• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • سفر نامہ: شام امن سے جنگ تک/ابو العلی المعریٰ کی قربت میں۔۔۔سلمیٰ اعوان/قسط20

سفر نامہ: شام امن سے جنگ تک/ابو العلی المعریٰ کی قربت میں۔۔۔سلمیٰ اعوان/قسط20

رُخصت ہونے سے قبل سب نے اُس کا لمبا چوڑا شکریہ ادا کیا کہ کس خوبصورتی سے اُس نے اپنے دیس کے ایک شاعر بارے ہمیں معلومات دیں۔ بیچ بیچ میں ایک اجنبی زبان میں ہماری بکواس کو بھی نظر انداز کیا۔ چلتے ہوئے اُس کی منتخب شاعری کا تحفہ بھی دیا۔ یہ اُس کی اپنے پیشے کے ساتھ محبت اور وفاداری کا بین ثبوت تھا۔

اِس ضمن میں مَیں نے اپنے ملک کی ایک بڑی لائبریری کی منتظمہ اعلیٰ کا قصہ بھی اُسے سنایا جو میرے ساتھ پیش آیا تھا۔ جسے سن کر وہ خوب ہنسا۔ مزے کا یہ و اقعہ آپ بھی سن لیجیے۔

پاکستان کی ایک مشہور لکھنے والی رشیدہ رضویہ کے ایک ناول کی مجھے تلاش تھی۔ دیال سنگھ پبلک لائبریری کی سینئر لائبریرین کے پاس جا کر ناول بارے پوچھا۔ کرسی پر بیٹھنے سے قبل میں نے اُس کی بڑی سی بے ترتیب میز کو دیکھا۔ جس پر اتوار کا ڈان اور Books & Authors کا چار صفحاتی میگزین پڑا تھا۔ جس کے آخری صفحے پراُس وقت میری کوئی اٹھارہ کتابوں پر مشتمل اشتہار تھا۔ دل میں تھوڑی سی خوشی نے لپکا مارا کہ یقیناً  فاضل لائبریرین غائبانہ طور پر ضرور متعارف ہوں گی۔ کیونکہ ڈان میں اکثر میری کتابوں کا اشتہار چھپتا رہتا ہے۔ سوچا کہ جاننے پر خوشی، محبت وعقیدت کا اظہار ہوگا۔یقینا ً کہیں گی۔۔
”ارے تو آپ ہیں سلمیٰ اعوان۔ بھئی بڑی فین ہوں میں آپ کی۔“
کچھ ایسے یا اس سے ملتے جلتے محبت بھرے جملے سننے کو ملیں گے۔ ایسی ہی خوش فہمیوں کے خمار میں ڈوبی یہ دیکھ ہی نہ پائی کہ خیر سے محترمہ بڑے لئے دئیے سے انداز میں دیکھتی ہیں۔ اِس اتنے لاتعلقی جیسے طور طریقے نے ذرا سا پریشان کیا۔ تاہم جی کڑ ا کر مدعا گوش گزار کیا۔ محترمہ کتاب کی سخت ضرورت ہے۔ پنجاب پبلک لائبریری، قائداعظم پبلک لائبریری اور جم خانہ لائبریری سبھوں کو چھان مارا۔کہیں سے خیر ات نہیں ملی۔ آخری امید میں یہاں چلی آئی ہوں۔

مضمون نگار:سلمیٰ اعوان
نیلم احمد بشیر

سیکرٹ لائبرئری سریا

عاجزانہ سی درخواست نے تھوڑی سی بر ف پگھلائی۔ کتاب لانے کا حکم دیا۔ دیر بعد پتہ چلا کہ کسی اسلم نامی بندے نے ایشو کروائی تھی۔ واپس نہیں ہوئی۔ چلیے قصہ ختم۔۔اتنی خجل خواری کے بعد جو میری قسمت، صبر شکر!

تاہم اُٹھنے سے قبل میں نے سوچا جس کام کے لئے آئی تھی وہ تو ہوا نہیں۔ چلو اب سبب سے آہی گئی ہوں تو کچھ اپنی اوقات کا بھی علم ہو جائے۔
دیکھوں تو سہی،کہیں کسی خانے میں میں پڑی بھی ہوں یا یونہی فضول لکھ لکھ مارے کاغذوں کے پلندے والی بات ہے۔ذرا مسکینی سے کہا۔
”تکلیف کے لئے معذرت چاہتی ہوں۔ سلمیٰ اعوان کی کوئی کتاب ہے؟“
کچھ دیر بعد پتہ چلا کہ شاید ایک یا دو ہیں۔ بیس کتابوں کی مصنفہ کا سارا جوش وخروش موت کی جھاگ کی طرح بیٹھ گیا تھا۔ اُس موٹو لائبریرین کی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں سے عدم توجہی تو عیاں ہی تھی کہ اس نے نظر بھر کر بھی یقیناً کتابوں کے اشتہاروں کو نہیں دیکھا ہوگا۔
چلو اُس یارِ غار کا بھی جائزہ لے لوں کہ وہ کس سنگھاسن پر بیٹھی ہے۔
”نیلم احمد بشیر کی کوئی کتاب ہے؟“
اُس کی بھی شاید دو تھیں۔ پتہ چلا۔
دفعتاً اُس نے پوچھا۔ ”یہ نیلم احمد بشیر بشریٰ انصاری کی بہن ہے کیا؟“
ہاں وہ تاکے کی آئے گی بارات فیم سنبل بھی شاید اُن کی بہن ہے۔ جونیئر نے لقمہ دیا۔
میں نے کہا۔ ”جی آپ درست فرماتی ہیں۔وہ اِن دونوں کی بڑی بہن ہے۔ اور یہ احمد بشیر کی بیٹیاں ہیں۔“
لیجیے اب سنبل مرکز گفتگو بن گئی۔ اس کے مزاحیہ جملے۔ اس کی مزاحیہ اداکاری اس پر قہقہے اور باتیں۔
نہ کہیں میں تھی اور نہ نیلم احمد بشیر جنہوں نے لکھ لکھ کر مارے کاغذ۔ گھر آکر میں نے اُسے فون کیا اور اس کی اور اپنی اوقات کی کہانی سنائی۔

فاطمہ اور میں نے گاڑی میں بیٹھتے ہی چھ سات صفحے کا بروشر ٹائپ بک لٹ جس میں شاعر کا کچھ چید ہ چیدہ کلام انگریزی میں ترجمہ شدہ تھا کھول لیا۔ علی کا خیال تھا کہ بشار چونکہ علوی فرقے سے تعلق رکھتا ہے، مذہب کے معاملے میں لبرل ہے۔ اِسی لئے ایسے شاعروں کو خصوصی اہمیت دی جاتی ہے۔

اِس رائے پر کوئی تبصرہ کرنے کی بجائے فاطمہ نے باآواز بلند پڑھنا شروع کر دیا تھا۔
میں ہر دن کو وداع کرتے ہوئے خدا حافظ کہتا ہوں
یہ جانتے ہوئے بھی
کہ یہ کبھی واپس نہ آئے گا
پیچیدہ راستے جن پر سادہ لوح چہل قدمی کرتے ہیں
اور اپنے آپ کو خوش نصیب سمجھتے ہیں
میرے لئے یہ ایسے ہیں
جیسے میں کسی عمررسیدہ اور تھکے ہوئے درندے پر سواری کروں!
………………………………………………
ہمارے سامنے ایک اور نظم تھی۔ نسرین نے کہا۔ ذرا یہ سنیے۔

جب شاخ پر لپٹی ہوئی چھپکلی
سورج کی حدت میں آرام محسوس کرتی ہے
جب دوست اور دشمن سوتے ہیں
موت رات پر حاوی ہوتی ہے
تقدیر منصوبہ سازی میں مصروف ہے
اور ہم اپنے آپ میں مگن ہیں!

”واہ کیا خیال آفرینی ہے۔“ بے اختیار میرے ہونٹوں سے نکلا تھا۔
”لیں اور سنیں۔“ میں اُس وقت کوئی اور نظم دیکھ رہی تھی جب فاطمہ نے متوجہ کیا۔
”سلمیٰ آپا سُنیے سُنیے“
”عنوان بولو۔ میں اپنا صفحہ کھولتی ہوں پھر پڑھنا۔“

صدیوں سے سورج کے پھیلے ہوئے جال نے
نہ کبھی اپنے موتیوں کو بکھیرا
اور نہ ہی اُنہیں کسی دھاگے میں پرویا
یہ خوفناک سی دنیا ہمیں خوش کر دیتی ہے
ہم سب کو جن کو وہ پالتی ہے
اپنے فانی کپ سے
دو خرابیوں میں سے ایک چن لو
جو تمہیں زیادہ پسند ہے
یا گل سڑ جاؤ
یا اذیتوں میں زندگی گزارو!

کیا گہرائی ہے؟ اندر نے بے اختیار کہاتھا۔ نظریں اشعار کو ایک بارپھر دیکھ رہی تھیں۔ کاغذ سے نیچے اُترے اُترتے ایک اور نظم نے متوجہ کیا۔ ”فاطمہ ذرا سنو۔“

شیشے کی طرح پاش پاش ہونا

ہم ہنستے ہیں
لیکن ہماری ہنسی کیسی احمقانہ سی ہے
ہمیں رونا چاہیے اور گہرے درد سے رونا چاہیے
ہم جو کانچ کے گلاس کی طرح پاش پاش ہو جاتے ہیں
اُس کے بعد کبھی دوبارہ بن نہیں پاتے

نسرین نے اُس پر سخت اعتراض کیا۔
”یہ کیا؟ زندگی اگر توڑتی ہے تو جوڑتی بھی ہے۔ اور ہنسیں کیو ں نہ؟ دسویں صدی کے شاعر کے زمانے میں تب شاید طب نے یہ نہ کہا ہو کہ صحت کے لئے کھلی ڈلی ہنسی بہت ضروری ہے؟مگر آج کا طبیب ہنسی کو غم کا علاج کہتا ہے۔ وہ تو رونا بھی آنکھوں کے لئے اچھا سمجھتا ہے۔“
ہم تینوں کھلکھلا کر ہنس پڑے۔ فاطمہ بولی۔
”لو شاعر کی پہلی بات تو یہیں سچی ثابت ہوگئی۔“
ہم ہنستے ہیں
لیکن ہماری ہنسی کیسی احمقانہ سی ہے
دنیا میں میرا کام تھکا دینے جیسا ہے
کتنا عرصہ میں لوگوں سے جڑا رہوں گا
جن کے لیڈر حکم جاری کرتے ہیں
تمہارے لئے کیا اچھا نہیں ہے
وہ اپنے فرض کی نفی کرتے ہیں
خو د کو مستثنیٰ کرتے ہیں
خود کو دھوکہ دیتے ہیں
اپنے مقاصد کو نظر اندازکرتے ہیں

”ارے ارے دیکھو ایک اور خوبصورت نظم۔“
فاطمہ نے پڑھنا شروع کر دیا تھا۔

دنیا میں بہترین پر سکون لمحہ وہی ہے جو گزر گیا
کسی دوست کو سنتے ہوئے
جو بہت اچھی باتیں کرتا ہے
زندگی اول سے آخر تک کتنی حیرت انگیز ہے
مگرزمانوں سے، صدیوں سے
وقت ہمیشہ جوانی کے گویا دانتوں میں رہتا ہے
اس کے نوکیلے وار
قوموں کو ان کے عروج میں کاٹ پھینکتے ہیں
ہر خطہ زمین پر وقت قبریں تیار کرتاہے
مگر کوئی وقت کی قبر نہیں بنا سکا

”واہ بھئی واہ۔ کیا بات ہے؟ چلو شکر ایک قنوطی اور یاس زدہ شاعر نے اچھے دوست کی اہمیت کو تو سمجھا۔اور واقعی وقت کتنا ظالم ہے۔ اس کی کیسی خوبصورت تشریح ہوئی ہے۔“
میں نے ورق پلٹا۔ پانچ صفحے پر ایک نظم نے توجہ کھینچی۔ دانائی وحکمت کے مویتوں سے بھر ی ہوئی۔

جب بھی آدمی زیادہ بولنے سے احتراز کرتا ہے
اس کے دشمن کم ہوتے ہیں
بے شک قسمت اس پر زیادہ مہربان نہ ہو
اور وہ and falls low
خاموشی سے ہی پُسو انسان کے خون سے اپنا منہ بھرتا ہے
اپنے گناہ کی شدت کو کم کرتے ہوئے
یہ مچھر کے طریقہ پر نہیں چلتے
جوبلند آواز میں بگل بجاتے ہوئے گزرتے ہیں
………………………………………
ایک ٹاؤن میں رہنے سے مجھے کون بچائے گا؟
جہاں میرے بارے موزوں بات نہیں کی جاتی
امیر، پرہیزگار، صاحب علم یہ میری صفات ہیں
لیکن میرے اور اُن کے درمیان
بہت سی رکاوٹیں ہیں
مجھے اعتراف ہے
جہالت کو ابھی بھی نعمت خیال کیا گیا ہے
تاہم ہمارے لئے یہ حیرت انگیز بات نہیں
سچ تو یہ ہے ہم سب صفر کی طرح ہیں
نہ میں معزز ومحترم نہ ہی وہ کم مایہ و کم تر
میرا وجود زندگی کی مشکلات میں گھرا
کم کم ہی اس دباؤ کو برداشت کرتا ہے
میں اِسے گلنے سڑنے کی گرفت سے کیسے بچا سکتا ہوں
اوہویہ موت کا کتنا بڑا انعام
جیسے درد کے بعد آرام
جو ہمیں ملتا ہے
جیسے شور کے بعد خاموشی

……………………………………
دلیل نے مجھے بہت سی باتوں سے روکا
جن کی طرف میری فطرت مائل تھی
اوریہ تومستقل ایک عذاب ہے
اگر میں سچائی کو ماننے سے انکار کروں
…………………………………..
انسان کے پاس کیا اختیار؟
اگر لوگ میری پیروی کرتے
تو میں اُن کی سچائی کی طرف رہنمائی کرتا
یا ایسے راستے کی طرف جس سے وہ سچائی پا سکتے
میں اس کے لئے زندہ رہتا یہاں تک کہ
وقت مجھ سے تھک جاتا اور میں
وقت سے
اور میرا دل بھی زندگی کی رعنائیوں سے!

فاطمہ نے ایک بار پھر شور مچا دیا۔ ”دیکھو دیکھوسنو سنو۔ نظم کا عنوا ن ہے۔“

لوگوں کے خادم
اگر ہم چاہیں کہ چیزیں درست انداز میں ہوں
تویقیناً اِس راز کو افشا کرنا پڑے گا
عوام کا لیڈر خاد م ہوتا ہے
اُن کا جن پر وہ حکومت کرتا ہے!

نسرین نے قہقہہ لگایا۔
”لو بھئی ہمارا خادم اعلیٰ توکہے گا۔ دیکھ لو پھر میرا وژن۔ جو بات صدیوں پہلے مفکروں، فلاسفروں کے دماغ میں آئیں وہ میں نے پڑھے بغیر جان لی تھیں۔“
اِس پڑھے بغیر پرعلی بھی کھل کر ہنسا تھا۔ مگر فاطمہ نے فوراً ایک اور نظم کی طرف نشان دہی کی۔
”بھئی اِسے دیکھو۔ اگر کہو گی تو خدا کی قسم میں دونوں بھائیوں کو فریم کروا کے بھیج دوں گی۔“

صدیوں، زمانوں پہلے کے تمہارے اپنے راستے
تم بادشاہ ہو،
جابر و ظالم حکمرانو!
تم ہر ہر لمحے ظلم اور ناانصافیوں کے لئے کام کرتے ہو
تمہیں آخرکیا چیز روکتی ہے؟
روشن راستوں پر اپنے نقش بنانے سے
ایک مرد کو کھیت کی ضرورت ہے
بے شک اُسے حُجلہ سے بھی پیار ہے

…………………………………..
لیکن کچھ لوگ پیغمبرانہ لب و لہجہ رکھنے والے
آسمانی رہنما کی اُمید میں ہیں
جو انسانی ہجوم کے درمیان سے اُٹھے گا
ایک اعلیٰ سوچ جو رہبری نہیں کرتی
لیکن صرف دلیل جوروشن اور تاریک راستوں کی راہنما ہے

علی خاموشی سے اپنے مطالعے میں گم تھا۔ دفعتاً اُس نے ہم سب کو مخاطب کیا اور کہا۔ ”ذرا یہ سنیں۔“ یہ چھوٹی چھوٹی نظمیں تھیں مگر فکر وخیال سے بھری ہوئی۔
تم نے کہا
ایک عقل مند نے ہمیں تخلیق کیا
یہ سچ بھی ہو سکتاہے
ہم اس سے اتفاق کرتے ہیں
وقت اور خلا سے باہر۔
تم اعتراف کرتے ہو
تو پھر فوراً ہی کیوں نہیں کہہ دیتے
کہ تم اِس بڑے راز کو
د انشوروں کے سامنے رکھو گے
جو ہمیں ہماری کوتاہ عقلی کے بارے بتائے گا
……………………………………..
وہ سب غلط ہیں
کیا مسلم، کیا یہودی
عیسائی اور مجوسی
انسانیت بھی وسیع وعریض دنیاؤں کو
دو گروہوں میں بانٹتی ہے
ذہین آدمی بغیر مذہب کے
مذہبی آدمی بغیر ذہانت کے
………………………………………..
او بے وقوفو! او احمقو! جن رسومات کو تم مقدس سمجھتے ہو
وہ اُن قدیم لوگوں کا فریبوں سے بنا جال ہے
جن کو دولت کی ہوس وتمنا تھی
اور انہوں نے اپنی مراد پائی
لیکن وہ گمنامی میں مرے
اور اُن کے قانون بھی مٹی میں ملے

……………………………………..
کتنے مہینے، کتنے سال بے شک میں باہر رہا
لیکن ابھی تک
میں خود کو احمق اور بھانڈ ہی سمجھتا ہوں
اور جھوٹ ایک تنہا ستارے کی طرح
ڈھٹائی سے کھڑا ہے
لیکن سچ ابھی تک اپنا چہرہ
نقاب میں چھپائے ہے
کیا ہے کوئی جہاز اور ساحل
میرے پھیلے ہاتھوں کو سنبھالنے کے لئے
اور
مجھے اِس ظالم سمندر سے بچانے کے لئے
……………………………………….
بہانے مت بناؤ
نہ عذر پیش کرو
جب تم کوئی شرمناک کام کرو
کہ میرے آباؤ اجداد نے بھی یہ کیاتھا
دو قسم کے مقدّر ہمارے ساتھ جڑے ہوئے ہیں
ایک مستقبل اور ایک ماضی
دو پیکر ہمیں آغوش کئے ہوئے ہیں
چاروں طر ف سے گھیر ے ہوئے ہیں
وقت اور فضائے بسیط
اور جب ہم سوال کرتے ہیں
کیسا انجام
جو ہمارے خالق نے چاہا ہمارے لئے
ایک جوابی آوازسنائی دیتی ہے
جو کسی بھی تسلی بھرے لفظ سے خالی ہے
…………………………………..
مجھے چند اور نظمو ں نے بہت متاثر کیا۔
سالوں، زمانوں اور صدیو ں سے
سال ہا سال، زمانہ ہا زمانہ
تاریکی بھاگتی ہے
جب روشن سورج کی ایک بھی صبح
پیامبر نہیں ہوتی
وقت گزرتا اور بدلتا رہتا ہے
دنیا لرزے بغیر قائم ہے
اپنی مغربی اور مشرقی زمینوں کے ساتھ
قلم رواں ہوا
حکم کی تعمیل ہوئی
سیاہی چرمی کاغذ پر خشک ہوئی
جیسا کہ مقدر نے چاہا
کیا بادشاہ اور اُ س کے امراء وزراء
کیا سیزر اور اُ س کے حالی موالی
قبر سے بچ پائے؟
…………………………………….

کہا جاتا ہے روحیں آواگون کے تحت حرکت کرتی ہیں
ایک جسم سے دوسرے جسم تک
حتیٰ کہ یہ پاک ہو جاتی ہیں
لیکن کبھی یقین نہ کرو اس پر
یہ وہ غلطی ہے جو اسے ماننے پر اصرار کرتی ہے
یہاں تک کہ تمہارا دماغ اس کی سچائی پر ایمان لے آئے
گو کہ ان کے سر پام کی طرح اونچے ہیں
لیکن جسم جڑی بوٹیوں کی طرح ہیں
جو اُگتی اور مرجھا جاتی ہیں
اپنی روح کی خواہشات کو کم کرو
اور سکون سے رہو
………………………………………..
انسان کے پاس تنہائی کے سوا کیاہے؟
جب قدرت بھی اُس کی خواہشات پوری کرنے سے منکر ہے
امن اور جنگ جو انسان چاہے
وقت اپنے غیر منصفانہ ہاتھ سے
جنگجوؤں اور امن پسندوں کو دیتا ہے
………………………………………..
آؤ چلیں اُن کے پاس
جنہیں قدرت نے توانا دماغ دیئے
اور جنہوں نے ہمیں حوصلہ مندی کاسبق دیا
مقدر سے ملاقات جو ہمارے تعاقب میں ہے

کہ آخر کار شاید ہم مر جائیں
زندگی کا جرعہ میرے نزدیک
جسے باہر نکالنا بے حد تلخ
اور دیکھو سچ کی یہ کڑواہٹ
کہ ہم اِسے دوبارہ باہر نکال پھینکتے ہیں

Advertisements
julia rana solicitors london

٭٭٭

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply