کیا واقعی حج انتظامات انتہائی ناقص ہیں اور حجاج کرام حکومت اور وزیر اعظم کو بد دعائیں دے رہے ہیں ؟ ایک ٹویٹ آیا ہے لیکن جن کی بیرون ملک تو کیا ، پاکستان میں بھی کوئی جائیداد نہ ہو ان کے ٹویٹ کا کیا اعتبار ؟
حکومت سے جہاں غلطی ہو وہاں تنقید ضرور ہونی چاہیے ۔ لیکن محض نفرت ، بغض اور ہیجان میں ایک مہم کھڑی کر دینا انصاف نہیں ۔ حکومت پر تنقید کے معاملے میں ان سطور میں کبھی بھی کوتاہی نہیں کی گئی لیکن فکری دیانت کا کم از کم تقاضا یہ ہے کہ کسی کی خوبی کی تعریف کی اللہ توفیق نہ دے تو کم از کم اس کی خوبی کو خامی نہ بنا دیا جائے ۔ مہنگے حج کے بعد پورا یقین تھا کہ اس مرتبہ غیر معمولی بد انتظامی کا بوجھ بھی حجاج کرام کی پشت پر ہو گا اور اس بوجھ سے حجاج کی کمر دہری ہو جائے گی ۔ یہ بد گمانی حکومت کی اس عمومی کارکردگی کی وجہ سے تھی جس کا مشاہدہ ہم وطن عزیز میں کر رہے ہیں ۔ چنانچہ میں اپنے ان دوستوں اور رشتہ داروں سے رابطے میں رہا جو سرکاری سکیم کے تحت اس سال حج پر جا رہے تھے ۔ ان سے حاصل کردہ اب تک کی دستیاب اطلاعات کے مطابق حج انتظامات نہ صرف تسلی بخش بلکہ قابل تعریف ہیں ۔ مجھے احساس ہے حکومت کے حق میں ایسی گواہی دینا بذات خود ایک بوجھ سے کم نہیں لیکن مجھے اطمینان ہے میں جن لوگوں کی گواہی پر اعتبار کر رہا ہوں وہ اس قابل ہیں کہ سیاسی وابستگی سے بالاتر ہو کر رائے قائم کر سکیں اور ان کی روایت کو میں عام زندگی میں بھی معتبر سمجھتا ہوں۔
حاجی کیمپ میں عازمین حج کو دو مرتبہ بلایا گیا ۔ پہلی بار ویکسی نیشن وغیرہ کے لیے اور دوسری مرتبہ پاسپورٹ دینے کے لیے ۔ مجھے اس وقت خوشگوار حیرت ہوئی جب میں نے ان لوگوں کو حاجی کیمپ کے عملے کی خوش اخلاقی کی تعریف کرتے سنا ۔ ان کا خیال تھا کہ شاید حجاج کے لیے خصوصی طور پر تربیت یافتہ اور خوش مزاج عملے کو حاجی کیمپ میں تعینات کیا گیا ہے ورنہ اتنا تعاون کرنے والا اور خوش مزاج عملہ ہمارے ہاں اب کہاں ملتا ہے ۔ بتاتا چلوں کہ جو صاحب یہ رائے بیان فرما رہے تھے ان کا تعلق مسلم لیگ ن سے تھا ۔ حاجی کیمپ کا یہ عملہ گمنام ہے ۔ ہم کسی کو نہیں جانتے۔ لیکن ہم ان سب کے شکر گزار ہیں جو ہماری مائوں ، بہنوں ، بیٹیوں ، بوڑھے بزرگوں سے عزت و احترام سے پیش آئے ۔ جہاں شکریہ واجب ہو ، ادائیگی میں کوتاہی بھی نہیں ہونی چاہیے ۔
جس روز حاجی کیمپ میں پاسپورٹ دیے گئے اس سے دوسرے دن لوگوں کی فلائیٹ تھی ۔ یعنی دو دن کا قیام تھا ۔ یہ ایک تکلیف دہ صورت حال محسوس ہوئی ۔ پوچھنے پر معلوم ہوا جن کے لیے اسلام آباد میں اپنی رہائش کا بندوبست تھا وہ تو چلے گئے۔لیکن جو دور دراز سے آئے تھے ان کے لیے وہیں سرکاری سطح پر رہائش کا انتظام کیا گیا تھا ۔ ایک خیال آیا یہ رہائش تو خانہ پری ہی ہوگی اس گرمی اور حبس میں وہاں کوئی کیسے رہے ۔ لیکن ایسا نہیں تھا ۔ یہ جان کر حیرت ہوئی کہ ان رہائش گاہوں میں نہ صرف اے سی لگے تھے بلکہ ونڈو اے سی تھے اور ماحول یخ تھا ۔ جس نے یہ انتظام کیا اس کا شکریہ اب کیوں نہ ادا کیا جائے۔
عازمین حج جب پاسپورٹ لینے گئے تو انہیں 62 ہزار تک کی رقم لوٹا دی گئی ۔ جب مہنگے حج پر ہم تنقید کر سکتے ہیں تو اتنی بڑی رقم کے لوٹائے جانے پر ایک ’’ ویل ڈن‘‘ کہنے میں کیسی کنجوسی ؟ رقم تو حکومت پہلے ہی لے چکی تھی ۔ جو تنقید ہونا تھی ہو چکی ۔ وہ یہ رقم واپس نہ کرتی تو ہم کیا کر لیتے؟ وہ یہ بھی کر سکتی تھی کہ اس رقم سے ہم صحافیوں کا ایک جہاز بھر لے جاتی اور مفت کا حج کروا دیتی اور اینکران کرام مفت کا حج فرمانے کے بعد سادگی اور ایمانداری پر آپ کو لیکچر دیتے رہتے اور کالم نگار حضرات اپنے سفر حج پر تقوی سے لبریز مضامین باندھتے۔
تھکے ہارے عازمین حج جب سعودی عرب اترتے تو امیگریشن کا مرحلہ شروع ہو جاتا ۔ اس میں کئی گھنٹے لگ جاتے تھے ۔ عمران خان کے کہنے پر اس دفعہ یہ ہوا کہ حجاج کی امیگریشن پاکستان میں ہوئی ۔روایت یہ ہے کہ سعودی عرب کے عملے نے انتہائی عزت و احترام کے ساتھ یہ امیگریشن کی ۔ جو لوگ حج کا فریضہ ادا کر چکے ہیں ان سے پوچھیے یہ کتنا بڑا کام ہوا ؟ ہمارے ہاں عمر بھر کی جمع پونجی اکٹھی کرنے کے بعد جب اتنی رقم اکٹھی ہوتی ہے کہ حج کیا جا سکے تو اکثر لوگ بوڑھے ہو جاتے ہیں ۔ یہ ضعیف اور ناتوان بوڑھے ہمارے ہی بزرگ ہیں ۔ انہیں سہولت ملی ہے تو کیا ایک شکریہ بھی ادا نہ کیا جائے؟
کھانے کا انتظام اچھا ہے۔ کھانے کے ساتھ فروٹ بھی ہوتا ہے اور دو تین قسم کا ۔ کوئی کوٹہ مختص نہیں کہ ایک حاجی اتنا لے سکے گا ۔ جتنا کوئی کھا سکتا ہے کھا لے۔ٹرانسپورٹ اچھی ہے۔ کچھ لوگ ان پڑھ ہیں ، ہر بار کمرہ نمبر بھول جاتے ہیں ، لفٹ آپریٹ نہیں کر سکتے ۔ان کی معاونت کے لیے خوش اخلاق عملہ موجود ہے۔ یاد رہے میں یہ گواہی معتبر روایات کی بنیاد پر دے رہا ہوں ۔ ایک جعلی ٹویٹ اور ایک ویڈیو پیغام کی بنیاد پر میں ان روایات کو رد نہیں کر سکتا ۔ ٹویٹ کی حقیقت تو آپ پر آشکار ہو چکی ، محترمہ نے اپنے دور حکومت کی ویڈیو شیئر کر دی اور کہا دیکھیے حاجی حکومت کو بد دعائیں دے رہے ہیں لیکن دوسری ویڈیو کو بھی غور سے دیکھیے جس انداز سے یہ صاحب گفتگو فرما رہے ہیں ، کھانے سے بو آ رہی ہے گھوڑوں کو کھلانے والے چنے مل رہے ہیں ، ایسے کردار ہمیں ہر شادی پر مل جاتے ہیں ۔ پہلے پلیٹ میں بوٹیوں کا مینار بنا لیتے ہیں، پھرکھا کھا کر جب پیٹ خراب کر لیتے ہیں تو کہتے ہیں کھانا ٹھیک نہیں تھا۔
حج کوئی معمولی اجتماع نہیں ۔ یہاں لاکھوں لوگ ہوتے ہیں ۔ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کا انتظام کرنا ہو تو کمی بیشی کا رہ جانا ایک فطری بات ہے۔ اس کوتاہی کا امکان نظر انداز نہیں کیا جا سکتا لیکن مجموعی طور پر اس بار اچھے انتظامات کیے گئے ہیں ۔ امید ہے حج تک یہ معیار برقرار رکھا جائے گا۔
…
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں