مکالمہ کو تیسری سالگرہ مبارک ہو ۔۔۔ طفیل ہاشمی

مکالمہ۔۔۔
تین سال کا ہوگیا ہے، مکالمہ کو سالگرہ مبارک ہو۔
مجھے اچھا نہیں لگتا کہ اس کے ساتھ اور آگے پیچھے پیدا ہونے والوں کا تذکرہ کر کے انہیں شرمندہ کروں۔
لیکن بلاشبہ یہ ہمیشہ مکالمہ رہا، شائستہ، خوش اطوار، مہذب اور حسن متنوع کا پیکر جمال۔
اختلاف، خواہ شکل و صورت اور خد و خال کا ہو یا فکر و نظر کا خوبصورتی کا ضامن اور حسن کی اساس ہے، حسن اپنا ایک فطری تقاضا رکھتا ہے کہ اس سے مشام جان کو معطر کیا جائے نہ کہ مسل کر پھینک دیا جائے، مکالمہ نے یہ حسن تخلیق کیا اور اس سے لطف اندوز ہونے کا سلیقہ دیا۔
اس کے فطری طرز عمل کے لیے کیا یہی کافی نہیں کہ جس مسموم عہد گفتار میں یہ پیدا ہوا، پلا، چلنے لگا اس میں گالی ہی تہذیبی چلن کا معیار کمال ٹھہری۔۔۔
لیکن
اس نے کبھی ناشائستہ جملہ زبان سے نہیں نکالا۔
مکالمہ کیا، جو عنقا ہو گیا تھا، طرح ڈالی، مجادلہ، مخاصمہ اور مناظرہ سے پہلو بچا کر ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنے کی کوشش کی۔
کیا یہ انعام رانا کا اعجاز مسیحائی نہیں ہے کہ جہاں دو رائٹرز یا دانشور حوصلے، تحمل اور بردباری سے ایک دوسرے کو سن نہیں سکتے وہاں ایک ایسی بساط بچھا دی جس پر ہر مذہب، عقیدے، نظرئیے، تہذیب اور روایت کے حامل ایک دوسرے کو سنتے، سمجھتے اور برداشت کرتے ہیں. اختلاف میں بھی احترام کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہیں پاتا۔
مکالمہ نے ایک تجدیدی روایت کو جنم دیا، ایک خاندان دانش پیدا کیا جو فکری انفرادیت کے باوجود ایک لڑی میں پرو کر نمونہ تقلید بنا دیا گیا۔
انعام رانا، مجھے تو جادوگر لگتا ہے جس نے کوئی مقناطیسی مالا پہنی ہوئی ہے کہ اسماء مغل، معاذ بن محمود اور احمد رضوان ایسے ہیرے بھی اس مالا کی زینت ہیں۔
حیرت مجھے تب ہوتی ہے جب میں کچھ لکھ کر اپنی وال پر لگا دیتا ہوں اور فطری حجاب کے باعث کہتا نہیں بس دل میں خیال آتا ہے کہ کاش یہ تحریر مکالمہ پر لگ جاتی۔۔۔
اور اگلے لمحے میری خواہش پوری ہو جاتی ہے۔
مکالمہ کے سارے خاندان کو بالخصوص مکالمہ کی مریم (بیک وقت ماما اور پاپا) یعنی انعام رانا کو
مکالمہ کی سالگرہ مبارک۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply