اغیار کی سازش نہیں ،اعمال کا نتیجہ ہے۔۔محمد اسلم خان کھچی

26 فروری کو پاکستان میں شروع ہونے والی وبا نے پاکستانی معیشت کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ ارب پتی اب کروڑ  پتی بن گئے ہیں اور لاکھوں کروڑ پتی کاروبار کی تباہی کی وجہ سے  لکھ پتی  میں تبدیل ہوتے نظر آرہے ہیں بلکہ میں کئی ایسے کروڑ پتی لوگوں کو جانتا ہوں جو اب زکوٰۃ کے حقدار بنتے نظر آرہے ہیں۔

اگر گہرائی سے دیکھا جائے تو کووڈ وائرس ارتقائی عمل کا دوسرا نام ہے۔ اس نے دنیا کا سماجی, معاشرتی, معاشی نظام مکمل طور پہ تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔ انسان دن بدن فطرت کے قریب ہوتا جارہا ہے اور محسوس کرنے لگا ہے کہ اصل فطری زندگی میں ہی اس کی بقا ہے ۔وائرس نے اسے سمجھا دیا ہے کہ اگر اس نے زندہ رہنا ہے تو اسے فطرت کی بات ماننی ہو گی۔ گناہ آلود زندگی سے کنارہ کشی اختیار کرنا ہو گی۔

کہاں گئیں  وہ محفلیں جہاں حوا کی بیٹیوں کی مجبوریوں کا سودا کر کے انہیں نچایا جاتا تھا۔ سر شام ہی بڑے بڑے فارم ہاؤسز کی رنگین روشنیاں جگمگا اٹھتی تھیں اور آنے والے مہمانوں کا گھنگروؤں کی جھنکار سے استقبال کیا جاتا تھا۔ خوشبوؤں کی برسات میں زمینی خدا ایسے قدم رنجہ  فرمایا کرتے تھے کہ جیسے اس زمیں پہ صرف وہی خدا ہیں۔

لیکن اچانک ایک معمولی سے وائرس نے سب کچھ اتھل پتھل کر کے رکھ دیا۔ برسوں سے غریبوں کا لہو پینے والے زمینی خدا خود ساختہ قید اختیار کر کے گوشہ نشین ہو گئے۔ اپنے ہی ہاتھوں سے ڈرنے لگے کہ کہیں میرے ہاتھ پہ ہی وائرس نہ بیٹھا ہو۔ دنیا بھر کے کسینوز ویران ہو گئے۔ دن کو سونے اور راتوں کو جاگنے والے خوشبو بازار ویران ہو گئے۔ بیٹا باپ سے اور باپ بیٹے کو چھونے سے ڈرنے لگا ہے۔اب یہ حالت ہے کہ ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے ایک دوسرے کے گلاس میں پانی پینے سے ڈر لگنے لگا ہے۔ حضرت انسان جسے اشرف المخلوقات کا شرف حاصل تھا۔ لمحوں میں ہی اپنی حرکتوں سے اپنا مقام کھو بیٹھا ہے۔۔۔ لیکن ابھی بھی وہ سمجھ نہیں پا رہا کہ یہ سب کیا ہے ؟ کیونکہ وہ سمجھنا ہی نہیں چاہتا ۔اسے یقین ہی نہیں آرہا کہ یہ سب اس کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔ وہ یہ سب ایک زمینی بیماری سمجھ کے اس سے بچنے کی سرتوڑ کوشش کر رہاہے۔ اس لئے وہ کبھی پٹرول بحران پیدا کر کے پیسہ کمانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ماسک مہنگا بیچ رہا ہے۔ الغرض جہا جس حد تک وہ اس برے وقت میں فائدہ اٹھا سکتا ہے، اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ وہ قدرت کی وارننگ کو بالکل سمجھنے کی کوشش نہیں کر رہا۔ اگر سمجھتا بھی ہے تو یقین سے دور ہے کیونکہ اسے لگتا ہے کہ باقی سب مارے جائیں گے بس وہ بچ جائے گا۔ اور یہی اسکی خام خیالی ہے۔

آج کل کووڈ پورے زور شور سے اپنے پنجے گاڑ رہا ہے۔ ہم روزانہ ایک فلسفی کی طرح اس کا الزام ریاست پہ لگا دیتے ہیں کہ ریاست ہی ذمہ دار ہے۔ میں مانتا ہوں کہ ریاست ذمہ دار ہے۔ ریاست ہی پکڑ پکڑ کے لوگوں کو وائرس کے سامنے لاتی رہی کہ لوگ مریں۔ پاکستان کی آبادی کم ہو اور جو باقی بچیں گے سکھ سے جئیں گے۔ ریاست نے لاک ڈاؤن کر کے لوگوں کے کاروبار تباہ کر دیئے۔ ریاست نے سکول کالجز بند کر کے بچوں کا تعلیمی نقصان کیا۔ریاست لاک ڈاؤن کے دوران شٹر بند کر کے لوگوں کو خریداری پہ مجبور کرتی رہی  کہ معیشت کا پہیہ چلنا چاہیے۔ مانتا ہوں ریاست کے کووڈ کے معاملے میں جرائم کی فہرست بڑی طویل ہے، لیکن بحیثیت عوام ہم نے کیا کیا ؟
ہم نے مرغی 400 روپے کلو بیچی
3 روپے کا ماسک 80 روپے میں بیچا
جعلی سینیٹائزر بیچے
راتوں رات جعلی ادویات کے سٹاک تیار کیے
پچھلے سال کے سٹاک کے سوٹ 3 گنا قیمت پہ بیچے
اور اب ہم گلہ کرتے ہیں کہ کورونا گورنمنٹ کی نااہلی سے پھیلا۔ ۔۔
ویسے کونسا کورونا ؟۔

پندرہ دن پہلے تک تو ہم کورونا کو عالمی سازش کہ رہے تھے کہ یہ گورنمنٹ کی سازش ہے۔ کوئی کورونا نہیں ہے،بس عمران خان یہودی ایجنٹ ہے۔ ملک کو تباہ کرنے آیا ہے،بات تو مجھے بھی آپکی درست ہی لگتی ہے کونسا کورونا۔؟کیسا کورونا؟۔ ۔۔یہ سب ایک سازش ہے،آپ کاروبار کیجیے، جی بھر کے لوٹیے،پتہ نہیں پھر یہ موقع ملے گا کہ نہیں۔ ۔۔کوئی کورونا شرونا نہیں ہے۔یہ سب ریاست کی ایک سازش ہے اگر ہمارے ملک کی مقدس   سپریم کورٹ   نہ ہوتی تو اس سازش سے پردہ اٹھنا ہی نہیں تھا۔ اللہ بھلا کرے ہمارے جاہل چیف جسٹس کا کہ جسے بڑی دور سے سازش کی بو آگئی اور اس نے عید پہ تمام شاپنگ مالز کھلوا دیئے ورنہ تو اس ” جاہل حکومت”نے عید پہ لوگوں کو نئے کپڑوں سے بھی محروم کر دینا تھا۔

بات ہو رہی تھی ارب پتی کروڑ پتی لوگوں کی۔۔
اگر پاکستان سے سارے سیاستدان, جج, کروڑ پتی, ارب پتی بھی ختم ہو جاتے ہیں تو یہ ملک اسی طرح چلتا رہے گا۔ ایک پل کےلیے بھی فرق نہیں پڑے گا۔
لیکن اگر اس ملک میں کسان, نائی, موچی, مزدور کو کچھ ہوا تو یہ ملک صرف 15 دن میں جام ہو جائے گا۔۔ ایسی قحط سالی ہو گی کہ امیر بھی غریب کے جینے کی دعا کرے گا۔ اس سے پہلے کہ ایسا کوئی وقت آئے۔ ہمیں کسان, مزدور اور ہر اس طبقے کو بچانے کی کوشش کرنی چاہیے  جن کے خون پسینے سے آپکی اور آپکے بچوں کی سانسیں چلتی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آج غریب مر رہا ہے، دوائی کےلیے پیسے نہیں۔ علاج کیلئے ہسپتال نہیں۔ ٹیسٹ کیلئے پیسے نہیں۔ ماسک بہت مہنگا ہے۔ وہ بس بے بسی سے دیکھ رہا ہے کہ امیر دوائی سٹاک کیے جارہا ہے،دس ہزار کا انجیکشن 6 لاکھ میں خرید کے سٹاک کر کے رکھ رہا ہے کہ بوقت ضرورت کام آئے گا۔
لیکن ایک بات یاد رکھیے
ان سٹاک کی گئی   دوائیوں سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اس وائرس نے بڑے بڑے اٹھا لیے ۔کوئی زمینی ترکیب کام نہیں آرہی ۔۔۔یہ وائرس آپ کو غار سے بھی نکال لائے گا۔ ابھی بھی وقت ہے،اللہ رب العزت کی وارننگ کو سمجھیے۔۔۔ ورنہ کچھ ہاتھ نہیں آئے گا!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply