری یونی ورسٹیوں کے حامل ممالک آلودگی پیداکرنے میں بھی سر فہرست ہیں۔جیسے امریکہ،چین ایران اور بڑی تعداد میں یورپی ممالک۔غریب ممالک جیسے بھارت،پاکستان اور بنگلادیش میں کارخانوں کے علاوہ لاکھوں گاڑیاں آلودہ دُھواں فضا میں روزانہ کے حساب سے بھرے جارہی ہیں۔بیجنگ کی فضا اتنی آلودہ ہو چکی ہے کہ لوگ اَب ماسک پہننے پر مجبور ہیں۔دوسری طرف زمین پر کھڑے گھنے جنگلوں پر آراء کشی کرنے میں بھی ترقی یافتہ ممالک یااصطلاحی معنوں میں پڑھے لکھے لوگ شامل ہیں۔ایمازون کے جنگلوں کو خاکستر کرنے کے علاوہ یہاں بے جا مداخلت کے پیچھے پڑھے لکھے اَور ترقی یافتہ درس گاہوں کے فارغ التحصیل دماغ ہیں۔یورپ کے شفاف دریا کالے اَور میلے پانیوں کو لے کر سمندروں میں گرتے ہیں۔اَگرچہ بڑے شہروں سے گزرنے والے دریاؤں سے کچرا اَور فاضل مواد نکالا بھی جاتا  ہے۔مگر ان کا کالا اَور مٹیالا رنگ کیسے صا ف ہو۔جو گنداَور زہریلے مادے قطروں میں رچ گئے ہوں انھیں کیسے نکالا جاسکتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یوں یورپ کے دریا لاکھوں کیوسک آلودہ پانی روزانہ کے حساب سے سمندروں میں ڈال رہے ہیں۔ایک بڑی آبی ٹریفک بھی دریاؤں اَور سمندروں سے گزرتی ہے۔جو روزانہ ٹنوں تیل پانیوں میں ڈال رہی ہے۔اِن پانیوں میں اِنسانوں کی خوراک جھینگے ہیں اَور مچھلیاں ہیں۔جو وہی آلودگی لیے انسانی معدوں میں چلی جاتی ہیں۔بڑھتے ہوئے درجہ حرارت نے قطبین سے برف پگھلانا شروع کردی ہے۔اس عمل سے سمندر شہروں پر چڑھ جائیں گے۔کئی غریب ممالک جو ساحلوں پر آباد ہیں یا جزیروں کی شکل میں ہیں۔سمندر انھیں ہڑپ لیں گے۔قطبین کے بعد دنیامیں برف کا سب سے بڑا ذخیرہ ہمالیہ اَور کشمیر کے گلیشروں کی شکل میں ہے۔اِن کے مسلسل پگھلنے سے زیریں وادیاں خطرے میں آگئی ہیں۔گلگت بلتستان میں ماضی قریب میں بننے والی جھیلیں،جن سے پورے پورے دیہات زیر آب آگئے۔کبھی اِن جھیلوں کے بند ٹوٹتے ہیں تو مزید تباہی ہوتی ہے۔علاوہ پاکستان کے میدانی علاقے سیلاب کی زد میں ہیں۔پولی تھین کے بیگ جوزمین میں جاکر اِس کا حصہ بننے سے صاف اِنکاری ہیں اَور آلودگی میں اضافہ کرتے رہتے ہیں۔یہ کسی اَن پڑھ شخص کا فارمولا نہیں ہے۔بلکہ بڑے بڑے سرمایہ دار تمام ترقی پذیر ممالک میں اِس کے چھوٹے بڑے کارخانے لگا کر بیٹھے ہیں۔اَگرچہ انسان کو تمام سہولیات پہنچانے میں دَرس گاہوں (یونی ورسٹیوں) کا اہم کردار ہے۔مگر اِس وقت فطرت کے خلاف ہونے والی جنگ کے نتیجے میں پوری اِنسانیت خطرے میں ہے۔یہ سب اَعلیٰ درس گاہوں سے تیار ہونے والے اعلی ٰ دماغوں کا ایک تاریک پہلو ہے۔

Facebook Comments

محمد جاوید خان
جاوید خان راولاکوٹ آزادکشمیر سے تعلق رکھتے ہیں. شعبہ تدریس سے منسلک ہیں. سفرنامے لکھتے ہیں اور مکالمہ خاندان کا اہم رکن ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply