مسلم فلسفہ اور نسل پرستی کی لعنت / حمزہ ابراہیم

فلسفے کی بنیاد یونان کے اَن پڑھ اور جاہل معاشرے میں پڑھنے لکھنے کے آغاز کے نتیجے میں پڑی۔ دیہاتوں اور قبیلوں کے سیانے بابے اپنے خیالات کو لکھتے، تبادلہٴخیال کرتے اور نئی نسل کو سکھاتے۔ اس طرح ان کے اقوال اور تحریروں کا ایک ذخیرہ اکٹھا ہو گیا جس میں مفید چیزیں بھی تھیں، لیکن اکثر تحریریں جہالت کے پلندے کے سوا کچھ نہ تھیں۔ عقل استعمال کرنا اور دوسروں کے خیالات کو سن کر ان سے سیکھنے اور ان پر تنقید کرنے کا سلسلہ بہت اچھا تھا، لیکن اس زمانے میں نہ موجودہ دور کے وسائل تھے نہ انسانی فکر کا ورثہ موجودہ زمانے کی طرح لائبریریوں اور یونیورسٹیوں کی شکل میں ترقی پا چکا تھا، کیوں کہ ابتدائی زمانہ تھا۔ لہٰذا ان کے افکار میں غلطیاں بہت زیادہ تھیں جن سے آج کے علمی حلقے جان چھڑا چکے ہیں۔ عباسی دور سے یہ کتابیں عربی میں ترجمہ ہو کر باقاعدہ مسلمانوں کے ہاں پڑھائی جانے لگیں۔ البتہ مسلم فلسفہ کا ہزارسالہ دور کوئی بڑی جست لگانے میں ناکام رہا اور زیادہ زور یونانی اقوال کے حافظ تیار کرنے اور پیچیدہ لفاظی کا جنگل بسانے پر ہی رہا ہے۔ چنانچہ یونانی افکار کی بہت سی خامیاں مسلم فلسفیوں کے ہاں بھی ملتی ہیں جن میں سے ایک نسل پرستی کی لعنت بھی ہے۔

شاہ ولی اللہ (متوفیٰ 1762ء) لکھتے ہیں:

”مسلمانوں کو ، خواہ وہ کسی بھی ملک میں اپنی ابتدائی زندگی گزاریں، لیکن بہر حال اپنی وضع قطع اور طرز بود و ماند میں اس ملک کے مقامی باشندوں سے قطعی جدا رہنا چاہیے۔اور جہاں کہیں رہیں، اپنی عربی شان اور عربی رجحانات میں ڈوبے رہیں۔“ [1]

ایک اور جگہ فرماتے ہیں:

”خبردار ! بچے رہنا۔ اس تونگر میں امیر سرکش ، خواہ مخواہ غیروں اور عجمیوں کے طور طریقوں کو زبردستی اختیار کرتا ہے۔ اور جو لوگ صحیح راہ سے منحرف ہیں، ان سے مقابلہ اور برابری میں مصروف رہتا ہے“۔ [1]

جس زمانے میں شاہ ولی الله رہ رہے تھے، مسلمان ہندوستان کی آبادی کا دس سے پندرہ فیصد ہونگے۔ شاہ ولی الله کے خاندان کا دعویٰ تھا کہ وہ نسب کے لحاظ سے فاروقی ہیں، لیکن ہندوستان کے مسلمانوں کی اکثریت مقامی تھی۔ ان کا رہن سہن، زبان، خوراک، لباس، خوشی و غم کے طریقے، سب مقامی تھے۔ لیکن انہیں اس سے گھن آتی تھی۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ انہیں 1746ء میں مدراس پر فرانسیسی اور 1751ء میں انگریزی قبضے پر کوئی پریشانی لاحق نہیں ہوئی نہ ہی 1757ء میں مدراس سے آنے والی انگریزی فوج کے بنگال پر قبضے کے خلاف انہوں نے کوئی اقدام کیا، البتہ 1757ء اور 1761ء میں دہلی کی مسلم اشرافیہ کی خاطر احمد شاہ ابدالی سے رابطے کرتے نظر آ ئے۔ اسکی وجہ یہ تھی کہ مدراس، دکن، بنگال اور بعد ازاں میسور اور پنجاب میں جو ہوا وہ مقامی باشندوں کی جنگیں تھیں جن کو یہ لوگ گھٹیا سمجھتے تھے، لیکن دہلی کی مسلم اشرافیہ خود کو عرب یا ترک نسل کا برتر انسان سمجھتی تھی اور ان کی جنگ شاہ ولی الله خاندان کی گویا اپنی جنگ تھی۔

ملا صدرا(متوفیٰ 1640ء) کے ہاں بھی نسل پرستی کی لعنت پائی جاتی ہے۔ آپ نوخیز لڑکوں سے عشق کی تفصیل بتاتے ہوئے لکھتے ہیں:

ولكن وجدنا سائر النفوس الغليظة والقلوب القاسية والطبائع الجافية من الأكراد والاعراب والترك والزنج خاليه عن هذا النوع من المحبة وانما اقتصر أكثرهم على محبه الرجال للنساء ومحبة النساء للرجال طلبا للنكاح والسفاد كما في طباع سائر الحيوانات المرتكزة فيها حب الازدواج والسفاد والغرض منها في الطبيعة ابقاء النسل وحفظ الصور في هيولياتها بالجنس والنوع إذ كانت الاشخاص دائمة السيلان والاستحالة.

” لیکن ہم نے کردوں، بدوؤں، ترکوں اور حبشیوں جیسی کثیف، سخت دل اور خشک فطرت اقوام کو اس قسم کی محبت سے عاری پایا ہے۔ بلکہ ان میں سے اکثر مرد عورتوں سے محبت اور عورتیں مردوں سے محبت تک ہی محدود رہتی ہیں۔ یہ حیوانوں کی طرح بس جنسِ مخالف سے ہم بستری اور پست خواہشات کو پورا کرنے پر متمرکز ہوتے ہیں، کہ جس کام سے فطرت کا مقصد محض انسانی نسل کی بقاء ہے اور ہیولوں میں اشکال کو باقی رکھنا ہے۔ پس یہ لوگ ہمیشہ سوزاک اور نامردی میں مبتلا رہتے ہیں۔ “ [2]

حقیقت یہ ہے کہ لڑکوں کی طرف میلان عرب علماء و مشائخ میں بھی پایا جاتا تھا۔ معروف شامی تاریخ نویس ابن کثیر دمشقی (متوفیٰ 1373ء) لکھتے ہیں:

وهي فاحشة اللواط، التي قد ابتلي بها غالب الملوك والأمراء، والتجار والعوام، والكتاب والفقهاء، والقضاة ونحوهم، إلا من عصم الله منهم.

” لواط کے گناہ میں اکثر بادشاہ اور افسران، تاجر اور عوام، کاتب، فقہاء اور قاضی وغیرہ ملوث ہیں، سوائے ان کے جن پر الله کا خاص کرم ہو۔ “ [3]

رہی سوزاک یا شرمگاہ میں انفیکشن کی بات، تو اس کا بھی کثرتِ جماع سے کوئی تعلق نہیں۔ جدید سائنس نے یہ بتایا ہے کہ ایسی بیماریاں جراثیموں کے منتقل ہونے سے لگتی ہیں۔ کبھی تو یہ جراثیم انجان لوگوں سے جنسی تعلق قائم کرنے سے منتقل ہوتے ہیں تو کبھی گندگی کے شرمگاہ پر لگنے سے وہاں پرورش پانے لگتے ہیں۔ [4] لہٰذا ناجائز تعلقات سے پرہیز کے ساتھ ساتھ صفائی کا خاص خیال رکھنا ضروری ہے۔ کپڑوں کو 60 ڈگری پر گرم پانی سے دھونے یا کڑی دھوپ میں سکھانے سے جراثیم مر جاتے ہیں۔ اسی طرح گندے ہاتھوں سے استبراء کرنا بھی جراثیم کی منتقلی کا ایک سبب ہو سکتا ہے لہذا شرمگاہ کو چھونے سے پہلے ہاتھ صابن سے دھو لینے چاہئیں۔ خیر ملا صدرا کا اس معاملے میں جاہل ہونا سمجھ تو آتا ہے کہ وہ زمانہ ہی ایسا تھا اور ان کے کشف و الہام کے جھوٹے دعوؤ ں کی اس کے سوا کوئی حقیقت نہیں کہ ریاضتوں کی وجہ سے انہیں نفسیاتی عارضے لاحق ہو گئے ہوں۔ البتہ نسلی منافرت کا کوئی جواز نہیں بنتا کیوں کہ اسلام میں قبیلے کی بنیاد پر کسی کو برا یا اچھا سمجھنے کی واضح مذمت موجود ہے (سورہ الحجرات، آیت 13)۔ جدید سائنس یہ جان چکی ہے کہ تمام انسانوں کا ڈی این اے ایک جیسا ہے اور اندر سے سب انسان ایک جیسے ہیں۔ جو فرق ہے وہ بہت معمولی ہے۔

نسلی منافرت ابنِ سینا (متوفیٰ 1037ء) کے ہاں بھی ملتی ہے۔ فرماتے ہیں:

و إذ لا بد من ناس يخدمون الناس‌ فيجب أن يكون أمثال هؤلاء يجبرون على خدمة أهل المدينة العادلة، و كذلك من كان من الناس بعيدا عن تلقي‌ الفضيلة فهم عبيد بالطبع، مثل الترك و الزنج، و بالجملة الذين نشأوا في غير الأقاليم الشريفة التي أكثر أحوالها أن ينشأ فيها أمم حسنة الأمزجة صحيحة القرائح و العقول.

ترجمہ: ”ضروری ہے کہ انسانوں میں سے کچھ دوسروں کے نوکر بنے رہیں۔ پس عدل پر استوار شہر میں ایسے لوگوں کو شہریوں کی خدمت پر مجبور کیا جانا واجب ہے۔ اسی طرح وہ لوگ جو کسی فضیلت کو درک کرنے کے قابل نہیں اور طبیعی طور پر غلام ہیں، جیسے ترک اور سیاہ پوست افراد، اور وہ لوگ جو اشرفیہ کے علاقوں، جن میں اچھے آداب اور سالم ذہن والے طبقے کی تربیت ہوتی ہے، میں نہیں رہتے ان کو بھی اس کام پر مجبور کیا جائے۔ “ [5]

خیر یہ حضرات تو اب دنیا سے جا چکے اور انہوں نے اپنے زمانے میں جو مناسب سمجھا کیا۔ اب اکیسویں صدی میں بعض مدارس میں ان حضرات کے جاہلانہ خیالات کو القابات میں لپیٹ کر معصوم بچوں کے اذہان میں راسخ کرنا ایسا مذاق ہے کہ یہ لوگ اگر زندہ ہو جائیں تو حیران ہوں گے کہ اس زمانے میں بھی کچھ ایسے حافظ تیار ہو رہے ہیں جو ہماری لفاظی میں الجھے ہوئے ہیں اور اس میں سے علم نچوڑنا چاہتے ہیں۔

حوالہ جات:

[1] ڈاکٹر مبارک علی، ”المیہٴ تاریخ“، باب9، 10؛صفحات 95۔105؛فکشن ہاؤس لاہور، (2012)۔

[2] ملا صدرا ، ”اسفار اربعہ“، جلد 7، صفحہ 172، دار احیاء التراث العربی، بیروت، 1981ء۔

[3] ابن کثیر دمشقی، ”البدایہ و النہایہ“، جلد 9، صفحہ 174، دار الکتب العلمیہ، لبنان۔

[4] ڈاکٹر مبین اختر، ”نوجوانوں کے خصوصی مسائل“، صفحہ 227، 2010ء۔

[5] ابنِ سینا، ”الہٰیات شفا“، صفحہ 453، کتاب خانہ مرعشی نجفی، قم۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ بھی پڑھیے: مدارس میں فلسفہ و عرفان کا فتنہ / آیۃ اللہ صافی گلپائگانی

Facebook Comments

حمزہ ابراہیم
ادائے خاص سے غالبؔ ہوا ہے نکتہ سرا § صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لیے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply