کمراٹ۔۔۔۔توصیف ملک/قسط2

پھلوں سے بھرا سفر :

(میرے ساتھی مجھ سے کہہ رہے تھے کہ سفر میں بالکل ایسا ہی ہوا تھا جیسا کہ لکھا ہے لیکن اب پڑھنے کے بعد زیادہ مزہ کیوں آ رہا ہے
تو ان سے کہا کہ زندگی بھی اسی طرح ہے ، اچھے اور برے حالات ، خوشی اور تنگی ہر وقت ہمارے ارد گرد ہوتے ہیں لیکن زیادہ اہم یہ ہے کہ ہم ان لمحات میں سے کیا” کشید ” کرتے ہیں )

دِیر سے نکلتے ہوئے نو بج چکے تھے اور دھوپ تیز ہو چکی تھی جس کی وجہ سے گرمی محسوس ہو رہی تھی ، گائیڈ ہمیں سیدھا اڈے پر لے گیا جہاں پہلے ہی گاڑی والے سے بات ہو چکی تھی ، میرے کزن نے ٹیلی نار کی سم لینی تھی کیونکہ مقامی لوگوں نے بتایا تھا کہ وہاں اوپر پہاڑوں پر صرف ٹیلی نار کے ہی سگنل آتے ہیں جبکہ میں لاہور سے ہی سِم لے چکا تھا ، میں نے بھی اتنی دیر بازار کا چکر لگانے کا سوچا اور اجمل خان صاحب کے ساتھ نکل پڑا ، بازار ماشاءاللہ گنجان تھا اور لوگ اپنی ضروریات کی خرید وفروخت کر رہے تھے۔

ایک بینک نظر آیا جس کے باہر اچھا خاصا رش لگا ہوا تھا ، تجسس کی وجہ سے ہم اس طرف ہو گئے تو دیکھا کہ یہ رش نوجوان لڑکوں کا تھا جنہوں نے کوئی فارم ہاتھ میں پکڑ رکھے تھے اور بینک میں جمع کروانا چاہتے تھے شاید کوئی سرکاری نوکری کا چکر تھا ،اسی وقت مجھے بینک کا اے ٹی ایم نظر آگیا تو یاد آیا کہ رقم کی تو مجھے بھی ضرورت ہے کیونکہ جلدی میں رقم لینا بھی بھول گیا تھا ، اسی وقت رقم نکلوائی ، اتنی دیر میں ماموں کا فون آ گیا کہ جلدی کرو۔۔


وہاں پھل سستا تھا حالانکہ پنجاب کا خربوزہ موجود تھا جس کو ہمارے ہاں ” شربوزہ ” بھی کہا جاتا ہے اور یہ بہت میٹھا ہوتا ہے ، اس کا 13کلو کا ایک پیک بنایا گیا تھا جو کہ چار سو میں دے رہا تھا اور مزید بھی دام کم کر سکتا تھا لیکن سفر میں بوجھ زیادہ ہونے اور مقامی کی اطلاع پر کہ وہاں بھی پھل مل جاتے ہیں ،ہم نے خربوزے نہیں لیے اور بھاگم بھاگ گاڑی کی طرف دوڑے کہ کہیں ماموں سے ڈانٹ ہی نہ پڑ جائے۔

گاڑی میں بیٹھنے سے پہلے متلی کی دو گولیاں بھی کھا لیں اور بسم اللہ پڑھ کے اگلا سفر شروع کیا ، گرمی زیادہ ہونے کی وجہ سے گاڑی کے شیشے کھلے رکھے اور ڈرائیور سے سب سے پہلی بات یہی پوچھی کہ ” سردی ” کب شروع ہو جائے گی۔۔
ظاہر ی بات ہے ہم تو ادھر آئے ہی سردی کے لیے تھے تو ڈرائیور نے ایک گھاگ مقامی کی طرح فوراًً  کہا کہ بس آدھے گھنٹے تک سردی شروع ہو جائے گا اور ہم سبز پہاڑوں کو دیکھتے ہوئے سردی کا انتظار کرنے لگے۔۔

آدھا گھنٹہ گزرے ایک گھنٹہ ہو چکا تھا لیکن ابھی تک ” سردی ” نہیں آئی تھی ، ماموں بار بار پیچھے مڑ کر دیکھ رہے تھے کہ جیسے پوچھ رہے ہوں
” باؤ سردی کتھے اے “۔۔

اور میرا حال زیادہ خراب تھا ، روڈ تو پکے تھے لیکن بل کھاتی سڑکوں کو پتا نہیں میرے سے کیا مسئلہ ہے کہ پوری گاڑی میں صرف میرا ” کھایا پیا ” باہر نکلنے کو بے قرار ہوتا ہے
سردی تو نہ آئی لیکن میری ” آ ” گئی۔۔۔۔

ایک جگہ پر مقامی لوگوں نے چشمے کے ٹھنڈے پانی کا جگاڑ لگایا ہوا تھا ساتھ ہی موسم کے تازہ پھل بیچ رہے تھے جہاں میں نے سب سے پہلے اپنا سر آؤ دیکھا نہ تاؤ چشمے کے نیچے کر دیا جس سے ایک گونہ سکون محسوس ہوا لیکن پانی بہت ٹھنڈا تھا۔۔
وہیں سے مقامی ” آلوچے ” جن کو وہ لوگ آلو بخارا کہتے ہیں خریدے ، یہ بالکل تازہ کسی درخت سے اتارے گئے تھے کہ ہرے بھرے پتے بھی ساتھ موجود تھے ، ان کا سائز چیری کے برابر تھا اور بالکل سفید سبز رنگ کے تھے ، کھانے میں کھٹے میٹھے اور رس سے بھرے ہوئے تھے ، یہیں سے آڑو بھی لے لیے ، بوتلوں میں پانی بھرا اور آگے چل دئیے۔۔

میں حیران ہوتا ہوں ان لوگوں پر جو وہاں جا کر بھی ” منرل واٹر ” کی بوتلیں خریدتے ہیں ، پہاڑوں چشموں کا پانی ایک عجیب تاثیر رکھتا ہے ، ٹھنڈا میٹھا اور روح کو تازہ کرنے والا ، میں نے جتنا وقت وہاں گزارا صرف یہی چشموں کا پانی پیا ، یہ پانی اپنے اندر قسما قسم کے منرلز رکھتا ہے ، یہ بھوک ختم کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے
اوپر پہاڑوں پر ہماری بھوک اسی پانی کی وجہ سے کم ہو گئی تھی حالانکہ جتنی مشقت اور پیدل چلنا ہوتا ہے وہاں تو ڈبل بھوک لگنی چاہیے اور سب سے بڑی بات کہ نہ تو کمزوری محسوس ہوتی ہے  اور کھایا پیا تھوڑی دیر میں ہی ہضم ہو جاتا اور طبیعت پر بوجھ بھی نہیں رہتا۔

راستے میں مختلف بازاروں سے گزرنا ہوا جو کہ دراصل چھوٹے چھوٹے قصبے تھے جہاں اردگرد پہاڑوں پر رہنے والے اپنی ضروریات کا سامان لینے آتے تھے۔۔
میرا کزن موسیقی کا شوقین ہے تو گاڑی میں بیٹھتے ساتھ ہی ڈرائیور خان صاحب سے ” ایگژلری کیبل ” کا پوچھا تو خان صاحب ( جو کہ اصل میں کوہستانی تھے ) نے ایک مائیکرو میموری کارڈ دکھایا کہ
“کیبل تو نہیں ہے لیکن گانے مارے پاس اے ”
اور گاڑی میں پشتو گانے شروع ہو گئے پھر سے !

ہم نے ایک دوسرے کی شکل دیکھی اور بھرپور قہقہ لگایا جس پر خان صاحب نے ہمیں غور سے دیکھا اور خود بھی ہنسنے لگے۔۔
جس بازار میں ہم رکے تھے وہاں سے خان صاحب نے سب سے پہلے کیبل خریدی اور اتنی دیر میں ماموں نے حکم دیا کہ جاؤ کوئی مزید پھل خرید لو ، مجھے لگتا ہے کہ آگے کچھ نہیں ملنے والا ، میں نے اور اجمل خان صاحب نے بازار کا چکر لگایا اور دو درجن کیلے خرید لیے ، یہ کیلے بہت برکت والے تھے کیونکہ بار بار کھانے کے باوجود یہ ہمارے ساتھ جھیل تک گئے تھے بلکہ ایک آخری کیلا جو کہ بیچارہ اکیلا رہنے کی وجہ سے مرجھا گیا تھا وہ بھی جاز بانڈہ سے واپسی پر وہاں کے کھوتے کے کام آ گیا تھا۔۔

اب سفر دوبارہ شروع ہوا اور ہماری گاڑی میں موسیقی گونج رہی تھی ، ایک بات بتانا بھول گیا کہ میرے کزن میں سنہ 1923 کی روح موجود ہے جس کی وجہ سے گانے بھی اسی زمانے کے لگ چکے تھے ، اب ہم تو اپنی گیلری میں گانے نہیں رکھتے لیکن جہاں کچھ ” چل ” رہا ہو تو ذوق اعلیٰ ہی رکھتے ہیں۔

راستے میں پہاڑ اپنا دامن پھیلائے ہمیں ہی دیکھ رہے تھے ، پتا نہیں یہ کتنے ہزاروں سالوں سے یہاں موجود ہیں ، کتنے ہی زمانے دیکھ چکے ہیں ، کتنے ہی فاتح ان پر حکومت کر چکے ہیں ، کتنے ہی موسموں کی سختیاں برداشت کر چکے ہیں لیکن یہ شکایت نہیں کرتے !

یہ اپنی طرف متوجہ ہر شے کو مبہوت کر دیتے ہیں ، اس کو ایک الگ دنیا میں پہنچا دیتے ہیں ، میں بھی ان پہاڑوں میں گم تھا کہ ایک سٹاپ مزید آ گیا جہاں پر ہم نے سوات کے اصلی آلو بخارے خریدے ، پہلا آلو بخارا میں نے خریدنے سے پہلے چکھا تو تھوڑا کھٹا میٹھا تھا لیکن بعد میں جب گاڑی میں بیٹھ کر کھانا شروع کیے تو اتنے مزیدار کہ ہم چار لوگ دو کلو کچھ دیر میں ہی کھا گئے ،بعد میں ڈھونڈتے رہے لیکن ویسے نہیں ملے۔

تھل سے تقریباً آدھا گھنٹہ پہلے ڈرائیور نے گاڑی روکی اور کہا کہ یہ میرا گاؤں ہے ، یہاں پر ٹراؤٹ مچھلی کے فارم بنے ہوئے تھے جس میں سے ایک سرکاری تھا ، ڈرائیور ہمارے ساتھ گھل مل گیا تھا ، شکل سے کنوارہ لگ رہا تھا لیکن اس کا بڑا بیٹا ماشاءاللہ پچیس سال کا تھا اور اس کا بھی ایک بیٹا تھا ، یہ پہاڑی لوگ زیادہ دیر جوان رہتے ہیں ، پہاڑوں پر ڈھونڈنے سے بھی ایک موٹا شخص ہمیں نہ ملا ، اڑتالیس سال کا ہونے کے باوجود سر اور داڑھی کے سب بال کالے تھے
ڈرائیور ہمیں سرکاری فش فارم کے اندر لے گیا جہاں پہلی دفعہ ٹراؤٹ کو زندہ دیکھا اور غور سے سب مچھلیوں کو دیکھا کہ کونسی مچھلی ایسی ہو گی جو ہمارے جسم کی توانائی کا ذریعہ بنے گی لیکن ماموں نے کہا کہ جلدی نکلو تا کہ مقام پر جلدی پہنچیں ، وہاں کمراٹ میں بہت مچھلی ہوتی ہے۔۔

یہیں پر ہمارا ڈرائیور بھی تبدیل ہو گیا ، خان صاحب کا بیٹا باہر سڑک پر ہمارا انتظار کر رہا تھا ، اس کے والد اب گھر جا رہے تھے اور آگے کا سارا نظام اب اس چھوٹے خان صاحب نے سنبھالنا تھا جو کہ عرفان ( ڈرائیور کا بیٹا ) نے بہت اچھی طرح انجام دئیے لیکن آگے جا کر ہمارا کام بھی اسی شہزادے نے خراب کر دیا !

تھل کا ہوٹل :

دِیر سے نکلتے ہوئے گائیڈ سے میں نے اس کی فیس بارے پوچھا تھا ویسے تو سعید بابو نے بتایا تھا کہ یہ لوگ ایک ہزار روپیہ ایک دن کا لیتے ہیں تو اس لحاظ سے میرا پروگرام تھا کہ کچھ تھوڑا بہت دے دوں لیکن اس نے انکار کیا اور کہا کہ کل کر لیں گے لیکن وہ والی ” کل ” نہ آئی اور اس کی وجہ آگے آ رہی ہے جبکہ گائیڈ نے ڈرائیور کو آگے تھل کے ہوٹل کا نام اور جس بندے سے وہاں ملاقات کرنی تھی اس کا نمبر بھی دے دیا تھا۔
ہم ” سردی ” سے مایوس ہو چکے تھے ، اسی مایوسی کی وجہ سے سب گم صم تھے لیکن آلو بخارے سے کیا مایوسی ؟
وہ ہم دبا کر کھا رہے تھے ، اتنا میٹھا آلو بخارا کہ منہ میں جا کر گھل جائے اور جب آخر میں گھٹلی قریب آتی تو ہلکی سی کھٹاس مزے کو دوبالا کر دیتی۔

اتنی دیر میں آسمان پر بادل آنا شروع ہو گئے اور دور سے برف کے پہاڑ ہمارے لیے انرجی بوسٹر کا کام کر رہے تھے ، بارش کا ماحول بن رہا تھا اور بارش جہاں بھی ہو اس کا پہلا قطرہ ہمیشہ خوشی دیتا ہے
اب ہوا بھی ٹھنڈی ہونا شروع ہو گئی تھی اور منزل بھی قریب آ رہی تھی ، ڈرائیور کے والد صاحب یعنی پرانے ڈرائیور نے اترتے ہوئے اپنے بیٹے کے کان میں تھوڑی دیر کھسر پھسر بھی کی تھی ، عرفان اب ہم سے آگے کے سفر بارے پوچھ رہا تھا کہ وہاں پہنچ کر آپ کیا کریں گے ؟

ہم اس معاملے میں ابھی لا علم تھے چونکہ سب کا کمراٹ کا پہلا سفر تھا تو کسی کو بھی اس سے آگے کا علم نہیں تھا ، نہ ہم راستے جانتے تھے اور نہ ہی منزل جانتے تھے ، ہمیں صرف یہ پتا تھا کہ کمراٹ ایک خوبصورت اور دلکش وادی ہے جہاں کا موسم ٹھنڈا ہوتا ہے اور ہم نے کم وقت میں بہت کچھ دیکھنا ہے اسی لیے ماموں نے سب کو تیار کر لیا تھا کہ اب ” تھل ” پہنچ کر کوئی آرام نہیں کرے گا بلکہ کھانا ، چائے وغیرہ کے بعد فوری کسی گھومنے پھرنے والی جگہ جائیں گے اور سب اس کے لیے پر جوش تھے۔
ڈرائیور کے پوچھنے پر آگے کہاں جائیں گے تو الٹا اسی سے سوال کیا کہ آپ بتاؤ کہاں جانا چاہیے ؟

اس نے کہا کہ کمراٹ اور اس کی آبشار پر چلے جائیں ، آج کے دن صرف یہی ہو سکتا ہے کیونکہ آدھا دن ڈھل چکا ہے اور آپ کو تھل میں ہی رکنا چاہیے۔
اتنی دیر میں ڈرائیور نے مختلف جگہوں پر فون کرنے شروع کر دئیے ، وہ اپنی کوہستانی زبان میں بات کر رہا تھا جس کا اکثر حصہ ہمارے ساتھ موجود اجمل خان صاحب کو بھی سمجھ نہیں آ رہا تھا ، دراصل کوہستانی زبان میں کئی زبانوں کی آمیزش ہو چکی ہے ، یہ لوگ اپنے آپ کو مصری کہتے ہیں ، ان کے بقول ان کے آباؤاجداد مصر کے رہنے والے تھے اس کے بعد ان لوگوں نے ہجرت شروع کر دی اور کئی نسلوں نے مختلف علاقوں کا سفر کیا جس میں ایران ،افغانستان اور پھر آخر میں پاکستان شامل ہے اور اسی وجہ سے ان کی زبان میں فارسی اور پشتو کے الفاظ بھی رائج ہیں۔

ڈرائیور دراصل دوسرے ڈرائیورز کو فون کر کے معلومات لے رہا تھا کہ تھل سے آگے جانے کے وہ لوگ کتنے پیسے لیتے ہیں اور میرا خیال ہے اس نے ایک فون ہوٹل والے کو بھی کیا تھا ( یہ ہوٹل والا دوسرا تھا ، گائیڈ والا نہیں تھا )

آخر جاپانی فیلڈر گاڑی تھل کے بازار میں پہنچ گئی ، یہ ایک چھوٹا قصبہ ہے جہاں اب کچھ ہوٹل اور ریسٹورنٹ بن چکے ہیں ورنہ یہ بھی ایک ویسا ہی بازار تھا جیسا کہ ہم پیچھے دیکھتے آئے تھے ،جہاں نزدیکی پہاڑوں پر رہنے والے اپنی ضرورت کا سامان خریدنے آتے تھے ، ڈرائیور نے گاڑی کو دریا کے کنارے بازار میں روک لیا اور پوچھا کہ کہاں جانا ہے ،ماموں نے گائیڈ والے بندے کے ہوٹل بارے بتایا تو اس نے کہا کہ ادھر بازار میں میرے چاچو کا بھی ایک ہوٹل ہے جو کہ” پکا” ہوٹل ہے اور ابھی نیا بنا ہے ،آپ ایک دفعہ یہاں ٹرائی کر لو ، کمرے دیکھ لو ریٹ پوچھ لو پھر آگے چلتے ہیں ، ہم نے کہا کہ مناسب بات ہے صرف گائیڈ پر انحصار نہیں کرنا چاہیے ،ہمیں اپنے طور پر بھی معلومات لینی چاہیے۔

پکا ہوٹل اس لیے کہا تھا کہ یہاں بارش تقریباً روز کا معمول ہے اگر مسلسل بارش نہ ہو تو دو دن بعد ضرور ہو جاتی ہے ، یہاں زیادہ تر ہوٹل” ٹین ” سے بنائے جاتے ہیں یعنی لکڑی کے فریم کو جوڑ کر چاروں طرف لوہے کی باریک چادر لگا دی جاتی ہے اور لا محالہ چھت بھی اسی طرح ہوتی ہے تو جب بارش ہوتی ہے تو ٹین کی چھت بہت آواز دیتی ہے اور رات کو اکثر ڈسٹرب کرتی ہے ، اس لحاظ سے پکے ہوٹل سے مراد لینٹر کی چھت والے کمرے تھے اور یہی اس کی خاصیت تھی کہ سردی سے بھی بچاؤ اور بارش کی آواز سے بھی بچت ہو جاتی ہے۔

جہاں ہماری گاڑی کھڑی ہوئی تھی اس کے بالکل سامنے ڈرائیور کے چچا کا ہوٹل تھا ، ڈرائیور نے جلدی سے چچا کے پاس جا کر کچھ کہا اور ہمیں ہوٹل کی طرف آنے کا اشارہ کیا ، ساتھ ہی دوسرے گاڑیوں والے بھی ہماری طرف لپکے کہ آپ نے کہاں جانا ہے ، ہمیں بتاؤ آپ کو لے جائیں گے۔۔
پروفیشنلی طور پر یہ ایک غلط کام تھا کہ ابھی ہمارا سامان پہلی گاڑی میں ہی موجود تھا اور دوسرے ڈرائیورز بھی اس بات کو جانتے تھے لیکن ہمارے پاکستان میں اکثر ایسا ہی ہوتا ہے ، دوسروں کے پکے گاہک کو جان بوجھ کر خراب کیا جاتا ہے۔

ہوٹل کا مالک چھریرے بدن کا تھا ، گلے میں ایپرن باندھ رکھا تھا ، یہ ہوٹل کا مالک ہی ہوٹل کا سب کچھ تھا ، ریسٹورنٹ کا کُک بھی تھا ، روم سروس بھی دیتا تھا ، صفائی بھی خود ہی کرتا تھا اور ریسیپشنسٹ کا کام بھی بخوبی انجام دے رہا تھا ، ہوٹل چھوٹی سنگل سٹوری عمارت پر مشتمل تھا جس کے فرنٹ پر ایک چھوٹا سا ریسٹورنٹ نما چائے خانہ بنایا گیا تھا اور اس کے پیچھے تین کمرے ترتیب سے بنائے گئے تھے ،دو میں اٹیچ باتھ موجود تھے جس میں سے ایک درمیان والا کمرہ ہمیں دکھایا گیا لیکن اس کا ایک مسئلہ تھا کہ اس کی صرف تین بیڈ تھے جبکہ ہم چار لوگ تھے تو ہوٹل کے مالک نے فوراً ًکہا کہ آپ کو زمین پر ایک میٹریس لگا دوں گا ، کمرہ اور واش روم صاف ستھرے تھے ، بیڈ اور میٹریس بھی نئے تھے اور نیچے قالین بچھا ہوا تھا ، ہمیں سب کو کمرہ پسند آیا اور پھر ماموں نے ڈرائیور لڑکے سے کرایہ پوچھا تو اس نے پہلے ہاتھ ہی ہزار روپیہ کہا ، ہم مطمئن تھے لیکن گائیڈ پر بھروسے کی وجہ سے ڈرائیور کو کہا کہ ایک دفعہ گائیڈ والا ہوٹل بھی دکھا دو ، وہ ہمیں بادل ناخواستہ گاڑی میں ” لوڈ ” کر کے دریا کے کنارے چلنے لگا ،ساتھ ہی دریا کا پل تھا جس پر گزرتے ہوئے دریا کا جوش واضح نظر آتا ہے۔

تھوڑی دیر کے بعد ایک ٹین کا ہوٹل آ گیا ، یہ جگہ پچھلے ہوٹل سے بڑا  تھااوردریا کے بالکل ساتھ تھا، گائیڈ کے بتائے ہوئے بندے کو تلاش کرنا شروع کیا جو کہ دو منٹ بعد حاضر ہو گیا ،اس کے سامنے گائیڈ اور شہزاد بھائی کا نام لیا تو اس کی باچھیں کھل گئیں ، فٹا فٹ ہماری تعداد پوچھی اور ایک ٹین کے کمرے کی طرف لے گیا
کمرہ ویسا ہی تھا جیسا ہونا چاہیے تھا ، پہاڑی سفر میں ہوٹل کے کمرے میں تین خصوصیات سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہیں ، ہوٹل کے آس پاس کا نظارہ ، اچھا واشروم بمعہ گرم پانی اور سب سے اہم نرم گرم بستر !

نظارہ تو نہ اس ہوٹل میں تھا اور نہ ہی پچھلے ہوٹل میں تھا ، کمروں میں کوئی کھڑکی ہی نہیں تھی اور نہ ہی کوئی صحن یا کوریڈور تھا جو نظارے ہمیں ملتے ، اب وقت تھا ریٹ پوچھنے کا ، ٹین کی وجہ سے یہ ہوٹل پہلے ہی اپنے نمبر کھو چکا تھا اوپر سے ریٹ بھی پچیس سو روپیہ ایک دن کا بتایا ، یہ وہ لمحہ تھا جب ماموں نے مجھے گھورا کہ یہ ہے تمہارے گائیڈ کا ہوٹل ؟
میں نے فوراً گاڑی والے کو کہا کہ بھائی نکلو یہاں سے ہمیں پہلے ہوٹل ہی لے چلو کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کے چاچو کا بھی موڈ بدل جائے ، پیچھے سے ہوٹل والا آوازیں دینے لگ گیا کہ حاجی صاحب آپ کو سستا کمرہ دکھاتا ہوں ، تھوڑا ٹھہرو تو سہی لیکن ہمیں تو چوتھا گئیر لگ چکا تھا ، ارد گرد بھی ہوٹل تھے لیکن پہلے والا ہمیں ” پسند ” آ چکا تھا
پہلے والے ہوٹل میں پہنچ کر روایتی لاہوری بن گئے اور کمرے کے ریٹ بارے بھاؤتاؤ شروع کر دیا جو کہ آٹھ سو پر ختم ہوا اور سامان رکھ کر سکون کا سانس لیا۔

یہ ہمیں اگلے دن شدت سے احساس ہوا کہ ہمیں تو تھل میں ٹھہرنا ہی نہیں چاہیے تھا !

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply