2019 کے نوبل انعام برائے امن کے لئے ایتھوپین وزیراعظم ابی احمد علی کو نامزد کیا گیا,جو کہ یقیناًحیرت کی بات ہے۔۔
پہلی بات یہ کہ وہ مسلم ہیں،دوسری بات، سیاہ فام نسل سے ہیں۔اور تیسری، ایتھوپیا جیسے پس ماندہ ترین ملک سے تعلق رکھتے ہیں۔
ان کی نامزدگی سے ایک بات تو واضح ہو گئی اور یقینا خوش آئند بھی ہے کہ نوبل انعام کی تقسیم میں جانبداری اور مذہبی کارڈ سے گریز کیا جاتا ہے۔ اہل مغرب جیسے علم دوست معاشرے کا یہی شیوہ ہے۔
اب میں آتا ہوں اپنے اصل موضوع کی طرف۔۔جس نے مجھے لکھنے پہ مجبور کیا،پاکستانی نژاد سائسندان ڈاکٹر عبدالسلام،جنھیں 1979 میں ان کی فزکس کے شعبہ میں دی گئی خدمات کے اعتراف میں نوبل انعام سے نوازا گیا۔ڈاکٹر صاحب احمدی مذہب سے تعلق رکھتے تھے۔اگر ہم ان کی متنازعہ مذہبی حیثیت چند ثانیوں کے لئے نظر انداز کردیں اور علمی اعتبار سے ان کی خدمات کا جائزہ لیں تو یقیناً ہم اعتراف کرنے پہ مجبور ہوں گے،اور انہیں خراج تحسین پیش کریں گے۔
(پاکستان اور مغربی دنیا کے سائنسی شعبہ میں ان کی خدمات کی ایک طویل فہرست ہے جسے طوالت کے باعث یہاں نہیں لکھا گیا، تفصیلات کے لئے آپ گوگل کا سہارا لے سکتے ہیں)
اور اگر ہم ڈاکٹر صاحب کے معاملے میں تنگ نظری کا رویہ بھی روا رکھیں جو کہ ہمارا طرّہ امتیاز ہے،پھر بھی ابی احمد علی کی نامزدگی کے بعد نوبل انعام کی نامزدگی میں برتی گئی شفافیت اور غیر جانبداری
منطقی طور پر بھی واضح ہوجاتی ہے،اور ہمیں اپنے مائنڈ سیٹ کو تبدیل کرنے پہ اکساتی ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں