تم یاد آئے۔۔۔ ہما

تم یاد آئے۔۔۔۔

اشفاق احمد اپنی کتاب زاویہ کے باب نمبر چھ کے صفحہ نمبر 47 پر اپنے اٹلی کے قیام کا ایک واقعہ لکھتے ہیں۔۔

جس کا خلاصہ کچھ اس طرح ہے۔۔۔
میں روم یونیورسٹی میں بطور پروفیسر فرائض انجام دیا کرتا تھا، ایک روز یونیورسٹی سے واپسی پر میں نے شارٹ کٹ لینے کی وجہ سے اپنا روٹ بدل لیا جس پر مجھے ٹریفک سارجنٹ نے روکا اور میرا چالان کیا، اس چالان کو بھرنے میں مجھ سے نادانستہ تاخیر ہوئی اور مجھے کورٹ میں پیش ہونے کا نوٹس مل گیا، مجھ پر میرے مالک مکان نے شبہ ظاہر کرتے ہوئے کافی غصہ کیا کہ ہم آپ کو ایک شریف انسان سمجھے تھے آپکی وجہ سے ہماری ساکھ متاثر ہوسکتی ہے،میں خوف کے عالم میں کورٹ میں جج کے سامنے کھڑا تھا، جج نے مجھ سے میرے پیشے کے متعلق پوچھا، میں نے سہمے ہوئے لہجے میں آہستگی سے کہا کہ میں روم یونیورسٹی میں پروفیسر ہوں۔
جج چلایا کیا کہا پھر بتائیے، میں نے ہمت کرکے تھوڑی آواز سے کہا
کہ پروفیسر ہوں اور وہ جج اپنی سیٹ سے کھڑا ہوکر چیخنے لگا

A    teacher     is       in               the               court,

A         teacher           is       in    the      court…

اسکے بعد مجھے بیٹھنے کے لیے کرسی فراہم کی گئی اور جج نے انتہائی دھیمے انداز میں کیس کے قوانین سمجھا کر فیصلہ دیا۔۔

ترقی یافتہ قوموں کی ترقی کا راز ہی شاید یہ ہے کہ وہ اپنے اساتذہ کو اپنے سروں کا تاج سمجھتے ہیں ,انہیں انکے مرتبے کی بناء پر سب سے ذیادہ اہم سمجھا جاتا ہے

لیکن افسوس پاکستان میں جس کی لاٹھی اسکی بھینس کا نظام رائج ہے ،جو شخص بھی مسند اقتدار پر براجمان ہوجائے اس پر فرعونیت اور ہمیشگی حکومت کا نشہ اسطرح قائم ہوتا ہے کہ جیسے اب وہ ہر سیاہ و سفید کا خدا بن چکا ہے
پھر اپنی خدائی کی بقا کیلئے اسے چنگیز و ہلاکو خان بن کر ماڈل ٹاؤن میں معصوم لوگوں کا خون بہانا پڑے یا استادوں کی حرمت پامال کرتے ہوئے انہیں ہتھکڑیاں لگانا پڑیں سب جائز ہوجاتا ہے ۔۔۔۔
مورخہ 27 جولائی کو یہ خبر سامنے آئی کہ سینئیر صحافی عرفان صدیقی کو گرفتار کرلیا گیا ہے،انکا جرم بقول ارباب اختیار کرایہ دار کا کرایہ نامہ پولیس اسٹیشن میں جمع نہ کروانا تھا
لیکن یہ بقول ارباب اختیار تھا، حقیقت اس سے قدرے مختلف اسطرح نظر آئی کہ حاکم وقت اپنے شدید ترین مخالف نواز شریف سے وابستہ ہر شخص کو زیر عتاب لانا چاہتا ہے
کہیں کوئی نواز شریف کا اخلاقی حمایتی بن کر اسے کوئی فائدہ نہ پہنچادے اس ڈر سے ہر فرد ہی مشکوک کردیا گیا
پروفیسر عرفان صدیقی پر غیر سرکاری الزام یہ ہے کہ انہوں نے مریم نواز کی تقریر لکھی ایسی تقریر جس سے حکومتی ایوانوں میں خوف پیدا ہوا۔۔
اٹھتر سالہ پروفیسر عرفان صدیقی کے ہاتھوں میں جب ہتھکڑی لگائی گئی تو انہوں نے انہی ہاتھوں میں قلم بلند کرکے ایک خاموش پیغام دیا کہ

ایک استاد کی حرمت پامال ہوئی ہے

پروفیسر عرفان صدیقی کو تو ایک دن بعد عدالتی چھٹی والے دن رہ کردیا گیا کیونکہ معاملے کا عدالت یا قانون سے کوئی تعلق نہیں تھا لیکن ایک بوڑھے استاد کی حرمت پامال ہوتے دیکھ کر آنکھوں کے سامنے ایک اور ستر سالہ بوڑھے پروفیسر کے ہتھکڑی لگے ہاتھ اسکی قید اور پھر بہیمانہ قتل یاد آگیااور آنکھیں اشکبار ہوگئیں ۔۔۔
وہ فلسفے کا استاد، جس کی دلآویز مسکراہٹ اور دھیما لہجہ، قلندرانہ طبعیت انتہائی مسحور کن تھی

اسکا جرم  صرف ا یک ایسے شخص کا ساتھ دینا تھا جس کی آواز پر اس ملک کے خداؤں نے پابندی لگائی تھی

بانی ایم کیوایم الطاف حسین پر سنگین غداری کے الزامات لگاکر ان سے ہر فرد کا رابطہ جرم قرار دیا گیاان کے مؤقف کی وضاحت دینا بھی ممنوع ہوگیا،

پروفیسر حسن عارف کی الطاف حسین اور ایم کیو ایم سے قربت بہت پرانی نہیں تھی بلکہ وہ ہر دور میں مظلوموں کے ساتھ ظالموں کے خلاف آواز بلند کرتے پائے گئے

ذوالفقار علی بھٹو دور میں آمر ضیاء الحق کے خلاف ڈٹ کر کھڑے ہوجانا، بے نظیر بھٹو کا ساتھ دینا اور پھر مرتضی بھٹو کے مسٹریس قتل کے بعد پیپلزپارٹی سے بدظن ہوکر خاموشی اختیار کرلینا انکے سنجیدہ سیاسی کرئیر کی مختصر سی داستان ہے۔۔۔
طویل عرصے بعد ایم کیوایم الطاف حسين کا ساتھ اسوقت دیا جب ریاستی ادارے کسی بھی طور لندن قیادت کی بات سننے کے روادار نہ تھے ،اوربانی ایم کیوایم الطاف حسین پر سنگین غداری کے الزامات لگاکر ان سے ہر فرد کا رابطہ جرم قرار دیا گیاان کے مؤقف کی وضاحت دینا بھی ممنوع ہوگیا

پروفیسر حسن عارف کو پریس آفس کے باہر سے رینجرز کے ذریعے گرفتار کرواکر ان پر مقدمہ چلایا گیا  ،انکے ہاتھوں میں لگی ہتھکڑیاں حکومت وقت اور ہر ادارے کے جبر و ذیادتی کی داستانیں سناتی نظر آرہی تھیں ،

پھر کچھ عرصے بعد انہیں جیل سے رہائی بھی دی گئی اور مستقل زباں بندی کیلئے انہیں بہیمانہ طریقے سے قتل بھی کردیا گیا ۔۔

حکومتی ذرائع کے مطابق انہیں دل کا دورہ پڑا تھا لیکن اس بوڑھے استاد کی خون آلود  تصویریں کچھ اور ہی داستان سنارہی تھیں کہ
تمہاری عمر جو بھی ہے
تمہارا بطور پیشہ مرتبہ جو بھی ہے
ریاست کی نافرمانی کی سزا صرف اور صرف موت ہے۔۔۔

اگر پروفیسر حسن عارف کا جرم الطاف حسین کا ساتھ دینا تھا ان کی تقریروں کی وضاحت دینا تھا، یہ مطالبہ کرنا تھا کہ یہ پابندی غلط ہے تو
آج ریاست کے کان کیا بہرے ہوگئے ہیں؟؟؟

جب بلاول ببانگ دہل اعتراف کرتا ہے کہ بانی ایم کیوایم کی تقریروں پر پابندی لگائے جانا غلط تھا
اور تمام سیاسی جماعتوں کا اسوقت چپ رہنا، ہمارا چپ رہنا بھی غلط تھا۔۔۔۔

جن اصولوں کے تحت ایک ستر سالہ بوڑھے کی حرمت پامال کرکے زندگی چھینی گئی
اگر الطاف حسین کا جرم اتنا ہی بڑا تھا تو پھر بلاول کے بیان پر خاموشی چہ معنی؟؟؟؟؟؟

بات سیدھی سی ہے بلاول کے ساتھ ایک مضبوط سیاسی طاقتور جتھہ ہے اسلئے اسے ہاتھ لگانے کہ جرت کوئی نہیں کرے گا

اس ریاست کے فرعونوں کا غضب جب بھی ٹوٹا، قلم پر ٹوٹا، قلم بلند کرنے والوں پر ٹوٹا ،علم بلند کرنے والوں پر ٹوٹا۔۔۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

سروں سے تمدن اتار کر خوش ہیں
یہ لوگ اپنے معلم کو مار کر خوش ہیں

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply