• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • برستی بارش اور قحط زدہ وجود: رمشا تبسم کی ڈائری “خاک نشین” سے “خود کلامی کی اذیت” کا اقتباس

برستی بارش اور قحط زدہ وجود: رمشا تبسم کی ڈائری “خاک نشین” سے “خود کلامی کی اذیت” کا اقتباس

آج ہلکی ہلکی بارش کی بُوندیں زمین کو نَم کر رہی تھیں۔جیسے رات کے پہلے پہر میری آنکھیں تمہاری یاد میں نَم ہوتی ہیں یا شاید پہلے یہ ہلکی سی نمی آنکھوں کو اشارہ کرتی ہے کہ  محبت کے قید خانے میں اذیت کی قید کا لمحہ شروع ہو گیا ہے۔۔ موسم کی خوبصورتی میں آج دن کو ہی میں نے اپنے قائم کیے اذیت خانے کی میز پر جب ڈائری کا پہلا صفحہ کھولا۔۔تمہارا نام چاند سا روشن ہو کر مسکرانے لگا۔میں بھی یونہی بس مسکراتی چلی گئی۔ شرماتی گئی۔۔سہانے موسم میں تمہاری یاد سے کچھ میں بھی بہت خوش ہو گئی ۔آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر چپکے سے تمہارے نام کو دیکھا وہ بھی  نظریں مجھ پر ہی جمائے ہنستا ہی چلا گیا۔کتنے شرارتی ہو نا  تم بھی اور تم سے منسلک ہر چیز ،ہر لمحہ بھی۔قلم کو تھاما کہ  کچھ لکھوں،محبت سے تم کو میری جان لکھوں یا میرے دل کی دھڑکن۔قلم پکڑی تو وہ بھی اذیت لکھ لکھ کر اب مرتی جا رہی تھی۔ ایک دم سے میرے چہرے پر ہنسی دیکھ کر مجھ سے بولی۔
” آؤ۔۔ آج اذیت نہیں محبت لکھو”۔
میں نے کہا “ارے پگلی محبت کیا صاف کہو نا  کہ  میں اس کو لکھوں  جو ڈائری پر موجود اب بھی مسکراتا ہوا مجھے ہی دیکھے  جا رہا ہے” ۔

قلم میں بھی یہ سن کر کچھ زندگی سی رواں ہو گئی ۔جب اس کو صفحے پر رکھا تمہارے نام کا پہلا ہجہ لکھا ہی تھا کہ  الفاظ دوڑتے ہوئے میرے دامن میں آ گرے۔ الفاظوں میں بھی اذیت بھر چکی تھی اور وہ بھی اب اذیت سے مرتے جا رہے تھے۔کہنے لگے۔۔۔۔
” آج محبت سے ہمیں محبت کے نام کر دو۔آج محبت لکھ کر ہماری روح میں موجود نفرت اور اذیت کی کاٹ کر دو”۔
میں نے لفظوں کو دیکھا کتنے مردہ اور گھٹن زدہ سے تھے ۔ تڑپ, سسکیاں, آہیں لئے بیٹھے حسرت سے میرا مسکراتا چہرہ دیکھ رہے تھے۔میرے چہرے پر مسکراہٹ دیکھ کر لفظوں میں جان سی آ گئی۔انہوں نے ایک دوسرے سے کچھ تو سرگوشی کی تھی ۔ہلکی سی تو میں نے سنی تھی۔ ۔جانتے ہو ان الفاظوں کو خیال گزرا کہ آج میں ان کو اذیت میں نہیں بلکہ محبت میں لکھوں گی۔الفاظوں کو گماں ہوا کہ آج میں محبت کو محبت سے یاد کر کے, الفاظوں میں محبت کے رنگ بھر کر , مردہ محبت میں جان ڈال لوں گی۔

جانتے ہو محبت میں جان ڈال دی تو میں بھی تو پھر اذیت خانے سے رہائی پا جاؤں گی۔۔۔ہے نا۔۔ میری تڑپ اور گھٹن کی کاٹ بھی ہو جائے گی۔ہجر کا نوحہ چھوڑ کر محبت کا گیت گانا شروع کر دوں گی۔دھنک کے رنگ واپس کردوں گی۔تتلیوں کے سنگ جھوموں گی۔پھولوں کو بالوں میں سجاؤں گی۔ہجر کی کوئل سے جان چھڑا کر عشق کی مینا لے آؤں گی۔میں جب تم سے اظہارِ محبت کرونگی تو وہ مینا پیچھے پیچھے دُہرائے گی۔ پھر جب مینا بھی تُم سے محبت کا اظہار کرے گی تو میں اسکو غصے سے دیکھوں گی ۔اور اس کیفیت میں تم مجھے پیار سے ویسے ہی جھلی کہنا جیسے تم مجھے کہا کرتے تھے جب میں تمہیں ہنستا ہوا دیکھ کر جھلی ہو کر ہنستی ہی چلی جاتی تھی تمہیں اداس دیکھ کر روتی ہی چلی جاتی تھی۔۔

آج میرا دل بارشوں کی سریلی بوندوں کے سنگ جھوم کر کہہ رہا ہے کہ میں محبت کے جزیرے پر ایک گھر بناؤں۔جہاں صرف میں اور میری محبت مطلب صرف “تم” ہو گے۔یہ ابھی سوچ ہی رہی تھی کہ  الفاظ مجھے ایسے دیکھنے لگے جیسے میں جھلی ہو ہی گئی  بس۔۔

میں نے آنکھوں کے اشارے سے ان کو ڈانٹا ،مگر الفاظ تو جیسے بس آج میری محبت کی داستان سننے ہی بیٹھ گئے۔کتنا سرور ہے نا  تمہیں سوچنے میں، تمہیں یاد کرنے میں کہ  باہر بادلوں کی گرج چمک اور بے سکونی ہے اور یہاں میرے اندر اتنا سکون۔۔ باہر بادل اپنے عروج پر بارش برسا رہے تھے۔ طوفاں کی سی کیفیت تھی اور یہاں میں محبت سے تم کو محسوس کرتے ہوئے سکون میں خود سے شرمائے جا رہی تھی۔۔

پھر بادلوں نے بہت زیادہ برسنا شروع کر دیا ،یونہی جیسے رات کے آخری پہر میرے دل میں اٹھا طوفان میری آنکھوں کو سیلاب زدہ کر کے میری روح کو ڈبونے لگتا ہے۔اپنی اذیت کے قید خانے میں ڈائری میز پر چھوڑ کر کھڑکی کی طرف بھاگنے لگی تھی کہ  قلم نے میرا ہاتھ تھام لیا۔وہ نجانے کیوں کانپ رہی تھی۔اس کو کیا خوف تھا مجھے علم نہیں۔۔ مجھے صرف بارش دیکھنی تھی۔اور قلم اسی بارش سے خوفزدہ تھی۔۔میں نے قلم کو ڈائری میں رکھا۔ڈائری میں اذیت کے قفس خانے میں قلم کے آنسو جاری تھے اور میں نے ڈائری بند کردی مگر ڈائری بند کرتے ہی ایک آہ سی سنائی دی۔ نجانے کیسی آہ تھی کس کی تھی؟کیا قلم مر گئی  تھی یا میری قید کی گئی  تتلی ایک بار پھر سے تڑپ کر موت کی آغوش میں چلی گئی  تھی؟

میں نے قدم کھڑکی کی طرف کیے ہی تھے۔۔ کہ الفاظوں نے میرے قدموں میں ڈیرہ ڈال دیا۔وہ پھر سے مردہ سے ہو کر مجھے کچھ کہنا چاہ رہے تھے۔مگر میں بُدھو کہاں ہوش رہا مجھے کہ بارش میں کچھ سُنو ں یا سمجھوں۔ بارش تمہاری یاد لاتی تھی اور تمہاری یاد آ جائے تو فہم و ادراک کی گرہیں کھول کر میں اذیت کے قفس خانے میں زنگ آلود جذبات اور دیمک زدہ سسکیاں بھول بیٹھتی ہوں ۔الفاظوں سے قدم کھینچتے ہوئے میں آگے بڑھی کوئی لفظ “سکوں” میرے پاؤں کے نیچے آ گیا اور سارے الفاظ خوفزدہ سے ہو کر سہم کر پیچھے ہٹ گئے۔

کھڑکی سے بارش دیکھ کر میرے چہرے پر خوشی کی لہر دوڑ گئی ۔تمہیں بارش پسند تھی نا؟۔۔۔ اور مجھے بارش میں بھیگتے ہوئے صرف تُم۔۔تمہیں بارش میں بھیگنا پسند تھا اور مجھے بھیگی ہوئی تمہارے لبوں پر پھیلی مسکراہٹ۔۔مجھے نہیں یاد کہ تمہارے ہوتے ہوئےکبھی بارش میں کھڑے رہ کر بھی مجھے بارش کبھی تُم سے زیادہ خوبصورت محسوس ہوئی ہو ۔کبھی نظر تم سے ہٹی ہی نہیں کہ  بارش کو دیکھ سکتی۔تم میرا ہاتھ تھام لو۔۔ آسمان مینہ برسانے لگ جائے۔ بارش کی بوندیں تمہارے سیاہ بالوں کو بھگو رہی ہوں اور تمہارے لبوں پر مسکراہٹ بھیگتی چلی جا رہی ہو تو میں بھلا ہوش میں رہ سکتی تھی؟۔

تمہارے چہرے پر بارش کے قطرے یوں محسوس ہوتے تھے کہ  تمہارے لمس سے خود کو معطر کرنے آئے ہیں اور قطروں کا یوں تمہارے اوپر گرنا پھر رفتہ رفتہ سیاہ بالوں سے چاند سی پیشانی کا رخ کرنا اور پھر ایک دم ان قطروں کا ایک دوسرے سے سرگوشی کرنا کہ  ان کو بھی تم سے شرم آ رہی ہے۔پھر ان قطروں کا ایک دوسرے سے لڑنا کہ  تمہاری چمکتی آنکھوں کو پہلے کون بوسہ دے گا۔اس لڑائی میں کئی  قطرے تمہارے ماتھے پر دم توڑ جاتے تھے اور کئی قطرے تمہاری پلکوں پر ٹھہر کر لمحہ بھر سانس لیتے تھے اور پلکوں پر بیٹھے ان قطروں میں تمہاری آنکھ کی روشنی ایسی چمک پیدا کرتی کہ  گویا کسی نایاب موتی پر سورج کی پہلی کرن پڑ گئی  ہو۔یہ قطرے تو اس روشنی سے ہی دم توڑ جاتے تھے اور کچھ قطرے نظروں کی چمک سے مرنے کی بجائے ہونٹوں کی طرف بھاگ پڑتے اور تمہاری داڑھی کے چھوٹے چھوٹے چمکیلے بال ان کی راہ میں ایسی رکاوٹ بنتے کہ  وہ قطرے گال پر بیٹھتے ہی ماتم شروع کر دیتے۔جانتے ہو میں نے دیکھا ہے تم جب بارش میں بھیگ کر اپنے ہاتھ سے سر کے بالوں کو سہلاتے تو کچھ قطرے فوراً سے تمہارے ماتھے سے ہوتے ہوئے ہونٹوں پر گر جاتے اور تمہارے باریک سرخ ہونٹوں پر یوں بیٹھ کر مجھے دیکھتے جیسے کہہ رہے ہوں
“ہاتھ تھامنے سے کچھ نہیں ہوتا کمبخت ! ہم خوش فسمت ہیں کہ  ان باریک سرخ ہونٹوں کو چھو لیا ہے”۔۔۔

اور یہ کہتے ہی وہ قطرے ایک دوسرے سے دھیمی آواز میں مسکراتے کہ  کہیں تمہارے کان میں آواز نہ پڑ جائے اور پھر جب میں انکی اس ہنسی پر ان کو ذرا سا غصے اور حسد سے دیکھتی تو فوراً وہیں سہم کر تمہارے ہونٹوں پر دم توڑ کر خود کو امر کر لیتے اور اسی لمحے میں تمہارے ہونٹوں پر پھیلی بھیگی مسکراہٹ دیکھ کر مر ہی جاتی۔

کوئی تمہیں چپکے سے چھو جائے اور زندگی ہار جائے اور تم اس پر مسکرا دیتے تھے؟تمہیں خبر ہی کہاں ہوئی کہ  ہر بوند کے ہونٹوں پر دم توڑتے ہی تمہاری ہنسی پر کتنی بار میں مر چکی ہوں۔۔
اب بھی بادل مینہ برسا رہے تھے اور اِدھر کھڑکی پر ہاتھ رکھے باہر برستی برندوں کو دیکھتی میری آنکھوں میں بھی چند بوندیں لرزنے لگ گئیں ۔ میری آنکھوں میں یہ لرزتی بوندیں میری روح کو بے چین کر رہی تھیں۔

یہ برستی بارش تمہارا چہرہ دکھا کر میرے ارمانوں کو گدگدا نہیں رہی  کیونکہ بارش میں تمہارے بھیگے نقوش نظر ہی نہیں آ رہے۔تم نظر نہ آؤ ایسی بارش کی ہر بوند کسی آتش فشاں کے لاوے کی مانند میری روح پر گر رہی ہے۔یہ بارش اب بھیانک ہجر کی کالی رات سے سایہ فگن ہے۔تم تو بارش میں میرا ہاتھ اس لئے تھامتے تھے کہ بادل و بجلی کی گرج چمک میرے دل کو سہما نہ دے۔مگر اب جو میرا دل ایک ایک بوند پر سہما جارہا ہے تو تم کہیں موجود ہی نہیں ہو۔دل شکستہ ہے اور آنکھیں تمہاری بھیگی ہنسی سے محروم۔ کیسی قیامت ہے بارش میں بھی میرا دل بنجر اور قحط زدہ ہے۔۔خود غرضی کا لحاف, انا کی چادر اور لاپرواہی کا لبادہ اوڑھے تم میرے محبت سے ذرخیز وجود کو اتنا قحط زدہ کر چکے ہو کہ اب زندگی , سکوں, خوشی ,محبت ,احساس سب بارش کی ان بوندوں میں آنکھوں میں لرزتے قطروں سے بہتا چلا جا رہا ہے۔اور میں ان کو بچانے کی سعی کرنے کی بجائے آنسوؤں سے غسل دے کر رخصت کر رہی ہوں۔

یہ بارش کتنی وحشت ناک ہے کتنی اذیت ناک اور کتنی خشک کہ اس کو تَر ہونے کے لئے میرے آنسوؤں کی ضرورت ہے۔اک اک بُوند میرے آنسوؤں سے غسل کر رہی ہے۔وجود کی زرخیزی, آنکھوں کا نور , دل کی دھڑکن , لبوں کا تبسم صرف اور صرف تم سے وابستہ تھے اور اب زندگی میں تم , تمہاری محبت اور تمہاری آغوش کی گرمی کی ہر امید ختم ہوتے ہی ایک نا ختم ہونے والی وحشت اور اذیت میرے وجود میں وہ قحط سالی لا چکی ہے کہ ادھر بارش اور آنکھوں کا بے تحاشا پانی بھی اس قحط سے نجات دلا کر روح کو زرخیز کرنے سے قاصر ہے۔تمہاری یاد کی کشتی میرے آنسوں کے سیلاب اور بارش کے قطروں میں تیرنے لگی ہے۔اور میری حسرتیں, میری اذیت میرے کانوں میں گونجنے لگی ہیں۔ان کڑکتی بجلیوں میں بارش کی بوندیں لمحہ بھرکو تمہاری دی ہوئی ہجر کی اذیت کو بس اس طرح دھندلا تو کر سکتی ہیں جیسے اس وقت شیشے پر پڑی بوندیں اور آنکھوں میں لرزتا پانی باہر کا ہر منظر دھندلا کر چکا ہے مگر اس ہجر کی اذیت اور وصل کی لاحاصل تمنا کی تڑپ کو کبھی میرے وجود سے ہمیشہ کے لئے اکھاڑ نہیں سکتیں۔۔کیونکہ میری جڑوں میں وصل کی مردہ خواہش کی کھاد ہے جسے ہجر کی اذیت کے آنسو ہر لمحہ سیراب کرتے رہتے ہیں۔۔اب یہ دل, روح اور وجود کی قحط سالی نہ بارشیں ختم کر سکتی ہیں نہ ہی آنکھوں میں لرزتا پانی۔۔

میری زندگی میں اب تمہاری محبت کا, سکون کا , خوشی کا وجود, وصل کی خواہش, حسین لمحوں کا, تدبیر کا ,حکمت کا ,چاہت کا اور باتوں کا ایسا قحط پڑا ہے کہ مسلسل برسنے والی آنکھیں بھی میرے دل میں چھپی تمہاری محبت کے احساس کی آبیاری کرنے سے قاصر ہیں۔ یادوں کے جل تھل نے روح میں کہرام برپا کر رکھا ہے۔

اسی اذیت میں بارش سے نظریں ہٹا کر میں نے پیچھے دیکھا سارے الفاظ ڈائری کے ارد گرد سر جھکائے اداس اور بے جان سے بیٹھے ہیں۔جیسے کوئی صرف موت کے انتظار میں بیٹھا ہو ۔ایک ننھی سی چڑیا اسی لمحے بھیگی ہوئی کھڑکی میں آ بیٹھی۔تمہیں یاد ہے محبت کو بھی تم نے ایک سہمی ہوئی بھیگی سی چڑیا کہا تھا کہ جس کو اس لمحے صرف پَر سُکھا کر جلدی سے اڑنے کی خواہش کے سوا کوئی خواہش نہیں ہوتی ۔ایسی حالت میں کسی شکاری کے حملے کے سوا کوئی خوف نہیں ہوتا۔میری محبت بھی اسی بھیگی چڑیا کی مانند تھی جسے ہجر شکار کر چکا ہے اور میں تمہارے ساتھ گزارے لمحوں کا فسوں لئے بے آشیاں ہو کر اب ہجر کی زندانی ہوں۔

میں نے اس بھیگی چڑیا کو دبوچ لیا۔کیسی پھڑپھڑاہٹ تھی اسکے وجود میں۔ میں میری ہتھیلی میں اسکی جان نکال دینا چاہتی تھی۔پھر لمحہ بھر کو اسکے ننھے دل کی دھڑکن نے میری ہتھیلی کی گرفت
کو کمزور کردیا۔ دل تو میرا بھی بہت شدت سے دھڑک رہا تھا۔ہجر کے قید خانے میں بیٹھے بیٹھے بھی دل کی دھڑکن جاری کیوں تھی؟ اسی لمحے چڑیا میرے ہاتھوں سے نکل گئی  اور بارش میں بھیگتی رہی۔باہر بادل گریہ کرنے میں مصروف تھے اور یہاں میری آنکھیں سیلاب لا کر میرے پورے مگر ادھورے وجود کو بھگو چکیں تھیں۔

میں نے مڑ کر دیکھا رفتہ رفتہ الفاظ اپنا وجود گھسیٹ کر ڈائری میں سمٹ رہے تھے۔میں بارش دیکھو تو وحشت ہو رہی تھی۔اور الفاظوں کو مجھے دیکھ کر وحشت ہو رہی تھی۔قلم بھی ڈائری میں سسک سی رہی تھی۔
میں نے فوراً ڈائری کھولی۔ لرزتے ہاتھوں سے قلم پکڑی جو خود اب تڑپ رہی تھی۔میں نے شرمندگی سے قلم کو دیکھا ۔میں آج محبت کے قصیدے پڑھنے کی بجائے پھر سے اذیت میں مبتلا ہو گئی ۔اور تمہارے دیئے ہوئے غم کی اذیت میری ڈائری ،یہ ننھی قلم اور یہ تمام الفاظ ہر روز سہتے ہیں, جو اب خودبخود ڈائری پر منہ جھکائے تڑپنے کو تیار ہیں۔تمہاری قربت کا سایہ چھنتے ہی نا  صرف میں بلکہ یہ الفاظ اور قلم بھی موت کے گھاٹ اترتے جا رہے ہیں۔

میں نے تمہارے نام کا ہجہ جو لکھا تھا اسکو میری آنکھوں سے گرنے والی بوند نے دھو دیا ،باقی میں نے قلم کی نوک سے تمہارے نام کا پہلا ہجہ بے دریغ وار کر کے ختم کر دیا۔اب تم مسکرا نہیں رہے۔ میرے آنسوؤں نے ڈائری کو بھگو دیا ۔میں نے اس پھیلی سیاہی کو چہرے پر مل لیا۔بہتا کاجل اور یہ سیاہی کالک لئے ہوئے ہیں مگر پھر بھی چہرے پر کئی  رنگوں کا آنا جانا ہے۔کوئی افسوس کا رنگ, کوئی اذیت کا رنگ ,کوئی تڑپ کا اور کوئی وحشت کا رنگ میرے چہرے کو عجیب سا رنگین کیے ہوئے ہے۔دیکھو ! تمہیں بھی کبھی اتنی ہی وحشت محسوس ہو گی۔ جتنی وحشت ان الفاظوں کو اب ہو رہی ہے جو لمحہ  بھر   پہلے مجھے مسکراتا دیکھ کر مسکرا رہے تھے۔اب لرز رہے ہیں۔

وہ تتلی جویہاں قید تھی۔۔سوکھ گئی  ہے،میں نے اسکے سوکھے ہوئے مردہ پَر توڑ دیئے ہیں اور چہرے پر پھیلی سیاہی پر رکھ دیئے تاکہ میرے چہرے کی اذیت ان رنگوں سمیت اسکے پَروں میں اتر جائے۔۔ میں اسکو اسی ڈائری میں مختلف جگہوں پر قید کروں گی۔یہ اپنے دوسرے حصوں کو دیکھنے کو اتنا ہی ترسے گی جتنا میں تمہیں دیکھنے کو ترستی ہوں۔

مجھے وصل کی اس سیپ کی تلاش تھی جس میں سے ایک خوبصورت موتی میرے دامن میں گر جاتا۔جس موتی کو لمحہ بھر خود بھی چھوتے ہوئے مجھے خوف محسوس ہوتا ۔خوف کہ  کہیں یہ موتی میرے ہاتھوں میں میلا نہ ہو جائے۔یہ موتی کہیں زمانے کی گرد اور وقت کی تیز رفتاری کے آگے اپنا حسن کھو نہ دے۔۔خوف کہ  کہیں یہ موتی میرے نصیب کی کالک سے سیاہ نہ ہو جائے ۔اس وصل کے موتی کو پھر سے سیپ میں چھپانے کی خاطر میں کئی  بار محبت کے سمندر میں غوطے کھانے کو تیار تھی۔کئی  بار گہرائیوں کے اندھیروں میں گھٹن سے مرنے کو تیار تھی۔کسی بھیانک تاریکی میں سمندروں کی لہروں پر بہنے کو تیار تھی۔

مگر میرے حصے میں وصل کی سیپ تھی ہی نہیں۔میرے حصے میں ہجر کی کالی مالا تھی ۔جس کو خود سے جدا کرنے کو میں دیوانہ وار بھاگتی جا رہی ہوں۔بھاگتی ہوں مگر میرے پاؤں ہجر کے دلدل میں دھنس گئے ہیں۔۔اب یہ دلدل میں لمحہ لمحہ مرتی میری ذات ،بارش دیکھ کر کچھ دیر انجانے میں خوش ہو سکتی ہے مگر اس دلدل میں پھنسی میری ذات کو تمہارے خیال کا آنا پھر سے میرے دل کو بارش میں قحط زدہ کر گیا۔اس بارش میں پھولوں پر تازگی آئی  ہے اور یہی بارش تمہاری یاد لے کر میرے ہجر پر بہار لا کر میرے وجود پر قحط لے آئی ہے۔

جانتے ہو یہاں پھر سے ہر لفظ ماتم کناں ہے۔ڈائری پر کاغذوں پر صرف سیاہی نہیں بلکہ میری ذات بکھری ہے۔ تمہیں جب کبھی گردش دوراں خوب ستائے گی تم بانہیں پھیلائے محبت کا اٹھتا طوفان لے کر میری طرف آؤ گے یہ سیاہی تمہیں اس وقت اذیت کا پتہ دے گی۔۔تم اسکو کھولو گے۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ ڈائری تمہیں اذیت کے صحرا میں لے جائے گی۔جہاں تم اپنی جدائی سے میرے وجود میں منتقل کی گئی  ہجر کی کائی دیکھو گے۔ تپتے صحرا میں تمہیں میرے وجود کی سیلن محسوس ہو گی وہ سیلن جو رفتہ رفتہ میری زندگی کو مارتی گئی ۔تم اس اذیت سے بھاگتے پھرو گے۔ مگر تم اس صحرا سے بھاگ نہیں پاؤ گے۔جب تک تمہارے پاؤں میں چھالے اور ان میں اذیت کا پانی موجود رہے گا تم اسی صحرا کے مکین بنے رہو گے۔اور جانتے ہو تمہارے ان چھالوں میں اذیت کا پانی کبھی ختم نہیں ہو گا۔اس ڈائری میں موجود آنسو ایک ایک کر کے ان چھالوں کو پالتا جائے گا۔ اور تم کبھی نہ ختم ہونے والی اس اذیت سے جان نہیں چھڑا سکو گے۔تمہارے دل کا قبلہ جب درست ہو گا میری محبت کا قبلہ اس وقت بدل چکا ہو گا۔تم میری ذات کی اذیت خود میں اترتی  ہوئی  دیکھ کر اپنی آنکھیں نوچ ڈالو گے۔ہاں۔۔ میں تمہیں اس اذیت کا کچھ حصہ منتقل کرنے کی خواہش رکھتی ہوں۔تمہاری اذیت تمہیں ہی لوٹا کر تم کو تڑپ کا احساس دلانا چاہتی ہوں۔اور جب تم تڑپ اٹھو گے تو تمہاری یہ تڑپ پھر سے میرے وجود کو اذیت میں مبتلا کر دے گی۔تم کو تڑپتا دیکھنا بھی ایک اذیت ہی تو ہےمگر پھر بھی میں محبت نہ سہی کم سے کم تڑپ کا ایک لمحہ تمہارے سنگ محسوس کرنا چاہتی ہوں۔تڑپ کے لمحات میں ہی شاید  میں تم سے اور تم مجھ سے محبت کا اظہار کر کے، ہم محبت کے قحط سے دل کی بنجر زمین میں احساس کی خشک سالی کو آنسوؤں سے سیراب کریں گے۔دیکھو پھولوں پر بارش سے بہار آئی  ہے اور میری ڈائری پر آنسوؤں کی بارش رنگوں کو بکھیر کر دکھ کی بہار لائی ہے۔تمہارا درد چہرے پر سجائے میں تم سے وابستہ محبت کو یاد کرتی کرتی یہ رنگ چہرے پر کسی تمغے کی مانند سجاتی جا رہی ہوں۔تمہاری محبت کی طرح تمہاری دی ہوئی اذیت بھی تمغہ ہے ۔اسی تمغے سے کسی روز اس ڈائری کا ایک ایک ورق جلا کر تم اپنا وجود داغا کرو گے۔ہاں۔ ۔میں قحط زدہ وجود کا کچھ حصہ تم میں منتقل کر کے تمہیں محبت کی قحط سالی کا احساس دلانا چاہتی ہوں۔۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply