الامان الحفیظ ۔۔۔محمد اسد شاہ

اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاسوں میں بعض تقاریر بہت شان دار اور دلیرانہ ہوتی ہیں ، جن کو تا دیر یاد رکھا جاتا ہے – لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ان تقاریر کے نتیجے میں رکن ممالک میں سے کسی کی پالیسی یا روایات تبدیل نہیں ہوا کرتیں – مثلاً اگر پاکستانی حکومت کسی معاملے میں سلامتی کونسل میں “ہاں” کو ووٹ کرنے کا فیصلہ کرتی ہے تو ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہمارا نمائندہ کسی ملک کے سربراہ کی تقریر سے متاثر ہو کر سلامتی کونسل جائے اور “ہاں” کی بجائے “نہ” کو ووٹ کر دے – جن ممالک میں پارلیمانی جمہوریت رائج ہے وہاں تقریباً یہی رویہ رہتا ہے کہ نمائندے اپنی اپنی جماعتوں کی پالیسی کے مطابق ووٹ کرتے ہیں ، نہ کہ دوسروں کی تقاریر کی بنیاد پر –
اقوام متحدہ کی گزشتہ 74 سالہ تاریخ میں جس تقریر کو سب سے زیادہ متاثر کن اور یاد گار سمجھا جاتا ہے وہ کیوبا کے صدر فیڈل کاسترو کی ہے ، جو انھوں نے 1960 میں کی – تقریر میں انھوں نے امریکہ جیسی منہ زور اور اندھی طاقت کو انتہائی دلیرانہ انداز میں للکارا اور شدید تنقید کا نشانہ بنایا- حیرت انگیز طور پر ان کی ساڑھے چار گھنٹے طویل تقریر کو تمام حاضرین نے اخری لمحے تک پوری دل چسپی سے سنا – 1974 میں یاسر عرفات نے فلسطین کا مقدمہ انتہائی جذباتی اور مدلل انداز میں پیش کیا – تقریر کی حد تک انھوں نے سامراج ، نیو ورلڈ آرڈر اور نو آبادیاتی نظام کے پرخچے اڑا دیئے – انھوں نے صیہونیت کو بدترین نسل پرستی قرار دیا – وینزویلا کے صدر ہو گو شاویز نے اپنی تقریر میں اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کو براۂ راست “شیطان” قرار دے دیا – لیبیا کے معمر قذافی نے اپنی ایک تقریر میں امریکہ کو عالمی سازشوں کا گڑھ قرار دیا – انھوں نے یہ الزام بھی لگایا کہ دنیا بھر میں سوائن فلو امریکی حکومت کے ایماء پر جان بوجھ کر پھیلایا گیا – ایک اور یادگار تقریر میں روسی صدر خرد شیف نے فلپائن کے نمائندے کو خاموش کرانے کے لیے ڈیسک پر جوتا دے مارا – پاکستان کے ذوالفقار علی بھٹو کی تقریر بھی یادگار ہے ، جس میں انھوں نے جموں و کشمیر کے حوالے سے پوری دنیا کے امتیازی رویے پر سخت احتجاج کیا – 2016 میں پاکستانی وزیراعظم محمد نواز شریف کی تقریر بھی جنرل اسمبلی کی یادگار تقاریر میں سے ہے – انھوں نے اپنی تقریر کا 41 فیصد وقت کشمیریوں کا مقدمہ پیش کرنے میں لگایا- بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی کی موجودگی میں بھارت کو دہشت گرد ریاست کہا ، اور برہان مظفر وانی کو عالمی انسانی حقوق اور جدوجہد آزادی کا “ہیرو” اور “شہید” قرار دیا جسے صرف چند ہی دن پہلے بھارتی ریاست نے دہشت گرد کہہ کر قتل کیا تھا – محمد نواز شریف نے اس شان دار تقریر میں نہ صرف کشمیر ، بل کہ فلسطین اور افغانستان کے مظلوم مسلمانوں کا بھی مقدمہ پیش کیا ، نیوکلیئر سپلائرز گروپ کی رکنیت اور ترقی پذیر ممالک کے معاشی مسائل پر بھی مدلل گفت گو کی – ان کی اس تقریر کو پاکستان میں ان کے بدترین مخالفین بھی سراہے بغیر نہ رہ سکے – جنرل اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں عمران خاں نے پاکستان کے وزیراعظم کی حیثیت سے جو خطاب کیا اس نے بھی لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو متاثر کیا –
لیکن اس مرتبہ چند ایسے انتظامات کیے گئے جن سے یہ لگا کہ شاید اس تقریر کے ذریعے بیرون کی بجائے اندرون ملک بعض مقاصد کے حصول کی کوشش کی گئی – مثلاََ تقریر سے کئی دن قبل ہی تمام نیوز چینلز پر اس کی باقاعدہ پبلسٹی شروع کروا دی گئی – بڑے شہروں میں جگہ جگہ بڑی سکرینیں اور لاؤڈ سپیکرز لگا کر عوام میں جوش و جذبہ پیدا کیا گیا – یوں ، جیسے سب کچھ طے شدہ ہو – بھارتی پارلیمنٹ میں مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے گزشتہ ماہ جو قانون سازی ہوئی ، اور اس سے صرف چند دن پہلے خان صاحب کی امریکہ یاترا کے حوالے سے ان کے مخالفین مسلسل جن شکوک و شبہات کا اظہار کر رہے ہیں ، ان کا تاثر زائل کرنے کی بھی ایک کامیاب کوشش کی گئی – ملک کی معاشی زبوں حالی ، بدترین مہنگائی ، صرف اپوزیشن تک محدود احتساب ، بعض حکومتی ارکان پر لگے کرپشن کے سنگین الزامات کے حوالے سے نیب کی پراسرار خاموشی، بیڈ گورننس اور بے ثبوت مقدمات بنا کر اپوزیشن کے بلند آہنگ راہ نماؤں کو جیلوں میں قید رکھنے کی وجہ سے خان صاحب مقبولیت مسلسل زوال کا شکار ہے – پھر جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمن) کی مجوزہ احتجاجی تحریک کا خطرہ بھی حکومت کے سر پر موجود ہے – چناں چہ اس تقریر کے ذریعے عوام کی توجہ ان اطراف سے ہٹا کر “تقریر” کی جانب لگا دی گئی – ان کے حامیوں نے فوری طور پر ان کی تصویر پر علامہ اقبال کے اشعار چسپاں کر کے سوشل میڈیا کے ذریعے انھیں نجانے کہاں سے کہاں پہنچانے کی کوششیں شروع کر دیں – تاہم خاں صاحب کی اس تقریر میں تین باتیں قابل غور ہیں جو ان سے پہلے کبھی کسی نے نہیں کیں – ایک تو یہ کہ سب سے بڑے عالمی فورم پر اپنے ہی ملک کو کرپشن اور منی لانڈرنگ جیسے طعنے دینا ، چہ معنی دارد – یہ مسائل امریکہ اور برطانیہ سمیت ہر ملک میں ہیں – لیکن کوئی بھی اپنے ملک کو اس طرح بدنام نہیں کرتا- دوسری بات یہ کہ انھوں نے عالمی اداروں کو دہشت گردوں کے نیٹ ورکس کی تحقیق کے لیے پاکستان آنے کی دعوت خود دے ڈالی – کیا انھیں معلوم نہیں تھا کہ اس کے نتائج کیا ہوں گے – عالمی ادارے اگر ان کی اس پیش کش کو قبول کر کے کسی دن ماہرین کو بھیج دیں تو پاکستان کا مستقبل پھر انھی طاقتوں کے ہاتھ میں ہو گا (نعوذ باللّٰہ) –
اور تیسری بات یہ کہ انھوں نے کشمیر ایشو پر نیوکلیئر جنگ کی بات کہی – اگرچہ انھوں نے کہہ دیا کہ وہ دھمکی نہیں دے رہے – لیکن سامعین ان کی بات کا مطلب کیا سمجھتے ہیں ، یہ خاں صاحب کے اختیار میں نہیں – دنیا پاکستان کو نیوکلیئر ٹیکنالوجی کے حوالے سے غیر متوازن ، نابالغ اور دھمکیاں دینے والا ملک قرار دے سکتی ہے – اسی قسم کے خدشات کا اظہار خود خاں صاحب کے اپنے مداحین سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد خان اور لیفٹیننٹ جنرل (ر) طلعت مسعود نے برطانوی اخبار “دی انڈیپنڈنٹ” سے گفت گو میں بھی کیا ہے – بھارت اور اسرائیل جیسے ممالک نے شاید اس حوالے سے “کام” شروع کر بھی دیا ہو !
الامان ، الحفیظ !

Facebook Comments

محمد اسد شاہ
محمد اسد شاہ کالم نگاری اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں - پاکستانی سیاست ، انگریزی و اردو ادب ، تقابل ادیان اور سماجی مسائل ان کے موضوعات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply