روزہ بھوک ہڑتال تو نہیں۔ ۔۔ڈاکٹر ندیم عباس بلوچ

آج کلاس پڑھانے کے لئے پہنچا تو دیکھا کہ کلاس روم میں کوئی اور ٹیچر کلاس لے رہے ہیں۔ کلاس کے سی آر کو کال کی تو اس نے کہا سر ہم ذرا لیٹ ہیں، ماہ رمضان کا ٹائم ٹیبل ذرا تبدیل ہوا ہے۔ اب میرے پاس اگلے پندرہ منٹس تک کرنے کا کوئی کام نہیں تھا۔ اسٹاف روم کافی دور ہے،  میں نے سوچا یہیں انتظار کرتا ہوں۔ دس منٹس کھڑے رہنے کے بعد میں نے محسوس کیا کہ اب مزید کھڑا ہونا ممکن نہیں تو نہ چاہتے ہوئے بھی  طلاب کے لئے بنے ایک بنچ کی طرف بڑھ گیا۔ اس پر پھر کبھی لکھوں گا کہ سرمایہ دارانہ نظام نے ہمارے پورے نظام کو  اپنی لپٹ میں لے رکھا۔ یہاں استاد اور شاگرد کا تعلق کلاس پر ہی ختم ہو جا ہوتا ہے۔ استاد سوچتا ہے کہ میں نے ایک گھنٹہ فروخت کیا ہے، اس کے بعد میں طلباء کو کیوں وقت دوں۔؟ سچ پوچھیں تو پیپر بنانا اور چیک کرنا تک عذاب سمجھا جاتا ہے۔ ہم تھوڑے سے روایت شکن ہیں، اپنی اسی عادت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس بنچ پر پہنچ گئے۔

وہاں ایک طالب علم نے تین کرسیوں پر کچھ یوں قبضہ جمایا ہوا تھا کہ ایک پر خود بیٹھا تھا، دوسری پر  کچھ کاغذات رکھے ہوئے تھے اور تیسری پر بیگ دھرا تھا۔ میں نے پوچھا کیا یہ بیگ آپ کا ہے؟ اس نے انتہائی نقاہت سے آدھا بولے اور آدھا اشارہ کئے کہا جی۔ میں نے اٹھانے کا کہا تو جس نقاہت سے اس نے میری طرف دیکھا، میں نے وہ بیگ خود ہی اس کی طرف بڑھا دیا۔ اتنے میں اس کی ایک ساتھی طالبہ آگئیں، اسے یوں پریشان بیٹھا دیکھ کر اس نے محسوس کیا شائد سمسٹر کے آخر میں  ہونے والی پریشانیوں کا شکار ہے اور پوچھا کیا سمسٹر میں حاضری کم ہوگئی ہے؟ اس نے بغیر بولے آدھا سر ہلا کر کہا نہیں، اس نے پوچھا کوئی کوئز یا اسائنمنٹ رہ گئی ہے؟ اس نے کہا نہیں، اس نے پوچھا مارکس کم آئے ہیں۔؟ اس نے کہا نہیں، اس پر وہ تنگ ہو کر بولی پھر کیا ہوا ہے؟ تو اس نے بڑی معصومیت سے کہا میں روزے سے ہوں۔ اس کے جواب پر میں حیران ہوگیا۔ دس بجے ایک اکیس بائیس سالہ نوجوان کی یہ حالت ہوئی پڑی ہے۔

آپ اپنے اردگرد پر نگاہ ڈالئے، ماہ رمضان میں یہ خیالات بہت عام ہیں۔ لوگ  کھانا پینا ترک کرنا ہی ماہ رمضان سمجھتے ہیں۔ کام کرنے والے اور کام کرانے والے یہ کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ ماہ رمضان آرہا ہے، کام  نہیں ہوگا۔ ماہ رمضان کی یہ تفہیم اور اس کے نتیجے میں معاشرے پر ہونے والے اثرات قابل تعریف نہیں ہیں۔ ماہ رمضان تو ماہ تربیت ہے اور یہ بات روز  روشن کی طرح عیاں ہے کہ دوران تربیت عام دنوں سے زیادہ کام کیا جاتا ہے۔ صدر اسلام کے مسلمانوں کے حالات پڑھ کر انسان حیران ہو جاتا ہے کہ روزہ چند کھجوروں پر رکھ کر، جو کی روٹی سے افطار کرنے والے دن کو حالت جنگ میں ہوتے تھے۔ مولا امیرؑ کی روٹین تھی کہ انتہائی سادگی سے سحری کرتے اور پورا دن باغ میں مشقت کرتے، کنویں کھودتے  تھے۔ بعض لوگ یہ کہتے ہیں روزہ ایک فوڈ منجمنٹ تھی، یہ لوگ حقیقت روزہ سے کس قدر دور ہیں؟ اور ذاتی خواہشات کو دین کا نام دیتے ہیں۔ روزہ وہ عظیم تربیتی نظام ہے، جس سے گذر کر انسان انسانیت کے معراج پر پہنچ جاتا ہے۔

بغور جائزہ لیں، دین کے دو بڑے حصے ہیں، ایک ایمانیات ہے اور دوسرے کا تعلق حقوق الناس سے ہے۔ روزہ ہر دو میں تربیت کرتا ہے۔ ایمانیات میں انسان کا تعلق خالق سے ہوتا ہے۔ انسانی اعتقادات کے بارے میں بہت کم آگاہی ہوتی ہے کہ اس کا خدا، آخرت اور حساب کتاب کے بارے میں کیا عقیدہ رکھتا ہے؟ یہ صرف اللہ اور اس کے درمیان کا تعلق ہے۔ روزہ میں بھی کچھ اسی طرح کی صورت حال ہوتی ہے۔ روزہ دار کمرے میں چھپ کر کچھ بھی کھا سکتا ہے، مگر وہ اللہ پر ایمان کی وجہ سے کچھ نہیں کھاتا اور صبر کرتا ہے۔ یہ تعلق بہت ہی خاص تعلق ہے، جس میں انسان اپنے پرودگار کے ساتھ اپنے رشتے کو محسوس کرتا ہے۔ دین کا دوسرا حصہ حقوق الناس کا ہے، جس میں اللہ تعالٰی نے ہر انسان پر حقوق و فرائض کا پورا نظام  رکھا ہے۔ بہت سے ایسے کام ہیں، جب تک انسان خود ان سے نہ گزرے، انسان کو اس کا احساس نہیں ہوتا۔ ہمارے پاس بیٹھا ہوا انسان بہت بھوکا ہے یا بہت پیاسا ہے تو جب تک وہ ہمیں بتائے گا نہیں، ہمیں اس بات کا احساس تک نہیں ہوتا ہے کہ کوئی شدید بھوکا یا پیاسا ہمارے پاس بیٹھا ہوا ہے۔ بتانے سے بھی فقط پتہ چلتا ہے، اس وقت حقیقی احساس ہوگا، جب خود بھوک یا پیاس کی کیفیت سے گزرے گا، تب اسے پتہ چلے گا کہ بھوک اور پیاس کیا ہے؟ جب کسی کو بھوک یا پیاس لگی ہوتی ہے تو اس پر کیا گزر رہی ہوتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہمارے بہت اچھے اور خوش مزاج دوست کی والدہ فوت ہوگئیں۔ تعزیت کے لئے جانا ہوا، بہت پریشان اور حزین پایا، دلاسہ دیا تو کہنے لگے بھائی  گاؤں کی مسجد سے روٹین میں فوتگی کا اعلان ہوتا رہتا تھا، میں کبھی متوجہ تک نہیں ہوا، جب سے ماں فوت ہوئی ہے، ہر ہونے والے اعلان پر ایسے لگتا ہے جیسے میری والدہ کی موت کا اعلان ہے۔ اے اہل اسلام روزہ یہی احساس پیدا کرنا چاہتا ہے، جس میں انسان دوسرے کی بھوک، پیاس اور مشکل کو ایسے ہی محسوس کرے، جیسے وہ اس کی اپنی بھوک پیاس اور مشکل ہے۔ فلسطنیوں پر گرتے بم فاصلوں کی تنابین کھینچ کر اس کے جسم کو ٹکڑوں میں کاٹتے محسوس ہوں۔ ان کی آنکھوں میں پڑتی زہریلی گیس کا درد اپنی آنکھوں میں محسوس ہو۔ ان  کے اٹھتے جنازے ہمارا گھر خالی کرتے نظر آئیں۔ ان کے گرے ہوئے گھر  ہمیں بے گھری کا احساس پیدا کر دیں تو ہم نے اس ماہ خدا سے وہ تربیت حاصل کر لی ہے، جس کے بعد انسان “لعلکم تتقون” کی منزل پر فائز ہو جاتا ہے۔ یاد رکھیں، روزہ بھوک ہڑتال کا نام نہیں ہے۔

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply