26 کلومیٹر کے اقتدار کی ہوس/محمد اسد شاہ

وزیراعظم شہباز شریف نے بتایا ہے کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خاں نے انھیں مذاکرات کی درخواست کی ہے اور اس سلسلے میں دو ذاتی خواہشات کا اظہار بھی کیا ہے ۔ پہلی یہ کہ نئے آرمی چیف کے لیے تین نام عمران کی طرف سے دیئے جائیں اور تین نام وزیراعظم کی طرف سے، اور پھر باہمی مذاکرات میں کسی ایک نام پر اتفاق پیدا کیا جائے ۔ عمران کی دوسری خواہش یہ ہے کہ اسمبلیاں آئینی مدت سے پہلے توڑ کر وقت سے پہلے انتخابات کروائے جائیں ۔ اب ذرا چند لمحوں کے لیے غور کیا جائے تو عمران کی یہ دونوں  خواہشات غیر آئینی ، اور سراسر ذاتی ہوس اقتدار پر مبنی ہیں ۔

دوسرے تمام وفاقی اداروں اور محکموں کی طرح آرمی کے چیف کی تعیناتی بھی پاکستان کے منتخب وزیراعظم کا اختیار اور فرض ہے ۔ اس میں کسی دوسرے شخص کا قطعاً کوئی عمل دخل نہیں ہے ۔ پاکستان کی 75 سالہ تاریخ میں کبھی کسی شخص نے عمران جیسی بچگانہ اور غیر منطقی خواہش کا اظہار نہیں کیا ۔ کوئی بھی وزیراعظم ہو ، کسی بھی تعیناتی سے قبل یقیناً اپنے ارد گرد کے لوگوں سے مشورہ کرتا ہے ۔ اس مشاورت کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ فیصلے کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لے لیا جائے ۔ یہ مشاورت کوئی لازمی آئینی تقاضا نہیں ۔ لیکن وزیراعظم اپنے طور پر اپنی آسانی اور بہتر سے بہترین فیصلے تک پہنچنے کے لیے مشورہ کریں تو ان کی اپنی مرضی ہے اور اچھی بات ہے ۔

سوال یہ ہے عمران کس حیثیت میں اس معاملے میں دخل دیتا ہے۔ اس کا کیا تعلق ہے اس معاملے سے؟ وہ پاکستان کی ساڑھے تین سو رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں میں سے ایک کا چیئرمین ضرور ہے ، لیکن اس وقت تو کسی بلدیہ کا کونسلر بھی نہیں ۔ اس کے باوجود دن رات شور شرابا کر کے ، اور لوگوں کا مجمع لگا کر آرمی چیف کی تعیناتی میں اپنی مرضی شامل کرنے کا خواہش مند ہے ۔ کسی اور سیاسی جماعت کے سربراہ نے ایسی جذباتی ناپختگی کا اظہار کبھی نہیں کیا ۔ اگر سابق وزیراعظم ہونے کی وجہ سے ایسا شوق پیدا ہوا ، تو آپ یہ دیکھیے کہ سابق وزرائے اعظم میں سے میاں محمد نواز شریف بھی موجود ہیں جنھیں اس قوم نے تین بار وزیراعظم منتخب کیا ۔ سید یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف، شاہد خاقان عباسی، چودھری شجاعت حسین، شوکت عزیز بھی موجود ہیں ۔ ان میں سے کسی کے بھی دل میں ایسی انوکھی خواہش کبھی پیدا نہیں ہوئی ۔ یہ ریکارڈ بھی عمران ہی کے حصے میں آنا تھا کہ وہ غیر آئینی حد تک جا کر “کھیلن کا مانگے چاند” !

عمران کی دوسری اور شدید خواہش یہ ہے کہ اسمبلیاں توڑ دی جائیں اور فوری نئے انتخابات ہوں ۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ وزیراعظم کے عہدے پر عمران نہیں ہے ۔ بس اس کے علاوہ کوئی وجہ نہیں ۔ اس شخص کی پوری سیاسی تاریخ دیکھ لیجیے ، خصوصاً 2010 کے بعد کی ۔ 2010 میں جب نامعلوم قوتوں نے یہ فیصلہ کیا کہ میاں صاحب سے پنجاب چھینا جائے اور ان کی مقبولیت ختم کروائی جائے ۔ تب ان کی نظر عمران خاں پر پڑی ۔ انھیں اندازہ تھا کہ یہ شخص اقتدار اور دولت کی ہوس میں کسی بھی حد تک جا سکتا ہے ۔ تب “پراجیکٹ عمران” کا آغاز ہوا ۔ نامعلوم قوتوں کے پیش نظر یہ نہیں تھا کہ عمران کوئی خاص چیز ہے ۔ بلکہ ان کا اصل مسئلہ میاں صاحب کی سیاسی طاقت اور مقبولیت کا خاتمہ کرنا تھا ۔ اس کام کے لیے اگر انھوں نے عمران کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا تو اس کے پیچھے عمران کی کوئی خاص خوبی نہیں تھی، بل کہ اس کی ہوس اقتدار اور دولت کی خواہش ہی تھی ۔ لیکن عمران یہ سوچ بیٹھا کہ شاید وہ کوئی بہت ہی غیر معمولی مخلوق ، اور ملک کے لیے ناگزیر ہے ۔

اسی سوچ کے تحت اپنی ذات کا پجاری یہ شخص مزید خود پرست ہو گیا ۔ اور اکثر یہ کہتا پایا گیا؛ “میرے علاوہ کوئی آپشن ہی نہیں” ۔ 2013 کے انتخابات ہوئے ۔ عمران کو اقتدار نہیں ملا تو اس نے پورے پانچ سال ات مچائے رکھی ، کبھی دھرنے ، کبھی شہر بند ، کبھی ہنگامے ۔ پھر گالی گلوچ اور اندھا دھند الزام تراشی تو شاید اس شخص کی گھٹی میں شامل ہے ۔ 2018 سے پہلے مکمل منصوبہ بندی کے تحت ایسے مربوط اور مضبوط انتظامات کر دیئے گئے کہ عمران کے علاوہ کسی اور کی حکومت بن ہی نہ سکے ۔ انتخابی میدان کو مضبوط ترین، اہل اور تجربہ کار کھلاڑیوں سے خالی کروایا گیا ۔ الیکشن کا نام تھا اور میدان میں صرف عمران تھا ۔ لیکن وہ پھر بھی جیت نہ سکا ۔ بعد میں مزید انتظامات اور ہارس ٹریڈنگ کے ذریعے بندے پورے کر کے عمران کی ہوس اقتدار کو تسکین فراہم کی گئی ۔ چھوٹی جماعتوں کو دباؤ کے ذریعے مجبور کیا گیا کہ وہ اسمبلی میں عمران کو ووٹ دیں ۔ عمران کو اقتدار مل گیا ۔ اگر کوئی خوبی یا اہلیت ہوتی تو سامنے آتی ۔ سبز باغوں کا جو پورا جنگل اگایا گیا تھا وہ سارا تو صحرا ثابت ہوا ۔ ایک کروڑ نوکریاں ، پچاس لاکھ گھر ، پاسپورٹ کی عزت، انصاف ، امن ، ترقی ، سب جھوٹ تھا اور جھوٹ ہی ثابت ہوا ۔ مخالفین کے لیے کرپشن کے الزامات کی آندھی تھی ، لیکن عمران کے اپنے پسندیدہ عالمی ادارے نے 2020 اور 2021 میں عمران حکومت کو پاکستان کی 75 سالہ تاریخ کی کرپٹ ترین حکومت قرار دیا ۔

1947 سے 2018 تک ، 70 سالوں میں پاکستانی حکومتوں نے جتنا قرض لیا ، اکیلے عمران نے اس کی مجموعی مقدار سے بھی کئی گنا زیادہ قرض صرف تین سالوں میں لے لیا جس کی ادائیگی میں اس بدنصیب قوم کی کتنی نسلوں کا خون پسینہ صرف کرنا پڑے گا ۔ اسی وجہ سے ملک میں کمر توڑ مہنگائی کا وہ سیلاب آچکا کہ جس کے تھمنے کا مستقبل قریب میں کم ہی امکان ہے ۔ 2022 میں چھوٹی جماعتوں نے تنگ آ کر جب تحریک عدم اعتماد کی حمایت میں ووٹ دیا تو عمران نے دنیا کی ہر گالی انھیں دی ۔ انھیں لوٹے ، ضمیر فروش اور جانے کیا کیا القاب دیئے اور ساتھ ہی نئے انتخابات کا رونا دھونا شروع کر دیا ۔ کیوں؟ صرف اس لیے کہ عمران کے پاس وزیراعظم کا عہدہ نہیں ہے ۔ حال آں کہ پنجاب ، خیبرپختونخوا ، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے سرکاری وسائل عمران کھلم کھلا اپنی ذات کے لیے استعمال کرتا پھر رہا ہے ۔ اور وفاقی حکومت کو صرف 26 کلومیٹر کی حکومت کے طعنے دیتا ہے ۔ لیکن اسی 26 کلومیٹر کے اقتدار کے لیے خود دن رات تڑپ رہا ہے ، یوں جیسے پاؤں تلے کوئی انگارہ آ گیا ہو ۔ یہ جو لانگ مارچ ہے ، یہ اسی تڑپ اور اسی جلن کی وجہ سے ہے ۔ ورنہ عمران کے ہاں کون سی حقیقی آزادی اور کون سی ریاست مدینہ؟ بس ، چوں کہ 26 کلومیٹر پر عمران کی حکومت نہیں ہے ، چنانچہ اسمبلی توڑ دی جائے ، وقت سے پہلے انتخابات کروائے جائیں ۔ اگر خدانخواستہ عمران جیت گیا تو شاید چپ کر جائے ۔ ورنہ پھر سے دھاندلی کے الزامات، گالیوں کی بوچھاڑ ، باچھوں سے ٹپکتی جھاگ ، دھرنے ، ہنگامے ، شہر بند ، لانگ مارچ ۔۔۔۔۔۔۔ بس یہی عمران کی سیاست ہے اور یہی اس کا نظریہ ۔

یہاں یہ بھی یاد رہے کہ یہ وہی عمران ہے جو مخالفین سے مذاکرات کرنے ، بل کہ ہاتھ ملانے تک کو اپنی رعونت کے خلاف سمجھتا تھا ۔ اتنا تکبر تو جنرل ایوب اور جنرل پرویز میں بھی نہ تھا ۔ اب وہی عمران صرف 26 کلومیٹر کے اقتدار کی ہوس میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ خفیہ مذاکرات کرنے کے اعلان کرتا ہے اور وزیراعظم شہباز شریف کے ساتھ خفیہ مذاکرات کی درخواستیں بھی بھجواتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

30 اکتوبر کو عمران کے کنٹینر پر کھڑی چینل 5 کی رپورٹر صدف نعیم بھٹی گر کر اسی کنٹینر کے ہی نیچے آ کر جاں بحق ہو گئیں ۔ اچھرہ (لاہور) کی رہائشی معصوم بچوں کی ماں، اور پریس فوٹو گرافر کی اہلیہ صدف نعیم ایک محنتی اور پرجوش رپورٹر تھیں ۔ موقع پر موجود دیگر صحافیوں کا کہنا ہے کہ عمران کے سیکورٹی گارڈز نے صدف کو کنٹینر سے اتارنے کے لیے دھکا دیا ۔ اور جب وہ گر کے کچلی گئی تو رپورٹرز کو وڈیو بنانے سے روکنے کے لیے انھیں پانی کی بوتلیں بھی مارتے رہے ۔ حقیقت جو بھی ہو ، یہ صدمہ شدید ہے ۔ وزیراعظم شہباز شریف نے صدف نعیم بھٹی کی الم ناک رحلت پر دلی صدمے کا اظہار، اور ان کے خاندان کے لیے 50 لاکھ روپے امداد کا اعلان کیا ہے ۔ اللّٰہ کریم مرحومہ کی مغفرت فرمائے ، ان کے بچوں کی حفاظت فرمائے اور ان کے لواحقین کو صبرِ جمیل عطا فرمائے ۔ آمین بالخیر !

Facebook Comments

محمد اسد شاہ
محمد اسد شاہ کالم نگاری اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں - پاکستانی سیاست ، انگریزی و اردو ادب ، تقابل ادیان اور سماجی مسائل ان کے موضوعات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply