کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے۔۔۔عامر عثمان عادل

بہت سال پہلے کی بات ہے زمیندار کالج گجرات سے فارغ التحصیل ہوئے کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کوٹلہ ارب علی خان میں قائد کیمبرج سکول کے نام سے تعلیمی ادارے کی بنیاد رکھی اور یوں عملی زندگی کا آغاز کیا۔
ایک روز ممتاز شاعرہ کالم نگار ٹی وی اینکر محترمہ صغری ٰٰٰ صدف کی جانب سے دعوت نامہ موصول ہوا ان کے پہلے شعری مجموعہ ” میں نہ مانوں ہار ” کی تقریب رونمائی گجرات پریس کلب میں منعقد ہو رہی تھی۔
ادب سے گہری وابستگی کی وجہ سے تقریب میں شرکت کیلئے پریس کلب موجود تھا پروگرام کا آغاز ہونے سے قبل محترمہ صغری ٰصدف میرے پاس تشریف لائیں اور کہا کہ ایک پریشانی ہو گئئ ہے آج کی اس تقریب کی کمپئرنگ معروف ماہر امراض جلد اور موسیقی پر دسترس رکھنے والے ڈاکٹر اظہر چودھری کے ذمہ تھی عین وقت پر انہیں کوئی  ایمرجنسی درپیش آ گئئ اور انہوں نے معذرت کر لی اب ہمارے پاس کوئی  اور متبادل بندوبست بھی نہیں تو عامر کیا آپ کنڈکٹ کر لو گے میں نے جواب دیا اپنے تئیں کوشش کرتا ہوں گزارا ہو جائے۔۔
خیر تقریب شروع ہو گئئ میں نے مائیک سنبھال لیا اس وقت کے ڈپٹی کمشنر گجرات اس تقریب کے صاحب صدر اور میاں عمران مسعود ایم پی اے پارلیمانی سیکرٹری پنجاب مہمان خصوصی کے طور پر اسٹیج پر جلوہ افروز تھے۔
میاں عمران مسعود ایک منجھے ہوئے سیاستدان اور بہت اچھے مقرر بھی ہیں خطاب کیلئے آئے تو اپنی تقریر کا آغاز یوں کیا
” محترمہ صغری صدف کی کتاب مجھے موصول ہوئی  ورق گردانی کی تو حیرتوں کے در وا ہوتے گئے کہ ایک خاتون جس کا تعلق کوٹلہ کے علاقہ سے ہو وہ پڑھ لکھ جائے پی ایچ ڈی بھی کر لے اور شاعری پر کتاب بھی تو جناب ڈپٹی کمشنر حیرت تو ہو گی کیونکہ کوٹلہ ارب علی خان تو قتل و غارت گری کے حوالے سے مشہور ہے “۔۔
میاں صاحب کے الفاظ آری بن کر میرے سینے کو چیرے جا رہے تھے یوں لگا کسی نے بھرے مجمع میں مجھے گالی دے ڈالی ہو ،دل ہی دل میں ٹھان لیا کہ جواب دینا ضروری ہو گیا ہے۔۔
میاں صاحب اپنی تقریر مکمل کر کے نشست افروز ہوئے میں مائیک تک پہنچا اور اس کے بعد مجھے نہیں پتہ میرے اندر کھولتا ہوا لاوا الفاظ بن کر کیسے نکلا
میاں صاحب !
“آپ نے ابھی ذکر کیا کوٹلہ کا کہ وہاں تو کچھ اور ہوتا ہے تو جناب حسن اتفاق سے میرا تعلق بھی اسی کوٹلہ سے ہے آپ نے فرمایا کہ کوٹلہ میں کچھ اور ہوتا ہے تو بصد احترام یہ کہنے کی جسارت کرتا ہوں کہ آپ لوگ تو صرف مائیک پہ آ کے بات کر دیتے ہیں ہم نے اپنے پیاروں کے گولیوں سے چھلنی لاشے کندھوں پر اٹھائے ہیں آپ دشمنی کا ذکر ازراہ تفنن کرتے ہیں ہماری نسلیں اس آگ میں جلتی آ رہی ہیں۔
جناب ہمیں بھی امن کی زندگی سے اتنا ہی پیار ہے جتنا آپ لوگوں کو اور مجھے کہنے دیجئے کہ یہ آگ آپ سیاستدانوں کی ہی لگائی  ہوئی  ہے آپ نفرتوں کو ہوا دیتے ہیں ظالم کی پشت پناہی کرتے ہیں تو کوٹلہ جیسے علاقے دشمنی کے شعلوں کی لپیٹ میں آتے ہیں جناب ہم بھی سکون سے جینا چاہتے ہیں میاں صاحب آگے بڑھیے خدارا اس آگ کو بجھانے میں ہماری مدد کیجئے “۔۔
میری بات ختم ہوئی تو ڈسٹرکٹ پریس کلب کا کھچا کھچ بھرا ہال مسلسل کتنی دیر تالیوں سے گونجتا رہا۔۔
تقریب ختم ہوئی  تو میاں عمران مسعود میرے پاس چل کر آئے اور کہا کہ ہم تو خود اس کلچر کے خلاف ہیں اور دشمنی کو صلح میں بدلنے کا آغاز ہم نے اپنے گھر سے کیا تھا جب میاں اکبر کا خون معاف کیا تھا اچھی بات ہے یہ سلسلہ ختم ہونا چاہیے بہت سے لوگ میرے آس پاس جمع تھے اور مجھے اس جرات رندانہ پر شاباش دیتے رہے کچھ نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ ایک نوجوان لڑکا کس طرح بھرے مجمع کے سامنے سیاستدانوں کو مخاطب کر کے یوں کھری کھری سنا سکتا ہے۔
آج بھی وہ دن یاد کرتا ہوں تو بے اختیار اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں جس نے مجھ عاجز و بے نوا پر اتنا بڑا کرم کیا کہ کچھ لفظ میری دسترس میں کر دیئے اور پھر حق گوئی کی طاقت بھی عطا فرما دی۔
آج حیرت ہوتی ہے جب کچھ صحافی میری ذات پر انگلی اٹھانے ہوئے کہتے ہیں کہ محض داد کی خاطر کچھ کہتا ہوں۔۔
اگر اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر دوسروں کی ناراضگی کی پرواہ کئے بغیر کلمہ حق کہنے سے داد ملتی ہے تو سو بسم اللہ آپ بھی دیر کیوں کرتے ہو آو چل کے دکھاو اس راستے پر ,سولی پر چڑھ کر بھی کہو سچ اور میرے حصے کی داد بھی آپ سمیٹ لو۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

صادق ہوں اپنے قول میں غالب خدا گواہ
کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے!

Facebook Comments

عامر عثمان عادل
عامر عثمان عادل ،کھاریاں سے سابق ایم پی اے رہ چکے ہیں تین پشتوں سے درس و تدریس سے وابستہ ہیں لکھنے پڑھنے سے خاص شغف ہے استاد کالم نگار تجزیہ کار اینکر پرسن سوشل ایکٹوسٹ رائٹرز کلب کھاریاں کے صدر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply