ایک سیلفی پلیز۔۔عارف خٹک

“دانشور کے لغوی معنی ہیں دانش و دانائی رکھنے والا، عقل و فہم، ادراک، فکر اور سمجھ بوجھ رکھنے والا۔ایک اعلیٰ  ظرف استاد جو اپنی حکمت کے موتی چہار سو بکھیرے اور انسان کو زندگی کا آسان فلسفہ سمجھا سکے۔ دانشور استاد سے بھی بڑھ کر درجہ رکھتے ہیں بلکہ آسانی کیلئے بتا دوں کہ دانشور استادوں کے بھی باپ ہوتے ہیں۔ ہم نے یہ بھی پڑھا ہے کہ دانش ور خدا کے نائبین میں سے ہوتے ہیں۔ پرانی بائبل میں لکھا ہےکہ
“Oppression may make a wise one act crazy.”
ترجمہ “ظلم دانشور بندے کو دیوانہ بنا دیتا ہے”۔

دانشور نہایت حساس طبعیت کے حامل ہوتے ہیں۔فطرت میں تبدیلی کو جلدی سمجھنے کی حس رکھتے ہیں اور انسانوں کو اس بدلاؤ کے فائدے و نقصانات وقت سے پہلے بتا دیتے ہیں۔ عموماً  دانشوروں کو عزت و احترام بعد از مرگ نصیب ہوتا ہے ورنہ دوران حیات وہ ہمشہ معتوب ہی ٹھہرتے ہیں”۔

میں لیکچر دیتے ہوئے لمحہ بھر رکا، گلا خشک ہوگیا تھا، سامنے ڈائس پر رکھا پانی کا گلاس اٹھایا اور جلدی سے دو گھونٹ بھر کر اپنا چشمہ درست کیا، سامنے حاضرین پر نظر دوڑائی جو سانس روکے اپنے اپنے موبائلز میں مصروف تھے ،کچھ کانوں میں ہیڈ فونز لگائے ٹک ٹاک پر عائشہ اکرم کے مجرے بھی دیکھ رہے تھے۔

میں نے کھنکار کر گلہ صاف کیا۔
“دوستوں! قدیم معاشرے میں دو عناصر نے معاشرے کی تشکیل میں بڑا کردار ادا کیا،” بادشاہ اور عامل”  عامل یا جادوگر کو لوگ خدا کے وارث سمجھتے تھے،جو مافوق الفطرت تصور کئے جاتے تھے۔ ان دونوں کے بیچ ایک اور طبقہ وجود میں آگیا جس کو “دانشور” کہا گیا۔ جنہوں نے اپنے الفاظ اور افکار سے لوگوں کو بتایا کہ انسانی مشکلات و مسائل کو انسانی صلاحیتوں سے حل کیا جاسکتا ہے۔ یہیں سے ادب و ادیب دونوں نے جنم لیا”۔

سامنے بیٹھا ہجوم گویا مجھ سے لاتعلق سا تھا۔ مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے میں خود سے باتیں کررہا ہوں۔ کچھ آپس میں باتیں کررہے تھے۔ کچھ نوجوان سیلفیاں کھینچنے میں مصروف تھے اور کچھ نوجوان جوڑے تو گویا دنیاو مافیہا سے بے خبر ،خود کوایک دوسرے میں سمونے کی کوشش کررہے تھے۔ مجھے بار بار اس لیکچر کے منتظمین پر غصہ آرہا تھا جنہوں نے مجھ  جیسے سنجیدہ دانشور کو اس مقامی پرائیویٹ میں ایک اعزازی لیکچر کے لیے  مدعو کیا تھا۔ میں نے فیصلہ کرلیا کہ اب مجھے کیا کرنا چاہیے۔

“دوستوں ادب میں جہاں جبر و ناانصافی کی بات کی گئی ہے، وہاں انسانوں کے لطیف جذبوں کو بھی زبان دی گئی۔ ڈاکٹر سگمنڈ فرائیڈ کہتے ہیں کہ اگر آپ کی عمر دس سال سے لیکر اسی سال ہے، اور آپ کو جنس مخالف کی کشش نے بیخود نہیں کیا، تو آپ ہر گز اپنا شمار نسل انسانی میں نہیں کرسکتے۔

عورت مرد ایک دوسرے کیلئے نہایت ہی ضروری ہیں ۔ بلکہ ہمارے عربی ادب میں عورت کو ایک اعلی مقام حاصل ہے۔ عربی ادب کی ماہر” سارہ اروگ” کا کہنا ہے کہ آج بھلے ہی عرب ممالک میں جنس کے ذکر تک سےاجتناب برتا جاتا ہو، مگر ایک زمانہ تھا، جب عرب ممالک میں جنسی موضوعات پر کتابیں عام تھیں۔ اس وقت خیال تھا کہ یہ کتابیں انسان کو ضروری تربیت دیتی ہیں”۔

مجمع میں ایک بے چینی پھیل گئی۔ سب اپنے موبائل فون چھوڑ کر مجھے دیکھنے لگے۔ خواتین یک ٹک مجھ پر نظریں جمائے بیٹھی تھیں، جبکہ مرد ادھ کھلے منہ سے حالت وجد میں مجھے دیکھ رہے تھے۔

“عصمت چغتائی” کو لیجیے ، پون صدی پہلے “لحاف” کے اندر، دو لڑکیوں کی جنسی آسودگی کی حرکات نے اردو ادب کو گویا نئی جہت دی۔ آج پوری دنیا میں لیزبینز کو بری نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔

فارسی ادب میں “داستان ہزار” کو لے لیجیے، ورنہ ہم ہندوستانیوں کا ہزاروں سال پہلے کا “کاما سوترا “ایک سند کا درجہ رکھتا ہے۔ ہمار ی  پشتو شاعری میں ہم جنس پرستی کی ترویج ہر دور میں کی گئی ہے۔
موجودہ اردو ادب میں بچوں کو میر اور درد کی سمجھ بوجھ نہیں رہی، وینٹی لیٹر پر پڑا ہوا ہمارا ادب آخری سانسیں گن رہا تھا ،تو کچھ دانشوروں کو ادراک ہوا کہ گوگل پر پورن سرچ کرنیوالی قوم کو جنسی ادب کی اشد ضرورت ہے۔ سو جس ادب میں عورت کے نرم ہونٹ ، صراحی دار گردن، تیر کمان کمر، پر بات کی جاتی تھی ،آج ہم عورت کے بڑے پستانوں پر لکھ رہے ہیں ،اس کے گول مول کولہوں پر لکھ رہے ہیں۔ آج ہم عشق بالواسطہ سے براہ راست جنسی تعلقات پر آچکے ہیں۔ آج ہماری خواتین ادیبائیں، مرد کے عضو تناسل کے لمبائی و موٹائی پر سرعام اظہار پسندیدگی و ناپسندیدگی کر کے، جمود کو توڑنے میں کوشاں ہیں۔ آج  آپ آنلائن اردو جرائد اٹھا کر دیکھیں کہ اردو ادب انہی دانشوروں کیوجہ سے دوبارہ ایک نئے دور میں داخل ہورہا ہے۔ میں یہ کریڈٹ صرف دانشور کو نہیں دونگا ، بلکہ زیادہ کریڈٹ اپ جیسے قاریوں کو دونگا جن کی وجہ سے ہم دوبارہ اردو ادب کے سنہری دور میں داخل ہورہے ہیں”۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ڈائس سے نیچے اترا تو حیرت انگیز طور پر مجھے لڑکیوں و لڑکوں نے گھیر لیا۔ ہر سو “ایک سیلفی پلیز” کی آوازیں گونج رہی تھی۔ ایک جم غفیر تھا جو مجھ پر گرا جارہا تھا۔ تھوڑی سی فراغت ہوئی تو وسیع و عریض ہال کی چھت کو گھورنا شروع کیا، امیر خسرو، غالب، ڈپٹی نذیر احمد، بانوقدسیہ ، مشتاق احمد یوسفی و دیگر ناراض نظروں سے مجھے دیکھ رہے تھے۔ میں نے شرمندہ ہوکر اپنی نظریں نیچی کرلیں،سامنے موجود مجمع، خوشی و جذبات سے بے قابو ہورہا تھا۔ ایک کمر عمر لڑکی نے ساتھی کلاس فیلو کی  پینٹ کی  جیب میں اپنا ہاتھ ڈالا ہوا تھا۔
میں نے جیب میں رکھے گئے دو لاکھ کے چیک کو تھپتھپاکر خود کو تسلی دی کہ بچوں کی اسکول فیس پہلی فرصت میں ادا کرنی ہے، کافی دنوں سے اسکول انتظامیہ کی طرف سے وارننگ لیٹرز آرہے ہیں۔

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply