ہادیہ یوسف کا ادبی محبت نامہ ڈاکٹر خالد سہیل کے نام

ہادیہ یوسف کا ادبی محبت نامہ
مسیحائی سے دوستی کا حسیں سفر

ہادیہ ہوسف کا خط

آپ کو یاد ہوگا پرائمری اسکول میں ہم ایک مضمون لکھا کرتے تھے ، “میرا بہترین دوست ” ، کبھی انگریزی میں اور کبھی اردو زبان میں مگر تقریباً ہم سب نے ہی یہ مضمون لکھا ضرور ہے ،آج مجھے بھی یہ تحریر لکھتے ہوۓ یہی محسوس ہو رہا ہے مگر یہاں ایک فرق ہے ، اُس مضمون میں وہ دوست زیادہ تر ہمارا ہم جماعت ہم عمر ہوتا تھا جس کے ساتھ ہم اپنے بچپن کے حسین پل گزارتے تھے ، کبھی کھیل تو کبھی لڑائی ،میرے بھی بہت سے دوست تھے، یوں کہیے کہ میں ہمیشہ سے دوستی کے حوالے سے  بہت خوش قسمت رہی ، اتنی ہی خوش قسمت جتنی محبت میں بد قسمت رہی (مسکراہٹ) ۔

مگر مجھے اندازہ نہیں تھا کہ میری یہی بدقسمتی مجھے میری زندگی کی سب سے بڑی خوش قسمتی سے ملوانے والی ہے ۔ آپ لوگوں کے دوست کون تھے ؟ کلاس فیلو ہمساۓ کزن یا شاید بہن بھائی؟ .۔۔آپ نے کبھی ایسا دوست بنایا ؟ جس سے پہلی ملاقات رونے سے شروع ہوئی ہو ؟ جس کے سامنے آپ نے پہلی ملاقات میں اپنے دل کا تمام احوال بیان کر دیا ہو ؟ اور ملاقات بھی ایسی جس میں کئی ہزار میل کا فاصلہ ہو اور آپ اپنے دوست کو بالکل بھی نہ جانتے ہوں اور نہ کسی نے آپ کو اُس سے متعارف کروایا ہو ؟ اور نہ ہی وہ آپ کو جانتا ہو ؟

آئیے آج میں آپ کو اپنے ایسے ہی ایک دوست سے  ملوانے جا رہی ہوں ۔ یہ مسیحائی سے دوستی کا ایک ایسا سفر ہے جس نے مجھے مجھ سے ملوایا ، مجھے میرے اُن پیروں پر دوبارہ چلنا سکھایا جن پر چلنا میں بھول چُکی تھی ،حضر راہ نصیب والوں کو ہی ملا کرتے ہیں اور میں اس معاملے میں بہت خوش قسمت رہی ، مجھے میرا خضر ایک مسیحا کے روپ میں ملا جو کب میرا بہترین دوست بن گیا پتا ہی نہیں چلا ۔

ایسا شخص جس نے مجھے مجھ سے  متعارف کروایا ، جس نے کبھی میرا ہاتھ نہیں پکڑا بلکہ بنا کسی سہارے کھڑا ہونا سکھایا ، اُس نے مجھے بتایا کہ میں ایک مکمل انسان ہوں اور مجھے مکمل کرنے کے لیے کسی دوسرے انسان کی نہیں بلکہ اپنے آپ کی ضرورت ہے ،کیونکہ ہم اُس وقت تک کسی کے لیے مفید نہیں ہو سکتے جب تک ہم خود اپنے لیے مفید نہ ہوں ، اپنے پیاروں کو خوشیاں دینے کے لیے ضروری ہے ہم خود اپنی ذات میں خوش ، مطمئن اور مکمل ہوں ۔

مجھے میرے اس دوست نے تنہائی اور دانائی سے متعارف کروایا ،دانائی میرے لیے کاغذ کی ڈگریاں تھیں جو میں نے بہت جمع کر رکھی تھیں ،مگر وہ صرف کاغذ تھے جو دانائی سے عاری تھے ، دانائی محبت کا وہ باب ہے جو ہر رنگ سے آزاد ہے ، ہر نسل سے مبرا اور ہر مذہب سے بالاتر ہے ۔

میں نے اپنی پوری زندگی ایک مسلمان کی حیثیت سے گزاری لیکن جس دوست نے مجھے انسان سے محبت کرنا سکھائی اسکا کوئی مذہب نہیں ہے ( یہ وہ سمجھتا ہے ) مگر میں جانتی ہوں اسکا مذہب کیا ہے ۔

میرے وہ دوست ہم سب سے زیادہ مذہبی ہیں کیوں کہ آپ نے محبت کا مذہب اپنایا ہے ،جس کو آپ انسانیت کہتے ہیں میرے نزدیک در اصل وہ محبت ہے ،آپ اپنے آپ کو انسانیت تک محدور کیسے کر سکتے ہیں ؟ محبت تو لامحدود ہے ، اس لیے  اے میرے دوست ! آپ کا مذہب محبت ہے۔

مجھے حقیقی محبت سے متعارف کروانے والے میرے دوست نے مجھے بتایا کہ محبت کمزور کر دینے کا نام نہیں اور جو تمہیں کمزور کر دے وہ بیماری ہو سکتی ہے محبت نہیں ,آپ نے مجھے سنار اور لوہار میں فرق کرنا سکھایا ،آپ نے مجھے سکھایا کیسے میں لوہاروں میں رہ کر بھی سنار کی پہچان کر سکتی ہوں اور کیسے ان لوہاروں کی بھٹی کی تپش سے بچ سکتی ہوں ، لیکن اگر میں اپنے آپ کو لوہاروں کے حوالے کر دوں گی تو کبھی اُس بھٹی سے نکل نہیں پاؤں گی ، اس کے لیے مجھے اپنا گرین زون تلاشنا ہے ، اور جس دن میں اپنے گرین زون میں آجاؤں گی اس دن کے بعد کوئی شعلہ مجھے نہیں سلگا سکے گا ۔

میرے اس دوست نے مجھے سکھایا کیسے مخالف کا سامنا محبت اور خاموشی سے کرنا ہے ،آواز کا مقابلہ کبھی آواز نہیں ہوتی اور محبت میں کبھی مقابلہ نہیں ہوتا ،آپ کہیں گے اب یہاں پھر دوبارہ محبت کہاں سے آگئی؟ تو جناب محبت جب آپ کا مذہب بن جاۓ اوڑھنا بچھونا بن جاۓ تو ہر طرف صرف محبت ہی نظر آتی ہے ۔

میرے اس دوست کی کتاب “دانائی کی تلاش ” کا مقصد تھا کہ کیسے ہم اس دنیا کو امن و آشتی کا گہوارہ بنا سکتے ہیں ؟ اور کیسے اس دنیا سے غم مٹا سکتے ہیں ؟ ان سارے سوالوں کا ایک ہی جواب ہے جو میرے دوست نے لکھا ہی نہیں بلکہ اپنے ہر عمل سے ثابت کیا اور وہ ہے محبت صرف محبت ۔۔ محبت ہی وہ   ہتھیار ہے جس سے ہر جنگ جیتی جا سکتی ہے اور ہر میدان فتح کیا جا سکتا ہے ۔

اے میرے دوست ! آپ نے مجھے ایک بیماری سے نکال کر اس کائنات کی ہر شے سے محبت کرنا سکھایا ہے ، اب میں اپنے دوستوں سے زیادہ اپنے دشمنوں سے محبت کرتی ہوں اور اُن کی اس نفرت پر دل سے دکھی ہوتی ہوں ،میرا دکھ اور میری محبت ایک دن اُن کو محبت کرنا سکھا دے گا اور یہ سب مجھے آپ نے سکھایا ہے میرے دوست ۔

آپ ایک ایسے معالج ہیں جو زخم کا علاج نہیں کرتا بلکہ اُس جسم کو اس قابل بنا دیتا ہے کہ وہ ہر زخم کا مقابلہ کر سکے اور دنیا کا کوئی خنجر اسے کبھی دوبارہ زخمی نہ کر سکے ، ایسا کمال کا معالج اگر آپ کا بہترین دوست بن جاۓ تو آپ کیسا محسوس کریں گے ؟

یقیناً خوش قسمت ؟ جی ہاں

میرے اس دوست کا نام ہے ڈاکٹر خالد سہیل ، میں آج اپنی دوستی کی سالگرہ پر آپ لوگوں کو ان سے ملوانا چاہتی ہوں ، میں ایک نہیں ایسے سو مضمون بھی لکھوں تو ان کی شخصیت کا احاطہ نہیں کر سکتی ، اس لیے آج میں آپ کو ایک مصنف ، شاعر ، ماہر نفسیات اور فلسفی سے نہیں بلکہ صرف اپنے بہترین دوست سے ملوا رہی ہوں ۔

میں ڈاکٹر صاحب سے اُس وقت ملی جب میں زندگی کی تمنا ختم کر چُکی تھی اور اپنی زندگی کے سب سے تکلیف دہ دور سے گزر رہی تھی ،آپ نے مجھے دوبارہ سے صرف زندگی جینا ہی نہیں سکھایا بلکہ سر اٹھا کر فخر اور خوبصورتی سے زندگی کا استقبال کرنا سکھایا ، تحمل ، برداشت ، بردباری ، ٹھہراؤ اور بے لوث محبت یہ وہ ان گنت موتی ہیں جو میں نے آپ کے دامن سے چپکے سے چراۓ ہیں ۔

ڈاکٹر صاحب سے میرا رشتہ ایک ایسے دوست کا ہے جو ماں جیسا ہمدرد ہے ، باپ جیسا شفیق اور بہترین دوست جیسا بےتکلف اور پْر خلوس ہے ۔

میں زندگی بھر مذہب ، ثقافت اور معاشرے کی جن بیڑیوں میں زندگی گزارتی رہی ڈاکٹر صاحب نے مجھے اُن تمام بیڑیوں سے رہا کروایا ہے ،آپ نے مجھے میرے اندر چھپے لکھاری سے ملوایا ،جو روایت شکن بھی ہے اور سر کش بھی ، یہ وہ سب لکھنا چاہتا ہے جو ہمارا معاشرہ سننا نہیں چاہتا ، یہ اعتماد ، یہ حوصلہ اور یہ فکر مجھے آپ نے دی ہے ۔

میں نے ایک نہیں سیکڑوں بار ڈاکٹر صاحب سے بنا سوچے سمجھے اتنے سوال کیے ہیں کہ میں اب اگر ان سب سوالوں کو جمع کروں تو ایک کتاب بن سکتی ہے ،اور میرے ان تمام سوالوں کے جواب ڈاکٹر صاحب نہایت تحمل اور تفصیل سے دیتے رہے ،سوال کرتے کرتے ہم کب معالج اور مریض سے دوست بن گۓ پتا ہی نہیں چلا ۔

میرے دوست ابھی بہت سے سوال باقی ہیں ، جو مجھے کرنے ہیں تاکہ دانائی کا سفر چلتا رہے مگر یہاں کچھ چیزیں میں نے ہماری دوستی کی اگلی سالگرہ تک کے لیے بچا کر رکھ لی ہیں ، دوستی کی سالگرہ بہت مبارک ہو ۔

دانائی کی متلاشی آپ کی ناچیز دوست

ہادیہ یوسف

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خالد سہیل کا جواب

محترمہ ہادیہ صاحبہ !

آپ کا خط آپ کی محبت اور اپنائیت کا آئینہ دار ہے۔میں آپ سے کبھی نہیں ملا لیکن پھر بھی یوں لگتا ہے کہ آپ سے کئی بار مل چکا ہوں۔پہلے دن سے آپ نے اتنی صاف گوئی اور خلوص سے بات کی کہ مجھے احساس ہوا کہ ہم دوست بن سکتے ہیں۔

جب ہماری انٹرنیٹ پر ملاقات ہوئی تو آپ زندگی کے ایک مشکل دور سے گزر رہی تھیں۔ میں نے آپ کے مسائل سن کر آپ کو دوستانہ مشورے دیے۔میں پہلے بھی آپ کا دوست تھا اور آج بھی دوست ہوں۔ میں نے کبھی آپ کو مریضہ نہیں سمجھا۔

جب ہماری دوستی بڑھی تو مجھے احساس ہوا کہ آپ کے اندر ایک ادیبہ چھپی بیٹھی ہے۔ میں نے اس کی حوصلہ افزائی کی اور جب انٹرنیٹ پر آپ کے مضامین چھپے تو مجھے بہت خوشی ہوئی۔ مجھے پوری امید ہے کہ اگر آپ مستعدی سے لکھتی رہیں اور محنت کرتی رہیں تو ایک دن کامیاب ادیبہ بن جائیں گی۔ آپ نے ایک سال میں دانائی کا جتنا سفر طے کیاہے میں اس سے بہت متاثر ہوا ہوں۔ مجھے آپ کی دوستی پر فخر ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آپ کا ادبی دوست خالد سہیل ۱۰ جولائی ۲۰۱۹

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply